Laaltain

بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا

24 نومبر، 2016

[blockquote style=”3″]

Virtual Textual Practical Criticism “قاری اساس تنقید” کی مجموعی تھیوری کے تحت وہ طریقِ کار ہے، جس میں طلبہ کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ کسی نظم یا نظمیہ فارمیٹ کے متن پر عملی تنقید کیسے لکھی جائے۔ اس کے لیے شاعر کے نام کا علم ہونا ضروری نہیں ہے۔ (اگر ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن اس کے نجی حالات، سیاسی یا مذہبی خیالات، ہم عصر شاعری کی نہج یا ہم عصر شعرا کا تتبع یا مخالفت وغیرہم کو کلیتاً نظر انداز کر دیا جانا ضروری ہے، گویا کہ آپ کو علم ہی نہیں ہے کہ یہ نظم کس شاعر کی ہے)۔صرف سامنے رکھے ہوئے متن پر ہی انحصار کرنے کے لیے یہ طریق ِ کار اختیار کیا جائے۔ متن میں مشمولہ تمام Proper and Common Nouns اسماء کے ہم معنی الفاظ، یعنی homonyms یا ان کے متبادل الفاظ کی فہرست تیار کر لی جائے۔ اب ہر اس اسم (اسم، اسم ِ ضمیر، اسم معرفہ، نکرہ، آلہ، تصغیر، تکبیر، وغیرہ) کے سامنے بنائی گئی فہرست کے ہر ایک لفظ کو استعمال کیے گئے لفظ کی جگہ پر رکھ کر دیکھا جائے کہ کون سا لفظ شاعر کی منشا یا مطلب کو براہ راست یا استعارہ یا علامت کے طور پر زیادہ واضح طور پر پیش کر سکتا ہے۔ اب تنقید لکھتے ہوئے ان الفاظ کو زیر ِ بحث لایا جائے اور آخری پیرا گراف میں اپنی findings تفصیل سے لکھی جائیں۔ اس طریق کار کے تحت تنقید کا مضمون یورپ اور امریکہ میں پڑھایا جا رہا۔ یہ منظوم سلسلہ “خامہ بدست غالب” غالب کے کلام کو Virtual Textual Practical Criticism کے تحت سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ ستیہ پال آنند

[/blockquote]

غالب کے اشعار پر ستیہ پال آنند کی نظموں پر مشتل سلسلے ‘خامہ بدست غالب‘ میں شامل مزید نظمیں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

شعر

 

ہم کہاں کے دانا تھا، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا (غالبؔ )

 

شاعر کا سوال
یہ کیسی حجت و برہان ، کیا سوال و جواب
کہ آسمان میں تھگلی لگائے کیا کوئی
ہزار بار تو ہم پوچھ چکے ہیں پہلے
اگر یہ ضد ہے کہ اک بار پھر سوال کریں
تو آؤ پوچھ ہی لیتے ہیں آسمان سے ہم!

 

آسمان کا جواب

 

تیز طبع تھا غالب، صاحبِ نظر بھی تھا
عارف و مفکر بھی، ہوش مند، دانا بھی
دور بین، دانشور، شوخ بھی، سیانا بھی
شاستری بھی، پنڈت بھی، فلسفی بھی ہاتف بھی
ہوش مند؟ سنجیدہ؟ معتدل؟ وہ سب کچھ تھا
آسمان میں تھگلی وہ لگا بھی سکتا تھا
ہاں، مگر ہنر مندی، داؤ گھات، کرتب، ڈھب
اس کی دسترس سے دور، غت رُبُود رہتے تھے
ہوشیاری، چالاکی، چالبازی، سازش کا
اس کی بے ریائی سے واسطہ نہ تھا کوئی!
مار کھا گیا سب سے، وہ انیلا، سادہ دل
اس میں دشمنی کیا تھی، آسمان کی، شاعر؟
بے تصنع، سادہ دل، وہ اگر سمجھتا ہے
آسمان دشمن تھا، تو اسے سمجھنے دو!!

 

(اس نظم میں حسبِ ضرورت دو بحور کو بروئے کار لایا گیا)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *