Laaltain

بیت الخلا سے ایک نظم

15 فروری, 2016
Picture of سعد منیر

سعد منیر

[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]

بیت الخلا سے ایک نظم

[/vc_column_text][vc_column_text]

شہر
تہذیب کا بیت الخلا ہے
یہاں بڑے کام کو
کئی سال دے کر
کئی سالوں میں کیا جاتا ہے
چھوٹا کام البتہ
ہر وقت
ہر جگہ
ایک ایک لمحے میں
ہو رہا ہے
شہر خود اپنی دیواروں پر
پیشاب کر رہا ہے
پھر خود کو گالیاں نکال کر
مہذب بنا پھرتا ہے

 

شہر کی بدبو سے
شہر بھی اپنے مضافات میں بھاگ رہا ہے
تم نے بھاگتا ہوا شہر دیکھا ہے؟
جیسے لنگوٹ پہنے آدمی کو
کوئی کتا پڑا ہو
یہ سوسائٹیاں
پھولوں کے نام والی
کوہ قاف کی شام والی
لنگوٹ سنبھال کر بھاگتا ہوا شہر ہے

 

تم نے کبھی سیدھی لکیر کا حبس دیکھا ہے؟
اس پر چلتا ہوا شخص دیکھا ہے؟
دائروں کی مشت زنی دیکھی ہے؟
جو وقت کی شریعت میں چھپی ہے
یہ جو اپنے اندر المیہ اتار کر کھڑی ہے
تم نے کبھی تثلیث کی ہتھیلی پڑھی ہے؟
ادھر لکھا ہے
شہر میں
دو بجے دوپہر ہو
یا شام ہو
یا رات ہو
سنّاٹا ہی سنّاٹا ہی سنّاٹا ہے
اور سنّاٹے میں
چھوٹے بڑے
چھوٹے بڑے کاموں میں لگے رہیں

 

سو سال بعد آج تم نے
کششِ ثقل کی لہروں کو ڈھونڈ لیا ہے
میرے لیے بھی دعا کرنا
میں تمہیں ڈھونڈ رہا ہوں
اور تمہارے اندر
وہ تہذیب ڈھونڈ رہا ہوں
جو دیواروں پر پیشاب نہ کر رہی ہو
مٹی کی امتوں پر
بڑے بڑے کام نہ کر رہی ہو

[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]

ہمارے لیے لکھیں۔