Laaltain

بیروزگار بلوچوں کا خون مت نچوڑو

27 مئی، 2015
Picture of شبیر رخشانی

شبیر رخشانی

بلوچستان کے عوام اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے ہیں۔ حصول علم کے لیے تربت ،گوادر، چمن، آواران، خاران، پنجگور، نصیرآباد اور دیگر علاقوں کے نوجوان کراچی، لاہور، اسلام آباد جیسے دور دراز شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ ان شہروں کے تعلیمی اداروں میں بلوچستان کا وہ طبقہ تعلیم حاصل کر رہا ہے جو غریب ہے جسے علم حاصل کرنے کی چاہ نے اس جانب کھینچا ہے۔ نوجوانوں کی ان اداروں میں موجودگی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یا تو ان کے آبائی علاقوں میں تعلیمی ادارے نہیں ہیں یا پھر وہ غیر معیاری ہیں لیکن جیسے تیسے بلوچ نوجوان ملازمت اور بہتر مستقبل کی امید ہر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مگر تعلیم کے حصول کے بعد بھی ان نوجوانوں کی مشکلات ختم نہیں ہوتیں۔
جس طرح نیشنل ٹیسٹنگ سروس نے ہر امیدوار سے فی فارم ایک ہزارروپے وصول کیے تھے اور بلوچستان کے بیروزگار نوجوانوں سے کروڑوں روپے کمائے تھےاسی طرح بلوچستان پبلک سروس کمیشن کی پالیسی بھی بورڑ اور یونیورسٹی کو منافع بخش ادارہ بنانے کا ایک ذریعہ ہے۔
موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے دو برس پورے کر چکی ہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ ان کی پہلی ترجیح تعلیم ہے اور تعلیم کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے وہ ہر ممکن اقدامات اٹھائیں گے۔ ان کے اس ارادے کا مقامی افراد نے خیر مقدم کیا۔ محکمہ تعلیم میں گریڈ1تا15تک کی چار ہزار تین سو انسٹھ خالی آسامیوں کا اعلان کیا گیا۔ ان نشتوں پر تعیناتی کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے امتحانات کی ذمہ داری نیشنل ٹیسٹنگ سروس (NTS) کو سونپی گئی ہے۔ مئی 2015میں سیکنڈری اسکولوں کے گریڈ 17 کے جنرل سائنس اور ٹیکنیشن اساتذہ کی 1173خالی آسامیاں بلوچستان پبلک سروس کمیشن (BPSC) کے ذریعے مشتہر کی گئی ہیں۔
این ٹی ایس کے ذریعے مشتہرکردہ خالی آسامیوں کے لئے وضح کردہ امتحانی فیس کے حوالے سے نوجوانوں کو اعتراض تھا لیکن امیدواروں کی جانب سے احتجاج ریکارڈ کرانے کی وجہ سے یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ لیکن بلوچستان پبلک سروس کمیشن کی جانب سے اعلان کردہ آسامیوں کے لئے بنائ گئ گئے سخت شرائط سے امیدوار بہت پریشان ہیں۔ ایک تو کمیشن کی جانب سے نوجوانوں کو درخواستیں جمع کرانے کے لئے وقت کم دیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب انہی خالی آسامیوں کے لئے یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ امیدوار فارم جمع کرانے سے پہلے تعلیمی اسناد کی تصدیق متعلقہ بورڈ اور یونیورسٹیوں سے کرائیں ۔ اشتہار میں تصدیق کے عمل کو ضروری قرار دینے کے بعد بورڈ اور یونیورسٹی کے احاطے میں امیدواروں کی طویل قطاریں نظر آرہی ہیں۔
اس پیچیدہ طریقہ کار نے نوجوانوں کو مزید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے اور وہ کمیشن کے اس فیصلے سے سخت نالاں ہیں ۔موجودہ ضوابط کسی بھی طور امیدواروں کے لیے قابل قبول نہیں۔ بالخصوص ان امیدواروں کے لیے جو کوئٹہ سے 1200یا 2000کلومیٹر دور ہیں اور درخواست دینے کے اس پیچیدہ عمل کی وجہ سے ان کا اس امتحان میں حصہ لینا محال ہو گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن فارم جمع کرانے کے طریقہ کار میں نرمی پیدا کرتا اور سرٹیفکیٹ کی تصدیق کی شرط صرف کامیاب امیدواروں کے لیے لازمی قرار دیتا۔ اس عمل کو پیچیدہ بنانے کا کس کو فائدہ ہوگااور کیااس عمل سے پبلک سروس کمیشن کی کارکردگی میں ایک نمایاں اضافہ سمجھا جائے گا؟اس اقدام کو ملازمت کی فراہمی کے عمل کی شفافیت کی بجائے اداروں کی ملی بھگت کے ذریعے امیدواروں سے رقم بٹورنے کا آسان طریقہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس طرح نیشنل ٹیسٹنگ سروس نے ہر امیدوار سے فی فارم ایک ہزارروپے وصول کیے تھے اور بلوچستان کے بیروزگار نوجوانوں سے کروڑوں روپے کمائے تھےاسی طرح بلوچستان پبلک سروس کمیشن کی پالیسی بھی بورڑ اور یونیورسٹی کو منافع بخش ادارہ بنانے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے ایک نوجوان جو بیروزگار ہو وہ ملازمت کے حصول کے لیے مزید رقم خرچ کرے اور یہ کہاں کا انصاف ہے کہ سرکاری اداروں کا خسارہ پورا کرنے کے لیے ملازمتوں کے نام پر اس کا خون نچوڑا جائے۔
نیشنل ٹیسٹنگ سروس اور بلوچستان پبلک سروس کمیشن کو ملازمتوں کے لیے درخواست دینے کے چریقہ کار کو آسان بنانےاور فارم جمع کرانے کی آخری تاریخ میں توسیع کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ بلوچستان کے دوردراز علاقوں کے نوجوان بے روزگار رہ جائیں گے۔ پیچیدہ طریقہ کار پر بے جا اخراجات کے باعث بہت سے طلبہ کے لیے درخواست دینا یا ملازمت کی اہلیت جانچنے کے امتحان کی تیاری کرنا ممکن نہیں۔ امید ہے بلوچستان کی صوبائی اور پاکستان کی وفاقی حکومت اس جانب توجہ دیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *