تحفظ پاکستان قانون پارلیمان کے دونوں ایوانوں اور صدر کی منظوری کے بعد نافذ العمل ہوچکا ہے۔ گزشتہ برس جب صدر پاکستان نے تحفظ پاکستان آرڈیننس جاری کیا تبھی سے سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس پر تنقید جاری ہے۔
انسانی حقوق کے کمیشن کے الفاظ میں یہ ایک سیاہ قانون ہے جو کہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے۔ اس کے تحت سکیورٹی اداروں کو وسیع اختیارات دیے گیے ہیں۔ جن میں مشکوک افراد کو گولی مارنے کا اختیار بھی شامل ہے۔ مزید برآں فوجی و سول سکیورٹی ادارے بغیر وجہ بتائے اور عدالت میں پیش کیے بنا کسی بھی فرد کو حراست میں رکھ سکتے ہیں۔ اس قانون کا اطلاق ماضی میں حراست میں لیے گئے افراد پر بھی ہوگا جن میں لاپتہ افراد کی کثیرتعداد شامل ہے۔ عام قوانین میں ملزم کو مجرم ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر عائد ہوتی ہے لیکن
تحفظ پاکستان قانون میں ملزم کو اپنی معصومیت کا ثبوت خود فراہم کرنا ہوگا۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عام بات ہوں وہاں ایسے قوانین کا غلط استعمال بعید از قیاس نہیں ہے۔ تحفظ پاکستا
یہ اپنی نوعیت کا پہلا قانون نہیں ہے، ایسے کئی قوانین ماضی میں بھی تشکیل دیے جا چکے ہیں اور آج تک نافذ العمل ہیں۔ لالٹین نے اپنے قارئین کے لیے ایسے قوانین کی فہرست مرتب کی ہے جو کہ درج ذیل ہے۔


پبلک سیفٹی آرڈیننس 1949

اس قانون کو ابتدائی طور پر ایک برس کے لئے منظور کیا گیا، بعدازاں اسے مزید ایک برس کے لئے توسیع دی گئی۔ اس آرڈیننس کے تحت حکومت کو کسی بھی فرد کو تحفظ عامہ اور نظم عامہ کے منافی سرگرمیوں سے باز رکھنے کے لئے حراست میں لینے کا اختیار دیا گیا تھا۔
زیر حراست افراد کو اس قانون کے تحت حراست میں لئے جانے کے احکامات کے خلاف عدالت میں پیش ہونے اور قیدکئے جانے کی وجوہ سے آگاہی کے حق سے بھی محروم رکھا گیا۔ اس قانون کے بعد اس سے ملتا جلتا پبلک سیفٹی آرڈیننس 1952 میں نافذ کیا گیا۔


سکیورٹی آف پاکستان ایکٹ 1952

اس قانون کو تین برس کے لئے نافذ کیا گیا تھا،تاہم وقتاً فوقتاً توسیع ملنے کے باعث یہ قانون تاحال نافذالعمل ہے۔ اس قانون کے تحت حکومت کو ملکی سلامتی، دفاع، امور خارجہ، ذرائع رسد کی فعالیت اور نظم عامہ قائم رکھنے کی غرض سے کسی بھی فرد کو گرفتار کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں حکومت کو وجہ بتائے بغیر کسی بھی فرد کوایک ماہ کے لئے حراست میں رکھنے اور مفاد عامہ کے منافی اطلاعات تک رسائی اورفراہمی روکنے کا اختیار بھی دیا گیا۔ اس شق کو موجودہ تحفظ پاکستان بل 2014 میں بھی شامل کیا گیا ہے، اس قانون کی شدت کو 1962 میں ایک ترمیم کے ذریعے کم کیا گیا تھا۔


نظم عامہ کے قیام کا قانون 1960

گورنر مغربی پاکستان کی طرف سے 1960میں غیر معینہ مدت کے لئے جاری کیا گیا قانون، جو آج تک نافذ العمل ہے۔ اس قانون کے تحت ضلع مجسٹریٹ کونظم عامہ کے قیام کے لئے چور بازاری، ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ جیسے جرائم پر حراست میں لینے کا اختیار بھی دیا گیا۔

قانون ِدفاع پاکستان
پاک بھارت جنگ کے دوران جاری کئے جانے والے اس قانون کے تحت فوجی حکام کو ملکی سلامتی اور دفاع کے منافی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو حراست میں لینے کے وسیع اختیارات حاصل ہوگئے۔


آئین پاکستان 1973 میں کی جانے والی تیسری ترمیم

آئین پاکستان 1973کے انسانی حقوق کے باب کی شق نمبر 10 میں کی گئی ترمیم کے ذریعہ1975میں انسدادی حراست(Preventive Detention) کی مدت کو ایک ماہ سے بڑھا کر دو ماہ کر دیا گیا۔ حکام کے لئے حراست میں لئے جانے کی وجوہ ظاہر کرنے کی مدت کو ایک ہفتہ سے بڑھا کر پندرہ روز کردیا گیا۔


انسداد دہشت گردی ایکٹ1997

اس قانون کے تحت سکیورٹی اداروں کو تلاشی، حراست اورملزم پر مقدمہ چلانے کے لئے ایسے اختیارات حاصل ہو گئے جو عام حالات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور کئے جاتے ہیں۔

Leave a Reply