(1)
کہیں نہ کہیں
تتلیاں پھڑپھڑارہی ہیں اپنے پر
اوربرپا کررہی ہیں طوفان
مختلف جگہوں پر
بدل دیتی ہیں موسم
تتلیوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹیں
اور ستاروں کی سمت اور رفتار
اور ہماری قسمتیں
سوچنے کا مقام ہے ہرپل
قدم کس طرح اور کس طرف پڑے
اور کیسے بدل جائیں ہماری منزلیں
تتلیاں نادان ہیں
ناواقف ہیں اپنے برپا کیے ہوئے طوفانوں سے
بالکل ہماری طرح
جو نہیں جانتے
اچھا ہے یا برا
ہمارا سانس لینا یاسانس روک لینا
(2)
مڑچکی تھی میں
جب گر گیا ٹوٹ کر درخت سے
ایک سوکھا پتہ
میرے شانے پر
اور دیکھ لیا تم نے
اور رک گئے
جھاڑنے کے لیے
میرے شانے سے
وہ سوکھا پتہ
ایک بار پھر کہا تم نے
سوچ لو ایک بار اور
بات کرلینے میں کیا ہرج ہے
اور بات کرلی ہم نے
اور گزار لی ایک زندگی
ایک دوسرے کے خاندانوں کو جان کر
اپنے بچوں کے ساتھ
اور جب لے جارہے تھے لوگ
تمھیں کاندھوں پر
مجھے یاد آگیا یونہی ایک لمحے کو
اگر نہ گرا ہوتا ٹوٹ کر درخت سے
وہ سوکھا پتہ
میرے شانے پر
(3)
وہ غلط پھینکی گئی تیز گیند تھی
جو لگی پیٹ میں جاکر ایک لڑکے کے
اور پھاڑ دیا اس کا اپینڈکس
اور غم سے پاگل کردیا اس کے بھائی کو
سوسال گزر چکے ہیں
میں ہاتھ مل رہی ہوں
اس تیز گیند پر
آنسوئوں کے درمیان
ایک صدی کے نسل درنسل جاری
پاگل پن کا بوجھ
اپنے سر پر اٹھائے
(4)
رات ڈرامہ دلچسپ تھا
نیند دیر سے آئی
بھول گئی وہ جلدی میں
میز پر پڑا نظر کا چشمہ
اس اہم دن
جب مل گیا اسے وہ
اور ہوگیا پہلی نظر میں
ہمیشہ کے لیے اس کا اپنا
باوجود اس بات کے
کہ بہت نفرت تھی اسے نظر کے چشمے سے
بہت سال بیت گئے
جب اس نے سوچا
کاش اس رات نہ دیکھا ہوتا اس نے
وہ دلچسپ ڈرامہ
یا نہ بھولا ہوتا جلدی میں
میز پر پڑا نظر کا چشمہ
(5)
معمولی زکام تھا مگر
نہیں کرسکی وہ ہمت
بچے کے اسکول کی میٹنگ میں جانے کی
نہیں جاسکا وہ وقت پر دفتر
بچے کے اسکول کی میٹنگ کے باعث
نہیں دے سکا وہ اس کی تنخواہ
صحیح وقت پر
نہیں دے سکی وہ واجب الادا فیس
بچے کے اسکول میں
صحیح وقت پر
نہیں کرسکا وہ برداشت
فیس نہ لانے پر
ماسٹر کی مار
نہیں پڑھ سکا دوسری جماعت کے بعد
کرتے رہ گئے دھوپ میں مزدوری
وہ اور اس کے بچے
کسی اجنبی کے
معمولی زکام کے باعث
(6)
بھول گئی نوکرانی اس رات
پانی کا گلاس سرہانے رکھنا
کھل گئی اس کی آنکھ
آدھی رات کو
روتے روتے سونے کے بعد
شدید پیاس سے
اور بلا لیا اسے
صحن میں رکھے مٹکے کے برابر
کنویں کے اندر سے
اس کے عکس نے
کھل جاتی ہے آنکھ
آدھی رات کو
روتے روتے سونے کے بعد
میرے پیاروں کی
دل کے درد سے
دیرینہ یادوں سے
ڈرائونے خوابوں سے
جو جگائے رکھتے ہیں مجھے دن اور رات
کبھی نہیں بھولتی
میں پانی کا گلاس
ان کے سرہانے رکھنا
(7)
پرندے نے سوچا
ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں
دائیں مڑے یا بائیں
اور مڑ گیا بائیں
اور ٹکرا گیا
شور مچاتے، تیز رفتار
بہت بڑے پرندے سے
جو اسے نگلتے ہی گرا
اور پاش پاش ہوگیا
شہر کے معززین آدھے رہ گئے
بدل گئے خاندانوں کے سربراہ
تباہ ہوگئے کچھ کارو بار
کچھ چھونے لگے آسمانوں کو
الٹ گئیں تقدیریں
ہزاروں موجود لوگوں کی
اور ان کی بھی جو ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے
جب مڑ گیا پرندہ
دائیں جانب کے بجائے
بائیں جانب
(8)
اجنبی ہے وہ
مگر سنا تھا کہیں اس نے میرا نام
ڈھونڈ کر نکال لی ہے اس نے میری فائل
اور فیصلہ کیا ہے
میں اس کام کے لیے مناسب ہوں
اب چھوڑنا ہوگی
مجھے یہ سرزمین
بڑا ہونا ہوگا میرے بچوں کے میرے بغیر
بھول جائیں گے مجھے وہ
جنھیں میں قریب رکھتی ہوں
آجائیں گے قریب
پتا نہیں کون سے اجنبی لوگ
شریک نہ ہو پائوں میں شاید
شادیوں اور اموات میں
اپنے پیاروں کی
نہ جانے کون تھا
جس نے لیا تھا میرا نام
اس کے سامنے
برسبیلِ تذکرہ
(9)
ہوگئی بارش
غیر متوقع
پھیل گئی کیچڑ
پھسل گئے گھوڑے
ہار گیا وہ
ایک اہم جنگ
بن گئی محکوم
اس کی جنگجو قوم
بدل گئی تاریخ
ہمیشہ کے لیے
(10)
جب کھڑا کیا تھا استاد نے
اسے بنچ پر
وہ سب پیدا نہیں ہوئے تھے
جو مارے گئے اس کی شرمندگی کے ہاتھوں
پلتی رہی اک آگ
تیس سال تک
اس کے سینے میں
اور گھس گیا ایک دن
وہ ان کی کلاس میں
اور ایک ایک کرکے ختم کردیں
سب بچوں کی تمسخرانہ مسکراہٹیں
لے لیا اپنی ذلت کا انتقام
بے رحم دنیا سے
(11)
جارہی تھی اس کی بیوی کی دوست
ملک سے باہر
ملنا ضروری تھا
بلائے جارہی تھی کب سے
اسے چلنے کے لیے
بغیر پڑھے دینا پڑے
اسے اوسط نمبر آخری جوابی کاپی کے
اور باندھ دیا اس نے بنڈل
نہیں مل سکا کسی یونیورسٹی میں داخلہ
مستقبل کے عظیم سائنسداں کو
نہیں ہوسکی وہ عظیم ایجاد
جو بدل دیتی ہماری قوم کی تقدیر
(12)
سوچا تو ضرور ہوگا اس نے
کیلے کا چھلکا گلی میں پھینکنے سے پہلے
میری قسمت کے بارے میں
پہنچ گئی میں ہسپتال
کھو بیٹھی اپنی ملازمت
بند ہوگئے ترقی کے دروازے
روٹھ گئی خوشحالی
نہ بن سکے میرے بچے
جو بننا تھا انھیں
اور ان کے بچے
سوچا تو ضرور ہوگا اس نے
کیلے کا چھلکا گلی میں پھینکنے سے پہلے