[blockquote style=”3″]
[/blockquote]
اے مرے شہر کی مظلوم لڑکیو ، سن لو!
تم اپنے سر پہ جو عزت کا تاج چاہتی ہو
وہ سر چھپانے سے حاصل تمہیں نہیں ہو گا
نہ اس گھٹن سے جسے نام تم تقدس دو
نہ اس حیا سے جو ہنسنے میں بھی رکاوٹ ہے
تمہیں وہ تاج ملے علم کی فضیلت سے
تمہیں وہ تاج ملے کھیل میں سیاست میں
اب اپنے حق کے لئے مل کے سب بنو آواز !
یہاں یہ عزت و پندار وہ سیاہی ہے
جسے مٹانا فقط اک دیے کا کام نہیں
محبت نسل پرستی سے بغاوت ہمیں سکھاتی ہے
محبت نام و نسب قوم قبیلے سے الگ
اپنی بنیاد مساوات پہ اٹھاتی ہے
اس کی بنیاد میں مسلک کی لڑائی
نہ عقیدے کی گھٹن
یہ کسی ملک کی سرحد کو کہاں مانتی ہے
یہ تو آزاد پرندہ ہے جہاں بھی جائے
کوئی مندر ہو کہ مسجد کہ کلیسا کچھ ہو
یا کوئی دشت ہو محراب کہ صحرا کچھ کو
جہاں بھی پیار ملے گھونسلا بناتی ہے
اک نیا زخم میری لوح پر لگا اس وقت
میں سر جھکائے جو بازار سے گزار رہا تھا
کسی کی چیخ مرے کان میں سنائی دی
سہم کے رک سا گیا، دیکھنے لگا مڑ کر
ہجوم پیٹ رہا تھا کسی سبک سر کو
بس اس کا جرم یہ تھا بھوک سے بلکتے ہوئے
کسی دکان سے روٹی کوئی چرا لی تھی
اور اس سے بڑھ کے اذیت کی بات کیا ہو گی
تڑپ کے مرتے ہوئے بے قصور شخص کے ساتھ
کہ منہ پھولا کے سبھی سلفیاں بنا رہے تھے