(علی زیرک)
سرسراتی لہو میں اُکستی صدا کو سماعت میسر نہیں آ سکی
رنگ و روغن ابھی گریہ کرتی ہوئی آنکھ میں
نم زدہ ہے
چمک سے ورا ہے
سہولت سے پلکوں پہ آتا نہیں
ہونکتی
خواب زارِ زمستانِ شر پھونکتی
آگ ہونٹوں پہ آ کر مہکتی تو ہے
پر ابھی لذتیں
کورے جسموں سے ہو کرگزرتی نہیں
ہائے دوشیزگی!!
آبخورے سے چھلکی کہیں بہہ گئی
تشنگی گوشِ حسرت میں اک ان کہی داستاں کہہ گئی
اور طلب کی نویلی مہک دل ہی میں رہ گئی
رائگانی کا نوحہ بدن پر لکھو
بین کرتے رہو۔۔۔

(Published in The Laaltain – Issue 7)

Leave a Reply