Laaltain

تخلیق کار

26 جولائی، 2016
وہ کردار سچائی کا سیاہ شائبہ تھا جو حقیقت کو پسِ پشت ڈال کر میری سوچ پر حاوی تھا۔ اس نے کہا تھا

 

“جو بتائی گئی عمر کے تمام لمحات ہوا میں معلق کیے کھڑا ہو وہ ایک لمحہ۔۔۔۔ کمی کا ایک لمحہ۔۔۔۔انتظار کی تباہ کاریوں کو گلزار کر دینے والا لمحہ۔۔۔۔ جو المیہ ثابت ہو سکتا ہو۔۔۔ کسی نظر کی خاموشی المیے کو تقویت بھی بخشتی ہو۔۔۔ افراد سے کردار ہونے کا عمل ایسے ہی کسی لمحے کا منتظر ہوتا ہے۔ “

 

“کیا تم بھی ایسے ہی کسی لمحے کی تخلیق ہو ؟” میں نے اس سے پوچھا تھا۔

 

“نہیں ۔۔۔مجھے ایک نظم سمجھ لو وہ نظم جو کیفرکردار تک نہیں پہنچی ۔۔۔۔۔ جو ڈولتے خیالات کے تھرتھراتے ہونٹوں پر ابھی ایک نوحہ ہے ۔۔ وہ نوحہ جسے نوچنے کی کوشش میں تخیل کے تمام رنگ پھیکے پڑ گئے ۔۔۔ اور تم کیا ہو ؟”

 

“میں ۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ جن دریچوں میں روشنی کی کمی تھی وہ میری موجودگی بانٹ رہے ہیں ۔۔۔۔ میری موجودگی ایسے ہی دریچوں کی خواہش رکھتی تھی اور ایسے ہی دریچے مجھے تقویت بخشتے ہیں کیوں کہ وہ مجھے ڈراتے نہیں ہیں بلکہ مجھے اندھیروں میں دیکھنے کی صلاحیت سے نوازتے ہیں ۔۔۔۔ میں ، میں بس حوصلے کے عوض ان کو مسلسل اپنے ساتھ رکھے ہوئے یوں ۔۔۔۔ شاید کم روشن دریچے مجھے فرد سے کچھ بڑھ کر ہونے کی تسلی دیتے ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ تسلی میرے ہونے کی تصدیق ہے۔۔۔”

 

“تو کیا تم بھی کوئی نظم ہو؟” اس نے چھبتی نظر سے میرے چہرے کا جائزہ لیا ۔۔۔

 

“نہیں میں نہیں ہوں “۔۔۔ میں نے کہا۔

 

“تو کیا تم اپنی تشہیر میں قلم گھسنے والوں میں شامل ہو؟ جو اداسی نما کسی شے کو ذات پر مسلسل حاوی کرنے کی کوشش میں خودفریبی اور زمانہ فریبی میں مبتلا ہوتے ہیں؟ “

 

“نہیں نہیں “

 

” تو تم کیوں اداس ہو؟”

 

“میں اس کہانی کے لیے اداس ہوں۔۔۔ جس کی سسکیاں میری ہر سطر کے پیچھے مسلسل اٹھتی رہتی ہیں۔۔۔۔
یعنی ان کہی کے لئے اداس ہوں”

 

“اچھا تو تم بھی میرے خالق جیسے ہو “

 

اس نظم نے کہا جو سچائی کا سیاہ شائبہ تھی اور میں اپنے ہونے کی ایک اور دلیل نما تسلی سمیٹ چکا تھا۔

Image: Ben Goossens

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *