کافی عرصہ سے میڈیا کے “مخصوص حصے” اس خیال کو زور شور سے پروان چڑھا رہے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے ہندوستان کا ہاتھ ہے اور ہندوستان ان تمام دہشت گردوں کی مالی معاونت کر رہا ہے جو “پاکستان” میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ یہ الزامات تو سالوں سے لگ رہے تھے مگر چونکہ قومی بیانیہ میں ابھی پچھلے سال تک تحریک طالبان پاکستان والے “پاکستان کے بھٹکے بھائی” “امریکی سامراج کے خلاف لڑنے والے” اور “ناراض قبائلی” ہی تھے (قبائلی بھی اس لیے کہ بقول شہباز شریف پنجابی طالبان جیسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی) اسی لیے بھارتی ایجنٹ والی بات کچھ “پھبتی” نہیں تھی۔
اب چونکہ طالبان ملک کے اصلی اور خالص حکمرانوں کی ایماء پر ملک کے دشمن قرار دے دیے گئے ہیں پس اب ان لوگوں کی آوازوں کو لاؤڈ سپیکر مل گیا ہے جو ملک میں ہر ہونے والے حادثے کو “ہندوستان نے کروایا” والی عینک سے دیکھتے ہیں۔
ایک عرصہ تک امریکی و ہندوستانی ایجنٹ بھی شناخت کے بحران کا شکار رہے۔میڈیا کے چند جانے پہچانے چہرے طالبان کو ایجنٹ قرار دیتے تھے تو تحریک انصاف کے متوالے انصافینز ان “ایجنٹ طالبان” کو دفتر کھولنے سے لے کر وزارتیں دینے تک پر پر راضی نظر آتے تھے۔ اس زمانے میں طالبان سے مذاکرات کی مخالفت کرنے والے اور فوجی کارروائی کا مطالبہ کرنے والے بھی ایجنٹ قرار دیے گئے۔ایجنٹ سازی کا یہ عمل یہاں تک پہنچ گیا کہ ہر کوئی کسی نہ کسی کا ایجنٹ معلوم ہونے لگا۔ مگر بقول شاعر بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے کے مصداق اب چونکہ طالبان ملک کے اصلی اور خالص حکمرانوں کی ایماء پر ملک کے دشمن قرار دےدیے گئے ہیں پس اب ان لوگوں کی آوازوں کو لاؤڈ سپیکر مل گیا ہے جو ملک میں ہر ہونے والے حادثے کو “ہندوستان نے کروایا” والی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اور تو اور کل تک طالبان کو اپنا بھائی کہنے والے بھی اب طالبان کو پکے اور خالص انڈین ایجنٹ قرار دینے کی مہمات چلا رہے ہیں اور اس دیوانگی پر اگر کوئی سوال اٹھائے تو وہ بھی ایجنٹ، بلا دلیل ایجنٹ۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں اور اداروں نے دراصل ایک بار پھر اپنی حماقتوں اور غلطیوں کا اعتراف کرنے کی بنسبت ان کا بوجھ ہندوستان پر ڈالناچاہا ہے۔ یہ وہی سوچ ہے جس کے تحت عسکری ادارے ملک کی سلامتی جیسے سنجیدہ مسائل پر بغیر کسی قومی مشاورت کے فیصلے کرتے رہے ہیں اور ایسی پالیسیاں بناتے رہے ہیں جن کا اثر قوم عشروں سے بگھت رہی ہے، لیکن اس سوچ کے جڑ سے خاتمے کی بجائے ہمیں پھر سے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔
یہ اصرار کہ ہندوستان پاکستان میں در اندازی کر رہا ہے اور تمام بوجھ اپنے سر سے اتار کر ہمسایوں پر ڈال دینا مسئلہ کی کوئی حقیقی توجیہہ نہیں ہے جب کہ ان تمام حملوں میں ہمارے سابقہ تنخواہ دار مجاہدین نہ صرف ملوث نظر آتے ہیں بلکہ ببانگ دہل ان حملوں کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ ان مجاہدین کی تربیت اور ان کی کارروایوں کی حمایت کرنے والے اب کس منہ سے ان سے لاتعلقی کا اظہار کرسکتے ہیں ؟
ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ گلی محلے میں انتہاپسندی پھیلانے کی جو مہم جاری ہے، مدارس اور جامعات میں نفرت کا جس طرح پرچار کیا جارہا ہے اور ذہنوں میں جس قسم کا زہریلا تکفیری مواد انڈیلا جا رہا ہے کیا اس کا کوئی علاج کیا گیا؟ کیا جیو ٹی وی پر ہندوستان نے شیعہ کافر کا نعرہ بلند کیا؟ کیا یہ تکفیری اور متشدد فرقہ وارانہ جماعتیں ہندوستان کی ایماء پر وجود میں آئیں؟ کیا علماء اور مدارس کے تکفیری فتاوٰی بیرونی اشاروں پر دیے گئے (لکھے تو بیرونی اشاروں پر ہی گئے مگر یہ بیرون جنوب مغرب کی جانب ہے مشرق کی جانب نہیں)۔ محترمہ بے نظیر کے قاتل اکوڑہ خٹک میں “مشرقی” طاقتوں نے تیار کیے تھے یا مغربی طاقتوں نے ؟
اب یہ تماشا اس قدر لمبا اور بیزار کن ہوچکا ہے کہ اس میں کچھ چونکا دینے والی بات نہیں رہی، یوں محسوس ہوتا ہے کہ روز کی دہرائی ہوئی مشق پھر کی جارہی ہے۔ ابھی چند روز پہلے یہ رپورٹ آئی کہ یوم پاکستان پے فوجی پریڈ کے دوران وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے اکتالیس مدارس کو بند کر دیا جائے گا۔ اگر یہ مدارس سیکیورٹی رسک ہیں تو آخر یہ مدارس عام دنوں میں کیوں کام کرتے ہیں، کیا عوام کی زندگیاں فوجی پریڈ سے کم اہم ہیں؟؟؟ ہم پڑھتے ہیں کہ ہر محرم پر ہزاروں علماء کی بین الاضلاع نقل و حرکت پر پابندی لگائی جاتی ہے، آخر ایسے لوگوں کو عام دنوں میں امامت کا حق کس نے دیا، گیارہ مہینے بیس دن ان پھیلائی گئی نفرت دس دنوں میں خون خرابے کے لیے کافی ہوتی ہے ۔ دراصل ہم ملک کوطویل عرصے سے ڈھکوسلوں پر چلا رہے ہیں۔ ڈیڑھ دوسو بچے شہید ہوئے تو دہشت گردوں کی پھانسی لگی تصاویر جاری کر دو، کہیں کوئی حملہ ہوجائے تو پولیس کے ناکے بڑے شہروں میں لگا دو جہاں “دہشت گردوں کے خلاف ہائی الرٹ” تین سو سے پانچ سو میں باآسانی بک جاتا ہے۔ کیا ریاستوں کا ملکی سلامتی پر سنجیدہ اور خطرناک حملوں پر ایسا ہی رد عمل ہوتا ہے؟
یہ اصرار کہ ہندوستان پاکستان میں در اندازی کر رہا ہے اور تمام بوجھ اپنے سر سے اتار کر ہمسایوں پر ڈال دینا مسئلہ کی کوئی حقیقی توجیہہ نہیں ہے جب کہ ان تمام حملوں میں ہمارے سابقہ تنخواہ دار مجاہدین نہ صرف ملوث نظر آتے ہیں بلکہ ببانگ دہل ان حملوں کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ ان مجاہدین کی تربیت اور ان کی کارروایوں کی حمایت کرنے والے اب کس منہ سے ان سے لاتعلقی کا اظہار کرسکتے ہیں ؟
ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ گلی محلے میں انتہاپسندی پھیلانے کی جو مہم جاری ہے، مدارس اور جامعات میں نفرت کا جس طرح پرچار کیا جارہا ہے اور ذہنوں میں جس قسم کا زہریلا تکفیری مواد انڈیلا جا رہا ہے کیا اس کا کوئی علاج کیا گیا؟ کیا جیو ٹی وی پر ہندوستان نے شیعہ کافر کا نعرہ بلند کیا؟ کیا یہ تکفیری اور متشدد فرقہ وارانہ جماعتیں ہندوستان کی ایماء پر وجود میں آئیں؟ کیا علماء اور مدارس کے تکفیری فتاوٰی بیرونی اشاروں پر دیے گئے (لکھے تو بیرونی اشاروں پر ہی گئے مگر یہ بیرون جنوب مغرب کی جانب ہے مشرق کی جانب نہیں)۔ محترمہ بے نظیر کے قاتل اکوڑہ خٹک میں “مشرقی” طاقتوں نے تیار کیے تھے یا مغربی طاقتوں نے ؟
اب یہ تماشا اس قدر لمبا اور بیزار کن ہوچکا ہے کہ اس میں کچھ چونکا دینے والی بات نہیں رہی، یوں محسوس ہوتا ہے کہ روز کی دہرائی ہوئی مشق پھر کی جارہی ہے۔ ابھی چند روز پہلے یہ رپورٹ آئی کہ یوم پاکستان پے فوجی پریڈ کے دوران وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے اکتالیس مدارس کو بند کر دیا جائے گا۔ اگر یہ مدارس سیکیورٹی رسک ہیں تو آخر یہ مدارس عام دنوں میں کیوں کام کرتے ہیں، کیا عوام کی زندگیاں فوجی پریڈ سے کم اہم ہیں؟؟؟ ہم پڑھتے ہیں کہ ہر محرم پر ہزاروں علماء کی بین الاضلاع نقل و حرکت پر پابندی لگائی جاتی ہے، آخر ایسے لوگوں کو عام دنوں میں امامت کا حق کس نے دیا، گیارہ مہینے بیس دن ان پھیلائی گئی نفرت دس دنوں میں خون خرابے کے لیے کافی ہوتی ہے ۔ دراصل ہم ملک کوطویل عرصے سے ڈھکوسلوں پر چلا رہے ہیں۔ ڈیڑھ دوسو بچے شہید ہوئے تو دہشت گردوں کی پھانسی لگی تصاویر جاری کر دو، کہیں کوئی حملہ ہوجائے تو پولیس کے ناکے بڑے شہروں میں لگا دو جہاں “دہشت گردوں کے خلاف ہائی الرٹ” تین سو سے پانچ سو میں باآسانی بک جاتا ہے۔ کیا ریاستوں کا ملکی سلامتی پر سنجیدہ اور خطرناک حملوں پر ایسا ہی رد عمل ہوتا ہے؟
ان حملوں کا اعتراف کرنے والوں، حملہ آوروں سیاسی “تحفظ” دینے والوں اور ان حملوں پر شادیانے بجانے والوں سے سبھی واقف ہیں سوائے مقتدر حلقوں کہ جو یوں لا علم بنتے ہیں “جیسے جانتے نہیں”۔
کالعدم تنظیموں کی تعداد اور بیرونی قرضے کی طرح بڑھتی جا رہی ہے، ہر حکومت اپنی میراث میں نئے انڈے بچے اور مزید قرضے چھوڑ جاتی ہے اور کوئی نہیں کہ اس موذی مرض کا مستقل حل نکالے۔ رواں برس اب تک شیعہ حضرات کی امام بارگاہوں پر چار بڑے حملے ہو چکے ہیں۔ ان حملوں کا اعتراف کرنے والوں، حملہ آوروں سیاسی “تحفظ” دینے والوں اور ان حملوں پر شادیانے بجانے والوں سے سبھی واقف ہیں سوائے مقتدر حلقوں کہ جو یوں لا علم بنتے ہیں “جیسے جانتے نہیں”۔ ہر خونریزی کے بعد ہمیں یاد آجاتا ہے کہ ساری غلطی تو مشرق میں بیٹھے ہمسائے اور مغرب میں موجودطفیلی ریاست (ہمارے زعم میں) کی ہے۔ ایک سابق فوجی سربراہ اور حکمران کے اس اعتراف کے باوجود کہ افغانستان میں طالبان ہم نے قائم رکھے تا کہ ہندوستان کا اثر زائل ہوسکے ہم ڈھٹائی سے سارا ملبہ ہندوستان پر ڈال دیتے ہیں۔ ایک طرف ہمارے سابق حکم ران افغانستان کو اقتدار میں طالبان کو حصہ دینے کا مشورہ دے رہے ہیں تو دوسری طرف ہمارے مشیر خارجہ کہہ رہے ہوں کہ پاکستانی طالبان کو ہندوستانی سرپرستی حاصل ہے۔ سوچیے اگرکل کلاں من موہن سنگھ یہ کہیں کہ “ہم نے پاکستانی طالبان بنائے تا کہ افغانستان سے پاکستان کا اثر کم ہوجائے اور پاکستان کو انہیں اقتدار میں حصہ دینا چاہیے” تو اس پر ہمارا میڈیا کیسے زمین آسمان ایک کر دے گا۔
شاید ہم نے اپنے حالات سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھا لی ہے جبھی یہ دہشت گرد تنظیمیں روز جلسے کرتی ہیں، اپنی رٹ دکھاتی ہیں، سرحد پار کارروائیوں میں مصروف ہیں، ٹی وی پر آکر بڑھکیں لگاتی ہیں اور ریاست کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے ریاستی ادارے سر پر چپت لگنے تک سوئے رہنے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ ابھی تک ہم نے مشرقی سرحدوں کے دہشت گردوں کا فیصلہ نہیں کیا، ہم نے مغربی سرحدوں پر رہنے والوں کی زندگیاں برباد کر دی ہیں، انہیں زندہ درگور کر دیا ہے اب کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ لاہور، قصور، گوجرانولہ سے لے کر راولپنڈی تک یہی شورش برپا ہوجائے؟
شاید ہم نے اپنے حالات سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھا لی ہے جبھی یہ دہشت گرد تنظیمیں روز جلسے کرتی ہیں، اپنی رٹ دکھاتی ہیں، سرحد پار کارروائیوں میں مصروف ہیں، ٹی وی پر آکر بڑھکیں لگاتی ہیں اور ریاست کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے ریاستی ادارے سر پر چپت لگنے تک سوئے رہنے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ ابھی تک ہم نے مشرقی سرحدوں کے دہشت گردوں کا فیصلہ نہیں کیا، ہم نے مغربی سرحدوں پر رہنے والوں کی زندگیاں برباد کر دی ہیں، انہیں زندہ درگور کر دیا ہے اب کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ لاہور، قصور، گوجرانولہ سے لے کر راولپنڈی تک یہی شورش برپا ہوجائے؟
One Response
یقینا ہماری اپنی غلطیاں اور حماقتیں زیادہ ہیں، نہ سڑکوں پر کچرا پھینکنے کوئی انڈیا سے آتا ہے نہ کنڈا لگانے ٹیکس چوری کرنے نا ہی قانون نافذ کرنے والے سارے انڈیا سے تنخواہ پا کر فرائض سے اغماض برتتے ہیں۔ خواتین پر ستم ہو یا بچوں سے ریپ ان سب کے لیے انڈیا نہیں اکساتا۔ رہ گئی دہشت گردی تو اس کے تدارک کے لیے عوامی ٹیکس اور سرکاری خزانے سے پلنے والے ادارے صرف توند بڑھانے کی خدمت پر مامور نہیں ہیں ان کا فرض ہے کہ دہشت گردی روکیں اور یہ ان کے لیے ایسا مشکل بھی نہیں آخر دنیا کے تمام مملک میں ان کے ادارے تحفظ عوام کی خدمت انجام دے رہے ہیں صرف ہمارے ہاں کیوں کل یگ مچا ہے، بلکہ دھماکوں کا تواتر بس موت یگ بچھانے ہی لگا ہے۔