مملکت پاکستان کو کم از کم پچھلی ڈیڑھ دہائی سے دہشتگردی کے مسئلے کا سامنا ہے۔ اس کے نتیجے میں کم و بیش ساٹھ ہزار پاکستانی بشمول کئی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار لقمئہ اجل بنے اور ساتھ ہی پاکستان کی دم توڑتی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان بھی ہوا، ہماری مالیتی منڈیوں میں الو بولنے لگا اور انفراسٹرکچر کی تباہی نے ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ یہ اس دہشتگری کا ہی نتیجہ تھا کہ پاکستان کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹ گئی اور نتیجتا سرمایہ کاروں نے بھی پاکستان نے منہ موڑلیا اور رہی سہی معیشت کا بھی جنازہ نکل گیا۔
اتنے سالوں میں کسی ایک بھی قابلِ ذکر دہشت گرد کو سنگین جرائم کی وجہ سے پھانسی نہ دی جاسکی۔ یہاں تک کہ جی ایچ کیو حملہ کے ملزمان کی پھانسی کی سزاوں پر عمل درآمد پھانسی سے محض چند دن پہلے روک دیا گیا۔
دنیا کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی علاقے یا ریاست کو کسی دہشتگردی یا بغاوت کا سامنا ہوتا ہے تو اس کا توڑ کرنے کیلیئے تین طریقے اپنائے جاتے ہیں: سیاسی معاملات سے نمٹنے کیلیئے مفاہمتی یا ڈپلومیٹک طریقہ کار، دہشت گرد عناصر کو کمزور کرنے کے لیے براہ راست طاقت کا استعمال اور غیر ریاستی طاقتوں کو کمزور کرنے کے لیے سخت قانون سازی کا اطلاق۔ پاکستان میں دہشتگرد عناصر کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے قبائلی علاقوں اور سوات میں متعدد فوجی کارروائیاں کی گئیں تاہم یہ فوجی کارروائیاں دور رس نتائج دینے میں ناکام رہیں ہیں۔ ان ناکامیوں کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ مختلف دہشت گرد گروہوں کے ساتھ بات چیت کا راستہ بھی اپنایا گیا مگر خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ دہشتگردی سے نمٹنے کیلیئے پاکستان میں خصوصی انسدادِ دہشتگردی قوانین بنائے گئے اور اس کے نتیجے میں انسدادِ دہشتگردی کی عدالتیں بھی قائم کی گئیں مگر یہ قوانین بھی ان دہشتگردوں کو سزائیں دینے میں کانام رہے۔ اتنے سالوں میں کسی ایک بھی قابلِ ذکر دہشت گرد کو سنگین جرائم کی وجہ سے پھانسی نہ دی جاسکی۔ یہاں تک کہ جی ایچ کیو حملہ کے ملزمان کی پھانسی کی سزاوں پر عمل درآمد پھانسی سے محض چند دن پہلے روک دیا گیا۔
۲۰۱۳ میں پاکستان کے عام انتخابات کے بعد میاں نوازشریف نے تیسری بار ملک کی وزارتِ عظمی کا عہدہ سنبھالتے ہی دہشتگری کے خاتمے کیلیئے فیصلہ کن اقدامات کا اعلان کیا۔ اس کے نتیجے میں طالبان یا عسکریت پسند گروہوں سے مذاکرات کا اعلان کیا گیا۔ طالبان اور حکومتی کمیٹیوں کے اجلاسوں کے کئی دور ہوئے تاہم یہ مذاکرات بھی ملک میں امن کے قیام میں ناکام رہے۔ اسی دوران حکومت کی جانب سے دہشتگردی کے مقابلے کے لیئے قانوں سازی کا بھی آغاز کیا گیا اور تحفظِ پاکستان آرڈیننس کے نام سے ایک صدارتی حکم ملک میں نافذ کر دیا گیا۔ اس صدارتی فرمان کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ۹۰ روز تک کسی بھی فرد کی بِلاوارنٹ گرفتاری اور کسی بھی شخص پر محض شک کی بنیاد پر گولی چلانے کے اختیارات دے دئیے گئے۔ اسی صدارتی حکم پر عمل کرتے ہوئے ملک میں خصوصی عدالتیں بھی قائم کر دی گئیں۔
پاکستان کی بائیں اور دائیں بازو سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق نظر آئیں کہ انسانی حقوق کی پامالیوں کی اجازت دینے والا یہ قانوں کسی صورت قبول نہیں۔
تحفظِ پاکستان آرڈیننس کو ابتدائی دن سے ہی تمام سیاسی پارٹیوں اور انسانی حقوق کے تحفظ کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کی بائیں اور دائیں بازو سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق نظر آئیں کہ انسانی حقوق کی پامالیوں کی اجازت دینے والا یہ قانوں کسی صورت قبول نہیں۔ پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف، متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی نے اس آرڈیننس کے خلاف ایک ساتھ سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے ٹویٹر پیغام کے ذریعے متنبہ کیا کہ کسی دن تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت ان کی اپنی گرفتاری بھی ممکن ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان تحریکِ انصاف نے اس کو کالا قانون قرار دیا جو کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے۔
حکومتی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے اس آرڈیننس کو بطور قانون منظوری کے لیئے قومی اسمبلی سے منظور تو کروا لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ یہاں تک کہ بعض ممبران اسمبلی کی طرف سے بل کی کاپیاں پھاڑ دی گئیں۔ اس احتجاج کے بعد حکومت کو سینیٹ سے اس قانون کی منظوری جو کہ ضروری تھی، ناممکن نظر آئی۔ لیکن یہ آرڈیننس صدارتی توسیع کی وجہ نافذ العمل رہا۔ چھ جون ۲۰۱۴ کو ایک بار پھر یہ صدارتی حکم نامہ اپنی مدت پوری ہونے کی وجہ سے منسوخ ہو گیا۔
اسی دوران حکومت نے افواجِ پاکستان کے ذریعے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کا آغاز کر دیا۔ ساتھ ہی تحفظِ پاکستان بل کی منظوری کے لیئے اپوزیشن سے "مذاکرات” کا بھی آغاز کر دیا گیا اور معمولی ردوبدل کے بعد تحفظ پاکستان آرڈیننس کو تحفظِ پاکستان ایکٹ کا درجہ دینے کی تیاری مکمل کر لی گئی۔ نئے ایکٹ میں بغیر وجہ بتائے گرفتاری کی مدت نوے دن سے کم کر کے ساٹھ دن کر دی اور شک کی بنیاد پر گولی چلانے کے لیئے کچھ "شرائط” لگا دی گئیں۔
مشہور ماہر قانون اور بائیں بازو کی سماجی کارکن عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ یہ قانون اب پہلے سے کافی بہتر ہے تاہم شاید وہ بھول رہی ہیں کہ یہ قانون جس ملک میں نافذ کیا گیا ہے وہ پاکستان ہے۔
اب کی بار بل پارلیمنٹ میں پیش ہوا تو پیپلز پارٹی کی حمایت کی وجہ سے بل سینیٹ سے بلا روک ٹوک منظور ہوا جبکہ قومی اسمبلی میں بھی کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ وہی پیپلزپارٹی، جس کے سربراہ وزیراعظم کو اس قانون کے تحت گرفتار ہونے سے ڈرا رہے تھے، اس قانون کے حق میں انتہائی خاموشی کے ساتھ ووٹ دے آئی اور اس بار بلاول کا ٹویٹر اکاونٹ بھی خاموش رہا۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی میں اس قانون کے لیئے رائے دہی سے "اجتناب” کیا اور اجلاس سے واک آوٹ کر گئے۔ اس "واک آوٹ” کے بعد قومی اسمبلی کے باہر پارٹی صدر شاہ محمود قریشی نے میڈیا کو بتایا کہ ہمیں اس قانون پر "تحفظات” ہیں لہذا رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ حالانکہ پارلیمنٹ کے سپریم فورم پر اس قانون کی مخالفت میں ووٹ دے کر ان "تحفظات” کا بھرپور اظہار کیا جا سکتا تھا۔
متحدہ قومی موومنٹ، جو مہینہ بھر پہلے ہی "سادہ کپڑوں” میں ملبوس ان اہلکارں کے خلاف سراپا احتجاج رہی تھی جو کہ مبینہ طور پر ان کے کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل اور پر تشدد کاروائیوں میں ملوث تھے، نے بھی اس قانون کے حق میں نہ صرف ووٹ دیا بلکہ ایک عدد تقریر بھی داغ ڈالی۔ گویا اس مرتبہ متحدہ کو ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ اس قانون کا سہارہ لے کر کوئی "سادہ کپڑوں” میں ملبوس اہلکار ان کے کارکنوں کو نشانہ بنائے گا۔ شیخ رشید احمد جو کہ اپنی پارٹی کے اکلوتے "سیاہ و سفید” کے مالک اور نواز حکومت کے بڑے ناقدین میں شمار ہوتے ہیں، اور حکومتی "اقدامات” کو اس کے جلد "خاتمے” کی وجہ بتاتے ہیں، جب حکومت کے تحفظِ پاکستان بل پر رائے شماری کا وقت آیا تو شیخ صاحب نے "بے اختیار” بل کے حق میں ووٹ دے دیا۔ تاہم بعد میں ان کا کہنا تھا انہوں نے بل کے حق میں ووٹ "احتجاجی” طور پر دیا۔ اگر شیخ صاحب کا "احتجاج” یوں ہی جاری رہا تو حکومت کا خاتمہ جلد ہی ہو جائے گا۔
سب سے حیران کن بات تو یہ ہے کہ وہ لوگ جو پاکستان میں پھانسی کی سزا کو غیر انسانی شمار کرتے ہیں اور اس پر عمل درآمد کی راہ میں کئی سال سے حائل ہیں، ایک ایسے قانون کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں جو محض شک کی بنیاد پر کسی بھی شخص کو گولی مار دینے کی اجازت دیتا ہے۔
مشہور ماہر قانون اور بائیں بازو کی سماجی کارکن عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ یہ قانون اب پہلے سے کافی بہتر ہے تاہم شاید وہ بھول رہی ہیں کہ یہ قانون جس ملک میں نافذ کیا گیا ہے وہ پاکستان ہے۔ جہاں وقتی ضرورت سمجھ کر ایک بار نظریہ ضرورت کا استعمال کیا گیا اور بعد میں بارہا ملکی آئین کو تہ وبالا کرنے کیلیئے اسی "نظریے” کا سہارا لیا گیا۔ اس کے علاوہ توہینِ رسالت کے متنازع قوانین کے استعمال میں بھی پاکستانی اپنی مثال آپ ہیں۔ پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد تحفظِ پاکستان ایکٹ دو سال کے لیئے ملک بھر میں نافذ ہو چکا ہے اور یہ آنیولے دو سال ہی بتائیں گے کہ اس سے واقعی پاکستان کا تحفظ ہو گا یا ہم نے محض ایک اور نظریہ ضرورت یا توہینِ رسالت جیسا قانون متعارف کروایا ہے۔

Leave a Reply