tareek-suraj-2

پورا قصبہ آج پھر اجتماعی خاموشی کا شکار تھا- بازار بند پڑا تھا اور اس کے مغرب میں قصبہ کے مرکزی چوک میں لوگ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں کھڑے چہ میگوئیوں میں مصروف تھے۔عجیب سہما ہوا منظرتھا- تمام کم عمر بچوں کو گھروں تک محدود کر دیا گیا تھا مگر مہناز خانم جو ابھی محض گیارہ برس کی تھی مرکزی چوک سے متصل ایک گھر کی کھڑکی سے یہ سب منظر دیکھ رہی تھی ۔اسکی آنکھوں میں ان کہے خوف کی دہشت کو محسوس کیا جاسکتا تھا – وہ کھڑکی کی سلاخوں کو اپنے ننھے ہاتھوں سے تھامے اپنی ماں کی آمد کی منتظر تھی – یہ مہر خانم ہی کی خواہش تھی کہ اسکی بیٹی یہ اچھی طرح دیکھ لے اور جان لے کہ اسکی ماں کے ساتھ کیا ہونے کو ہے – وہ لمحہ بھی آن پہنچا جس کا دھڑکتے دل سے سب لوگ انتظار کر رہے تھے – مہر خانم سر تا پا زنجیروں میں جکڑی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی قید خانے سے باہر آئی۔ سرکاری اہلکاروں کا ایک دستہ بھی اس کےہمراہ تھا۔ مہر خانم کواہلکاروں کے حصار میں آتا دیکھ کر لوگ خاموش ہوگئے ۔ قصبہ کے اس مصروف ترین چوک میں اس قدر خاموشی تو کبھی رات کے پچھلے پہر بھی نہ ہوئی تھی۔جس انداز سے وہ مرکزی چوک کی طرف بڑھتی چلی آرہی تھی اسے خوف کا نام ہر گز نہیں دیا جاسکتا لیکن یہ ضرور تھا کہ اس وقت اس کی روح اس کے ساتھ نہ تھی۔ جیسے ہی مہر خانم سرکاری اہلکاروں کے جلو میں مرکزی چوک میں داخل ہوئی لوگ خاموشی سے ظالم و مظلوم کے اس چھوٹے سے قافلے کو راستہ دیتے گئے۔ مہرخانم کے قدموں کی آواز چیخ چیخ کر اپنی بےگناہی کا اعلان کر رہی تھی مگر ہجوم پر اب بھی سکتہ طاری تھا۔
بیس برس قبل اسکی ماں سحر خانم کو اس کی آنکھوں کے سامنے اسی برگد کے درخت کے نیچے سنگسار کر دیا گیا تھا اور آج اسے اسکی بیٹی کے سامنے اسی برگد کے درخت کے پاس سرعام پھانسی دی جانی تھی –
چوک کے عین وسط میں واقع برگد کے درخت کے سامنے آکر یہ قافلہ رک گیا۔ مہر خانم جو سر جھکائے یہاں تک چلی آئی تھی، اس نے اپنے سر کو جنبش دی اور تمام ہجوم پر ایک پرشکوہ نظرڈالی۔ اس کی نظر برگد کے سامنے کھڑے جلاد کے پیروں پر آ کر خود بہ خود ٹھہر گئی اور وہ وقت کی کتاب میں ماضی کے اوراق پلٹنے لگی۔ وہی جلاد تھا ، وہی برگد کا درخت تھا ، سب سے بڑھ کر وہی خدا تھا اور اسی کی زمیں پر اس کے وہی نائب اور ان کا وہی قانون تھا جو بیس برس قبل اس کی مان کی جن لینے کا سبب بنے تھے۔فرق تھا تو محض دو کرداروں کا تھا۔ بیس برس بعد قانون کے کھیل تماشے میں بس یہی تبدیلی آئی تھی کہ آج سحر خانم کی جگہ اس کی بیٹی پھانسی پانے لگی تھی اور پوتی اس منظر کو دیکھ رہی تھی۔ بیس برس قبل اسکی ماں سحر خانم کو اس کی آنکھوں کے سامنے اسی برگد کے درخت کے نیچے سنگسار کر دیا گیا تھا اور آج اسے اسکی بیٹی کے سامنے اسی برگد کے درخت کے پاس سرعام پھانسی دی جانی تھی – مہر خانم خاموش کھڑی اپنی یاد داشت کی کھڑکیوں میں جھانک رہی تھی کہ اچانک کوتوال کی آواز نے اس افسردہ اور خاموش فضا کے پردے کو چاک کرتے ہوئے حکم صادر کیا ” ملزمہ کو تختہ دار پر لایا جائے ۔”

ظالم و مظلوم کے اس قافلے کے ساتھ لوگوں کی گردنوں نے بھی حرکت کی ، سب لوگ خاموشی سے مہر خانم کو تختہ دار پر جاتا دیکھ رہے تھے۔ ملزمہ کے تختہ دار پر پہنچتے ہی کوتوال نے اعلان کیا کہ ملزمہ کو اسکی آخری خواہش کے مطابق کچھ وقت بولنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ مہر خانم نے کمال خود اعتمادی سے اپنی بات کا آغاز کیا ، ” آج سے بیس برس قبل میری ماں سحر خانم کو اسی جگہ سنگسار کیا گیا تھا ۔ اسے تم نے زنا کے جرم میں سنگسار کیا اور آج اسی کی بیٹی اپنے اوپر جنسی حملہ کرنے والے سرکاری اہلکار کے قتل کے جرم میں پھانسی کی منتظر ہے۔ تم وہی لوگ ہو جنہوں نے بیس برس قبل اسی جگہ پر میری ماں کو سنگسار کیا تھا۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ اس پر زنا کا الزام لگانے والا بھی اس جیسا ہی ایک اہلکار تھا۔ میں نہیں جانتی کہ یہ میری خوش قسمتی ہے یا بدقسمتی کہ مجھے اور میری ماں کو سزا سنانے والا بھی ایک ہی شخص ہے جو تمہارے نزدیک بے حد معزز ہے۔ کیا میں یہ پوچھنے میں حق بجانب نہیں کہ میرے اور میری ماں کے مقدمہ میں واضح تضاد کے باوجود ہم دونوں سے ایک سا سلوک کیوں ؟ کیا میں یہ پوچھ سکتی ہوں کہ اس تاریک دن اپنی عصمت بچانے کی خاطر میں نے جو قدم اٹھایا وہ تمہارے اور تمھارے اس سیاہ قانون کے لیے غلط کیوں ہے ؟ میں سمجھتی ہوں کہ میرا فیصلہ درست تھا۔ کیوں کہ اگر میں اس شخص کو اپنی عصمت دری کی کھلی اجازت دے دیتی تو پھر تمھارے زمانہ قدیم کے قانون کے مطابق چار گواہ کہاں سے لاتی ؟ اور مجھے زنا کا بہتان لگانے کے نتیجے میں اپنی ماں کی طرح سنگسار ہونا پڑتا۔ ہاں تم کہہ سکتے ہو کہ میں نڈر نہیں ہوں کیوں کہ اپنی بد نصیب ماں کے مقابلے میں میں نے ایک آسان موت کا انتخاب کیا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میری بیٹی مہناز خانم یہ جان لے کہ میری ماں سحر خانم کوجب سنگسار کیا گیا تھاوہ تاریک انقلاب کی صبح تھی ،اور آج انقلاب کی آخری تاریک شام ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میری موت کے بعد تمھارے انقلاب کا تاریک سورج غروب ہو کر رہے گا اور میری بیٹی روشن سویرے سے قبل کی تاریک رات میں اپنے نام کی طرح روشن ماہ تاب ثابت ہو گی اور ۔ ۔ ۔” ابھی مہر خانم اپنا جملہ مکمل بھی نہ کر پائی تھی کہ کوتوال نے سزا پر عملدرآمد کا حکم دے دیا۔ مجمع میں پھر چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اہلکاروں کے اشارہ پر جلاد نے لیور کھینچ دیا۔ مرکزی چوک پر مجمع ایک بار پھر خاموش ہوگیا۔ خاموشی کے باوجود سبھی درخت سے جھولتی لاش کی آوازابھی بحی سن سکتے تھے۔ لاش کے عقب میں غروب ہوتے سورج کو دیکھ کر یہی محسوس ہو رہا تھا کہ یہ تاریک سورج جلد غروب ہونے کو ہے۔

4 Responses

  1. Tanveer

    4 Witness is law of allah no man created this law, so don’t diverse people thoughts, that’s is clear, and i know you people are paid

    جواب دیں
    • humaira ashraf

      جناب یہ مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ مصنف نے ایک حساس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں ۔ یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ چار گواہ لانے آسان نہیں تو یا زنا کہلائے گا یا پھر مزاحمت کی صورت میں یہ دوسری صورت بھی پیش آسکتی ہے۔ اسلام کا نظام عدل محض چار گواہ کا متقاضی ہو یا دین فطرت ہونے کے ناطے اسلام عوامل و عواقب پر بھی نظر رکھے اس سلسلے میں کسی عالم کی رائے ہی مستند ہوگی۔ خیال رہے کہ ابھی کچھ دن پہلے ہی ایک بہادر لڑکی اسی جرم میں موت کی سزا جھیل چکی ہے۔ کہ اس کے پاس چار گواہ نہیں تھے اپنے دفاع کے لیے۔ تو اس صورت میں دردمندی سے سوچ کے دین سے ثبوت لانے ہوں گے۔ نا کہ مردوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے کہ جو کرتے پھریں کیوں کہ عورت چار گواہ نہیں لا سکے گی اور زنا کے الزام سے بچنے کے لیے زبان بندی پر مجبور رہے گی۔

      جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: