بیکن ہاؤس سکول سسٹم کے ساہیوال کیمپس میں پنجابی زبان میں بات چیت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں جاری کیے جانے والے نوٹس میں بدزبانی، گالیوں، نفرت آمیز کلمات پر پابندی عائد کرنے کے ضمن میں پنجابی زبان میں گفتگو کی ممانعت بھی شامل ہے۔ یہ نوٹیفیکیشن جمعرات 13 اکتوبر 2016 کو جاری کیا گیا۔ بیکن ہاؤس سکول سسٹم کوملک کے ممتاز اداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

سکول کی جانب سے جاری کیے گئے اس نوٹیفیکیشن پر پنجابی زبان کی ترویج کے لیے کام کرنے والے کارکنان کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے۔ پنجابی پرچار کے سربراہ احمد رضا نے ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا، "بس بہت ہو چکا، ہم اشرافیہ کے ایک سکول کی جانب سے ایسے اقدامات برداشت نہیں کر سکتے’۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ یہ واضح کریں کہ کیا یہ پالیسی صرف اسی ایک سکول کے لیے ہے یا تمام سکولوں کے لیے۔

بیکن ہاؤس ساہیوال کی جانب سے جاری کیا گیا نوٹیفیکیشن

بیکن ہاؤس ساہیوال کی جانب سے جاری کیا گیا نوٹیفیکیشن

لالٹین سے بات کرتے ہوئے بیکن ہاوس سکول سسٹم لاہور کی ایک خاتون استاد کا کہنا تھا کہ اس قسم کی پابندیاں رسمی یا غیر رسمی طور پر بیکن ہاوس کی دیگر شاخوں میں بھی عائد ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجابی زبان میں بات چیت پر بعض بچوں کو سرزنش بھی کی گئی ہے۔

احمد رضا کے مطابق انگلش میڈیم سکولوں میں بچوں کو جان بوجھ کر مادری زبان سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پنجابی زبان پر ایک واضح حملہ ہے اور اس سے لسانی تعصب میں اضافے کا امکان ہے۔ انہوں پنجابی پرچار کی جانب سے احتجاجی اجلاس منعقد کرنے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔

یاد رہے کہ پاکستانی آئین کی شق 251 صوبوں کو علاقائی زبانوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم کا محکمہ صوبائی عملداری میں دیا گیا تھا جس کے بعد خیبرپختونخوا ور بلوچستان میں مختلف علاقائی زبانوں کی تدریس پر کام شروع کیا گیا تھا تاہم حکومتیں بدلنے کے بعد ان منصوبوں پر کام روک دیا گیا ہے۔ سماجی ماہرین کے مطابق اس قسم کی پابندیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان میں مقامی زبانوں کو ابھی تک نوآبادیاتی تعصب کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے۔
.

Leave a Reply