ایک ماہ سے زائد عرصہ چلنے والے سیاسی بحران سے معیشت ، جمہوریت اور ریاستی اداروں کو پہنچنے والے نقصان اور ذرائع ابلاغ کے متنازعہ اور تقسیم ہونے جیسی منفی پیش ہائے رفت سے قطع نظر ،عمران خان اور طاہر القادری کی وجہ سے پاکستانی جمہوریت اور سیاست ہمیشہ کے لئے تبدیل ہو چکے ہیں۔ تبدیلی اور انقلاب کے نعروں کا اثر معاشرے کی ایک بڑی اکثریت نے قبول کیا ہے اور اپنے طور پر اس پر رد عمل کا اظہار بھی کیا ہے، مختلف طبقات کی جانب سے سیاسی اجتماعات میں شرکت کے ذریعہ اپنی سیاسی رائے کا اس قدر کھل کر اظہار کرنا ایک ایسا عمل ہے جو پاکستانی سیاست کو ایک نیا رخ دے چکا ہے۔عمران خان کا یہ کہنا کہ استعفٰی تو نہیں ملا مگر قوم جاگ گئی ہے بہت حد تک درست ہے اور اس بحران کے اثرات میں سب سے مثبت پہلو یہی ہے ۔
تبدیلی اور انقلاب کے نعروں کا اثر معاشرے کی ایک بڑی اکثریت نے قبول کیا ہے اور اپنے طور پر اس پر رد عمل کا اظہار بھی کیا ہے، مختلف طبقات کی جانب سے سیاسی اجتماعات میں شرکت کے ذریعہ اپنی سیاسی رائے کا اس قدر کھل کر اظہار کرنا ایک ایسا عمل ہے جو پاکستانی سیاست کو ایک نیا رخ دے چکا ہے۔
حالیہ بحران نے معاشرے کے ان طبقات کو سیاست کی جانب متوجہ کیا ہے جو سیاست سے دور رہتے ہوئے یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کچھ بھی تبدیل نہیں ہو سکتا، جن کے خیال میں ایک عام آدمی کبھی بھی تبدیلی نہیں لا سکتا تھا اور جن کے نزدیک موجودہ جمہوریت محض خاندانی سیاست کرنے والوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے لئے تھی۔ تحریک انصاف اور طاہر القادری نے ایک عام متوسط طبقہ کے پڑھے لکھے نوجوان کو یہ امید دلائی ہے کہ وہ بھی سیاست میں آ کر تبدیلی کا حصہ بن سکتے ہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری تبدیلی لانے یا اگلے انتخابات میں حکومت بنانےمیں کامیاب نہ بھی ہوئے تو وہ سیاست میں ایک ایسے نوجوان طبقہ کو سامنے لانے کا باعث ضرور بنیں گے جو آگے چل کر قیادت سنبھال سکتا ہے۔ یہ طبقہ بلدیاتی انتخابات میں مزید ابھر کر سامنے آسکتا ہے اور اگلے انتخابات میں ان جماعتوں کی جیت میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
بحران کے نتیجہ میں بے تحاشا امکانات سامنے آئے ہیں جو پاکستان میں حقیقی تبدیلی کی بنیاد بن سکتے ہیں، اور کارکردگی دکھانے والی کوئی بھی جماعت ملک اور اپنا سیاسی مستقبل محفوظ کر سکتی ہے ۔کرپشن، ناہلی اور وی آئی پی کلچر کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت کا لوگوں میں پیدا ہونا ایک ایسی سول سوسائٹی کو جنم دے سکتا ہے جو انسانی حقوق کی فراہمی کے لئے آَئندہ حکومتوں پر دباو ڈالنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ ایسے والدین جو اپنے بچوں کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے تھے اب خود اپنے بچوں کے ہمراہ جلسوں اور دھرنوں میں شرکت کر رہے ہیں جس سے لوگوں میں تبدیلی کی خواہش کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کا فوج میں موجود بعض عناصر کی پشت پناہی سے پارلیمان کی جانب بڑھنا ایک شرمناک عمل تھا اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اب بھی دونوں رہنما قبل از وقت انتخابات کے لئے عوامی اشتعال کے ذریعہ فوج اور عدلیہ پر مداخلت کے لئےدباو ڈالنا چاہتے ہیں اور کوئی غیر آئینی راستہ اختیار کرنے سے گریز نہیں کریں گے، مگر دونوں جماعتوں نے سیاسی اور جمہوری نظام میں جن خامیوں کی نشاندہی کی ہے ان پر عوامی بحث کا آغاز ایک خوش آئند عمل ہے۔ دھرنوں کے اختتام پر جلسوں کے انعقاد کا سلسلہ نظام سے لوگوں کی مایوسی کا غماز ہے جو اب نظام میں تبدیلی سے زیادہ نظام چلانے والوں اور نظام چلانے کے طریقہ کار میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ اس سے قبل خاندانی وابستگیوں کی بنیاد پر ووٹ دینے والاشہری علاقوں کا پڑھا لکھا طبقہ اور دیہی علاقوں کے نوجوان بھی اب اس نظام میں اپنی رائے کے اظہار اور اقتدار میں شراکت کے مواقع طلب کر رہے ہیں ۔ تحریک انصاف کو گزشتہ انتخابات میں ملنے والا ووٹ بنک اور جلسوں میں ملنے والی حمایت پاکستان میں سیاست اور نظام کے ہمیشہ کے لئے بدل جانے کی نشاندہی کر رہے ہیں، لوگ اب ذات، برادری، مسلک اور خاندانی وابستگی کی بجائے خوشحالی اور ترقی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں ۔ یہ طبقہ کل کلاں تحریک انصاف کی ناکامی کی صورت میں کسی اور جماعت کو موقع دینے پر بھی تیار ہوگا جو خاندانی اور موروثی سیاست کے خاتمہ کی جانب اس بحران کے نتیجہ میں سامنے آنے والی ایک اہم پیش رفت ہے ۔
تحریک انصاف کو گزشتہ انتخابات میں ملنے والا ووٹ بنک اور جلسوں میں ملنے والی حمایت پاکستان میں سیاست اور نظام کے ہمیشہ کے لئے بدل جانے کی نشاندہی کر رہے ہیں، لوگ اب ذات، برادری، مسلک اور خاندانی وابستگی کی بجائے خوشحالی اور ترقی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔
حالیہ بحران نے پارلیمان کی اہمیت میں بھی اضافہ کیا ہے، گوتحریک انصاف اور عوامی تحریک نے عوام کو پارلیمان اور منتخب حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسایا تھا لیکن عوام کی اکثریت نے ایسے کسی اقدام کی حمایت سے انکار کیا ہے اور کسی بھی غیرآئینی تبدیلی کو ناپسند کیا ہے۔ خصوصاً جاوید ہاشمی کی قربانی نے یہ ثابت کیا ہے کہ اب کوئی بھی جماعت غیرآئینی اقدام کی حمایت کرے گی تو اسے اپنے اندر سے بغاوت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار فوج کے آنے کے تمام راستے مسدود کر دیے ہیں اور منتخب حکومتوں کوآئینی راستے کے ذریعہ تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ خصوصاً پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے جس طرح پارلیمان کی مضبوطی اور محاذ آرائی کے خاتمہ کے لئے کردار ادا کیا ہے وہ ایک خوش آئند امر ہے۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو یہ واضح پیغام مل چکا ہے کہ نادیدہ ہاتھوں کی بجائے تبدیلی ووٹ سے ہی آئے گی یہی وجہ ہے کہ طاہر القادری صاحب نے بھی انتخابی سیاست کا اعلان کر دیا ہے اور تحریک انصاف بھی 2018 سے قبل انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے، تاہم تمام جماعتوں پر واضح ہو چکا ہے کہ فوج یا عدلیہ کے ذریعہ حکومت کی تبدیلی ممکن نہیں، حکومت کی تبدیلی آئینی حدود میں رہتے ہوئے پارلیمان یا انتخابات کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ گوکہ احتجاجی جماعتیں اس کوشش میں ہیں کہ وہ ایسے حالات پیدا کریں کہ انتخابات کا 2018 سے قبل انعقاد یقینی بنایا جا سکے لیکن ایسے حالات میں بھی مظاہروں اور ہڑتالوں سے تبدیلی لانے کی کوشش کی حمایت دیگر جماعتوں سے ملنا مشکل ہو جائے گا۔ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کی جانب سے طاقت کے ذریعہ تبدیلی لائے جانے کی مخالفت کے باعث صرف تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے جلسوں کی بنیاد پر انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ مشکل ہو جائے گا۔
مسلم لیگ نواز کی حکومت اور تحریک انصاف کے دوران معاملات افہام و تفہیم کے ذریعہ حل کرانے میں جماعت اسلامی اور سراج الحق صاحب کا کردار قابل ستائش ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنے مذہبی نظریات اور ماضی میں فوج کی پشت پناہی کے باوجود پارلیمانی جمہوریت کے دفاع کے لئے جو کردار ادا کیا ہے وہ یقیناً جماعت اسلامی کی سیاست میں ایک جمہوری تبدیلی کا عکاس ہے۔جماعت اسلامی اپنے گزشتہ امیر کے عہد میں ہونے والی رسوائی کے داغ دھونے میں کامیاب ہو چکی ہے اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے زیادہ جمہوری فکر اختیار کر چکی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کی نظریاتی جماعتوں میں یہ تبدیلی آ چکی ہے کہ انہیں اپنے نظریات کے نفاذ کے لئے جمہوری جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا ہوگا،اور اقتدار میں آنے کے لئے غیر آئینی تبدیلی کی گنجائش نہیں رہی ۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں روایتی، نظریاتی اور موروثی سیاست کا دور ختم ہو چکا ہے۔ ایک مضبوط متوسط طبقہ کی موجودگی میں نہ اشتراکی انقلاب ممکن ہے اور نہ ہی مسلح جدوجہد یا عسکری آمریت کی گنجائش باقی رہی ہے، تمام جماعتوں کا روایتی ووٹ بنک سکڑچکا ہے اور اب زیادہ تر ووٹر کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کا رویہ اختیار کر چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے ووٹر بھی اب معاشی کارکردگی اور شہری سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایک مضبوط متوسط طبقہ کی موجودگی میں نہ اشتراکی انقلاب ممکن ہے اور نہ ہی مسلح جدوجہد یا عسکری آمریت کی گنجائش باقی رہی ہے، تمام جماعتوں کا روایتی ووٹ بنک سکڑچکا ہے اور اب زیادہ تر ووٹر کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کا رویہ اختیار کر چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے ووٹر بھی اب معاشی کارکردگی اور شہری سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں مسلم لیگ نواز کی حکومت اس بحران سے کم زور ہوئی ہے تاہم میرے نزدیک مسلم لیگ نواز کے پاس اس وقت ایک ایسا موقع ہے کہ وہ نظام میں اصلاحات اور عوامی فلاح کے میدان میں اپنی کارکردگی کے ذریعہ اگلے انتخابات میں بھی اپنی حکومت یقینی بنا سکتی ہے۔ دھرنوں کی ناکامی سے ثابت ہوتا ہےکہ انتخابی دھاندلی کا مسئلہ پس منظر میں چلا گیا ہے اور عوام کی محرومیوں کا مسئلہ ابھر کر سامنے آیا ہے جس کے خلاف احتاجج کو عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ تحریک انصاف کے جلسوں میں عوامی شمولیت پی ٹی آئی سے نظریاتی وابستگی کی بجائے بجلی کی لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری اور شہری سہولیات کی عدم فراہمی کے اس تسلسل کی وجہ سے ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ حکومت کے پاس موقع ہے کہ وہ وسائل کا رخ سڑکوں اور پلوں سے صحت، تعلیم اور سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول کی فراہمی کی جانب موڑ سکتی ہے۔ حکومت پر اب کارکردگی دکھانے کا دباو ہے اور اب احتجاجی مظاہروں کی شدت میں کمی لانے کے لئے عوام کو ریلیف دیا جانا ہی واحد راستہ ہے۔

Leave a Reply