Laaltain

بہاول پور: ایک خوشحال ریاست سے ایک پسماندہ ڈویژن تک

26 ستمبر, 2014
Picture of گل‌زیب خاکوانی

گل‌زیب خاکوانی

book title

نام کتاب : بہاولپور ایک خوشحال ریاست سے ایک پسماندہ ڈویژن تک
مؤلف : مجاہد حسین
قیمت: 399
صفحات: 272
ناشر: سانجھ پبلی کیشنز، بک سٹریٹ۔ 46/2 مزنگ روڈ لاہور۔

 

بہت عرصہ سے بہاول پور صوبہ بحالی کی تحریک پر مبنی ایک دستاویز کی ضرورت پر زور دیا جا رہا تھا۔ چونکہ یہ تحریک ایک تاریخ کی حیثیت رکھتی ہے اور آج بہاولپور کے عوام جن مشکلات سے گزر رہے ہیں، بہت ضروری تھا کہ ہمارے پڑھے لکھے ریاستی حلقوں، اور خاص طور پر نوجوانوں کے حلقوں تک وہ اصل حقائق پہنچیں جنہیں سیاسی معروض کے بہت سے عوامل نے ناصرف دھندلا دیا ہے، بلکہ باقاعدہ کوشش کی گئی کہ ان کے اجداد کی قربانیوں کو ریت کے قرطاس پر لکھا چھوڑ دیا جائے تاکہ وقت کی آندھیاں ان کے نشانات ختم کردیں۔ ”بہاولپور ایک خوشحال ریاست سے ایک پسماندہ ڈویژن تک” ایک کتاب ہی نہیں بلکہ تاریخی حقائق پر مشتمل ایک ڈاکیومنٹ ہے جس میں اہلیانِ بہاولپور کے قصۂ پارینہ بن جانے والے تابناک ماضی اور موجودہ زبوں حالی اور کسمپرسی کا احاطہ کیا گیا ہے۔ تحریک بحالئ صوبہ بہاولپور کے بعد مخلتف تحاریک برپا ہوئیں اور بالآخر سابقہ ریاست بہاولپور کے باشندوں نے اپنی ہزار ہا برس قدیم ہایئبرڈ آیڈینٹیفیکشن / مخلوط نسلی،علاقائی، قومی شناخت کو اپنا لیا اور سرائیکی کی اکائی میں ضم ہوگئے۔ حالانکہ ان کی زبان تو صدیوں ہی سے سرائیکی ہی رہی مگر اسے خطۂ بہاولپور میں ” لہندی” یا ” ریاستی” کہا جاتا تھا۔
ریاست بہاولپور میں میٹرک تک تعلیم مفت تھی جبکہ کالج کے لیے فرمانروا کی جانب سے وظیفہ مقرر تھا۔ ماں کو شیر خوار بچے کا الاؤنس مقرر تھا۔ ریاست کا ہر فرد تعلیم یافتہ، برسرِروزگارتھا۔ ہر طبقے کے پاس کاشت کاری کے لیے اراضی موجود تھی۔
تقسیمِ ہند کے بعد بہاولپور کو پاکستان میں ضم کر دیا گیا۔ انہی دنوں ریاست کے وزرا اور عمائدین کی جانب سے نوابینِ بہاولپور پر سخت دباؤ تھا کہ ریاست کا مستقبل پاکستان سے وابستہ کردیا جائے۔ جبکہ حالات و اقعات سے پتہ چلتا ہے کہ پنڈت نہرو نے بھی اپنی ہمشیرہ محترمہ وجے لکشمی پنڈت کے زریعے نواب بہاولپور کو پیغامات بھجوائے کہ وہ بھارت کے حق میں فیصلہ کریں۔ خیر یہ تو ماضی کا فسانہ تھا مگر آج اس بہاولپور کا جائزہ لیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ آیا یہ وہی بہاولپور ہے جسے پاکستان کے حوالے کرتے وقت نواب بہاولپور نے ایک شرط رکھی تھی کہ اہلیانِ ریاست جو نیا وطن اور نئی شناخت اپنانے جا رہے ہیں ان کے ساتھ ترجیحی برتاؤ کیا جانا چاہیے۔ یہ عوام ان کی ریاست کے زرخرید غلام نہیں رہی۔ وہ توان کے کسٹوڈین رہے ہیں۔ تب محمد علی بوگرہ نے کہا تھا کہ ہز ایکسلینی بے فکر رہیں وہ اہلیانِ ریاست کو اولیت دیں گے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریاست بہاولپور میں میٹرک تک تعلیم مفت تھی جبکہ کالج کے لیے فرمانروا کی جانب سے وظیفہ مقرر تھا۔ ماں کو شیر خوار بچے کا الاؤنس مقرر تھا۔ ریاست کا ہر فرد تعلیم یافتہ، برسرِروزگارتھا۔ ہر طبقے کے پاس کاشت کاری کے لیے اراضی موجود تھی۔ جن کے پاس نہیں ہوتی تو حکومت انہیں کاشت کاری کے لیے رقبہ الاٹ کیا کرتی تھی۔ ریاست کی جانب سے ایک راشن ڈپو تھا جہاں کم قیمت پر اور مفت راشن، کپڑوں کے تھان مُہیا کیے جاتے تھے۔ غریب طبقے کو بیماری و بے روزگاری الاؤنس ملتا تھا۔ 1906ء میں قائم ہونے والے بہاول وکٹوریہ ہسپتال اور ریاست افواج کے سربراہ جنرل لارڈ مارڈن کی بیگم مسز لارڈ مارڈن کی ایما پر بننے والے احمد پور شرقیہ کا سول ہستپال کا شمار برصغیر کے ممتاز شفا خانوں میں ہوتا تھا۔ جہاں مقامی غریب لوگوں کے لیے مفت علاج و معالجہ کی سہولیات موجود تھیں۔ اٹھارویں صدی کے اختتام پر قائم ہونے والی درسگاہیں جن میں صادق ایجرٹن کالج اور صادق ڈین ہائی اسکول سرفہرست تھے، یہ وہی ادارے ہیں جہاں برصغیر کے ممتاز اساتذہ درس و تدریس سے وابستہ رہے اور احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، شفیق الرحمان، محمد خالد اختر سمیت نامور شخصیات تعلیم پاتی رہیں۔ اس زمانے میں بہاولپور کو باغات کا شہر کہا جاتا تھا۔ تمام ریاست میں زرائع آمد و رفت کا نظام موجود تھا۔ مختصراً یہ کہ ریاست بہاولپور ایک انتہائی خوشحال ریاست تھی، اور اس کی خوشحالی کو دیکھ کر باہر دور دراز سے آبادکار یہاں آ کر بس گئے۔ کہا جاتا تھا کہ ایک بار جس نے بہاولپور کے پانی کا اور یہاں کے ماحول کا مزہ چکھ لیا تو وہ پلٹ کر کبھی نہیں گیا۔ یہ مثال اس قدر معتبر ٹھہری کہ فوک گلوکاری میں اس بات کا بارہا تبصرہ ملتا ہے، جیسے سرائیکی زبان کا ایک قدیم گانا ہے، جس میں ایک محبوبہ اپنے محبوب کو منت سماجت کرتی ہے جو مزدوری کرنے ”لمے” یعنی جنوب کی طرف جا رہا ہے کہ وہ وہاں ہرگز نہ جائے۔ کیونکہ ایک بار وہ چلا گیا تو عین ممکن ہے وہ واپس ہی نہ آئے۔”ڈھولا لمے ناں ونج وے”
اقوامِ متحدہ کے ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے تحت خطۂ بہاولپور کا ہر تیسرا باشندہ کالے یرقان اور گردوں کے امراض کا شکار ہے۔ دریا میں پانی نہ ہونے کے باعث صحرائی عمل جاری ہے۔ خطۂ بہاولپور کے پرانے شہر تقریباً کھنڈر بن چکے ہیں۔
کتابِ مذکورہ کے مؤلف نے سابقہ ریاست کے شاندار نہری نظام اور زرائع آبپاشی کا بھی احاطہ کیا ہے۔ ستلج ویلی پراجیکٹ کے نام سے یہ نہری نظام 1932ء میں مکمل ہوا اور ریاست کے حکمرانوں نے ایک خطیر رقم کے حصول کے لیے انگریزی سرکار کے ہاتھ کچھ عرصہ کے لیے ریاست کو گروی رکھا تھا۔ مؤلف رقمطراز ہیں کہ موجودہ نظام آبپاشی ١٩٣٢ میں پایہ تکمیل کو پہنچنے والے ستلج ویلی پراجیکٹ کا رہین ِ منت ہے” یہی وہ نہری نظام تھا جس سے چولستان کی بے آب و گیاہ زمین بھی سیراب ہوتی تھی۔ مگر ریاست کے ادغام کے کچھ عرصہ بعد ایک فوجی حکومت نے ناصرف اہلیانِ بہاولپور پر بلکہ تمام اہلیانِ پاکستان کے سرسبز و شاداب مستقبل پر خطِ تنسیخ کھینچ دیا۔ اور سندھ طاس معاہدے پر دستخط ثبت کر کے پاکستان کے کچھ اہم دریاؤں کے ساتھ ساتھ ستلُج کا پانی بھارت کو بیچ دیا۔ یقیناً یہی ایک بڑا سانحہ موجودہ پاکستان کی اور خاص کر سابقہ ریاست کے باشندوں کی زبوں حالی کے نمایاں ترین اسباب میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ ایسے سوالات بھی ہیں جن سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ کہ نواب بہاولپور صادق محمد خان کی عین حیات میں حکومتِ پاکستان نے سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے، اس پر نواب آف بہاول پور کیوں خاموش تھے؟ یہاں تک کہ اس وقت کے فوجی آمر ازخود نواب بہاول پور کو ان کی خدمات کے صلے میں سب سے اعلٰی ترین اعزاز تمغۂ قائد اعظم دینے کے لیے صادق گڑھ پیلس بہاولپور تشریف لائے۔ کتاب کے مؤلف مجاہد حسین نے بہت تفصیل سے ستلج ویلی پراجیکٹ پر تبصرہ کیا ہے اور اہم اعداد و شمار کے ساتھ اس عظیم پراجیکٹ کے حوالے سے معلومات فراہم کی ہیں۔ وہ اپنے اس مضمون کے اختتام پر لکھتے ہیں “پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے دریائی تقسیم پر جھگڑا ہوا جس کے نتیجے میں سندھ طاس معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے تحت راوی، بیاس اور ستلج کے پانی پر ہندوستان کا حق تسلیم ہوا۔ جبکہ جہلم، چناب اور سندھ پاکستان کے حصے میں آئے۔ دریائے ستلج اور بیاس کا پانی رک جانے سے بہاولپور کے ستلج ویلی پراجیکٹ کے تینوں ہیڈورکس سیلمانکی، اسلام اور پنجند بُری طرح متاثر ہوئےتھے۔” مزید لکھتے ہیں؛ بہاول پور کے نہری نظام کی شاندار تاریخ آج قصۂ پارینہ بن چکی ہے اور بہترین زرعی تاریخ کا یہ حامل خطہ عدم توجہ کے باعث صحرا بن چکا ہے”
ناانصافی پر بہاولپور صوبہ محاذ کی تحریک وجود میں آئی جس نے 1973ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ مگر بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو، صوبہ محاذ کی تحریک کے اثرات کو کم کرنے کے لیے تاج محمد خان لنگاہ کو سرائیکی زبان کی بنیاد پر سیاسی قوت کے طور پر سامنے لے آئے۔
جب اقوام متحدہ کی سربراہی میں بھارت اور پاکستان کے مابین یہ معاہدہ طے پا رہا تھا تو اس وقت اقوام متحدہ کی جانب سے دریائے ستلج کے عوض اس کے متبادل ایک دوسرا جدید نہری نظام وضع کرنے کی ضمانت جاری کی گئی تھی، جس کے تحت بہاولپور کے علاقے کی زرعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک وافر مقدار میں پانی مُہیا کیا جانا تھا۔ اور اس منصوبے کے لیے ایک خطیر رقم بھی مختص کی گئی تھی۔ وہ متبادل نظام کہاں گیا اور وہ خطیر رقم کیا ہوئی؟ ان سوالات کے جوابات تو نہ مل پائے مگر اس کے نتائج خوفناک حقائق کی صورت میں واضح ہوئے جب چولستان کے بعد زرخیز بہاولپور میں یکے بعد دیگرے ماحولیاتی تباہی کا آغاز ہوا، جو علاقہ اپنے باغات اور جنگلات کی وجہ سے جانا جاتا تھا وہاں درختوں کی نسلیں ہی ناپید ہو گئیں۔ جو زمین سونا اُگلتی تھی وہ بنجر ہوگئی۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ زیرِزمین میٹھے پانی کے ذخائر تمام ہو گئے، اور پانی کی سطح اس قدر نیچے چلی گئی کہ کنووں نے آرسینک زہر اُگلنا شروع کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بہاولپور ڈویژن میں لوگوں کے پینے کے لیے صاف پانی موجود نہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے تحت خطۂ بہاولپور کا ہر تیسرا باشندہ کالے یرقان اور گردوں کے امراض کا شکار ہے۔ دریا میں پانی نہ ہونے کے باعث صحرائی عمل جاری ہے۔ خطۂ بہاولپور کے پرانے شہر تقریباً کھنڈر بن چکے ہیں۔ گذشتہ چالیس برسوں سے کوئی بھی بڑا ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ سوائے بہاولپور شہر کے۔ سب چھوٹی بڑی تحصیلیں مہنجو داڑو کا روپ سروپ لیے ہوئے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی ملازمت کے لیے کوئی کوٹہ موجود نہیں۔ حکومتِ وقت کی جانب سے جاری سالانہ این ایف سی ایوارڈ کہاں جاتا ہے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔نواب آف بہاولپور کو تمغہ قائداعظم سے نوازنے کےلئے صدر پاکستان خود صادق گڑھ پیلیس تشریف لائے

نواب آف بہاولپور کو تمغہ قائداعظم سے نوازنے کےلئے صدر پاکستان خود صادق گڑھ پیلیس تشریف لائے

 

اس کتاب میں مؤلف نے بہاولپور صوبہ بحالی تحریک کے حوالے سے بہت اہم معلومات بہم پہنچائیں۔ اور ولی اللہ احد مرحوم کے اخبار روازنامہ کائنات کا مشہور و معروف گولی نمبر کو بھی شامل کیا ہے۔ جس سے ہمیں اور ریاستیوں کی موجودہ نسل کو اس تاریخی مقدمے کے مندرجات اور حقائق معلوم ہوتے ہیں، وہیں اُن نابغہ روزگار ریاستی راہنماؤں کی اپنے مشن کے حصول کے لیے گراں قدر خدمات بھی اجاگر ہوتے ہیں۔ نئی نسل کو کیا معلوم تھا کہ علامہ رحمت اللہ ارشد، چوہدری فرزند علی، سردار محمود خان خاکوانی، غلام محمد خان خاکوانی، غلام قاسم خان خاکوانی، نظام الدین حیدر، عبدالحفیظ لودھی، بیگم زبیدہ حقی، میاں محمد قاسم اویسی، مخدوم حمید الدین حاکم، سید احمد نواز شاہ گردیزی، ملک محمد دین، سید محمود اکبر شاہ، مولانا سراج احمد دین پوری، اکبر کانجو، بیگم طاہرہ مسعود کون تھے؟ اور وہ کون تھے جنہوں نے فرید گیٹ پر بہاولپور کے نام پر جامِ شہادت نوش کیا۔
یہاں یہ بات ضروری ہے کہ ریاست بہاولپور کے لوگوں کے ساتھ تیسرا بڑا سانحہ اس وقت پیش آیا جب ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد بہاولپور کو ایک فوجی آمر کے ایما پراس کی صوبائی حیثیت کو بحال کرنے کی بجائے جبراً پنجاب کے بیگار کیمپ میں ڈال دیا گیا، جبکہ ون یونٹ کے قیام سے قبل بہاولپور پاکستان کے ایک خود مختار صوبے کی حیثیت سے قائم تھا۔ اس ناانصافی پر بہاولپور صوبہ محاذ کی تحریک وجود میں آئی جس نے 1973ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ مگر بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو، صوبہ محاذ کی تحریک کے اثرات کو کم کرنے کے لیے تاج محمد خان لنگاہ کو سرائیکی زبان کی بنیاد پر سیاسی قوت کے طور پر سامنے لے آئے۔
کتاب ِ مذکورہ میں تفصیل کے ساتھ ریاست بہاولپور کی عوام کے ساتھ حکومتوں کی جانب سے کی جانے والی بد دیانتیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ریاست کے تابناک ماضی اور گذشتہ چالیس برسوں میں اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے اور اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے اہلیانِ بہاولپور کا مقدمہ پیش کرتی ہوئی معلوم پڑتی ہے۔
مگر چند ایک ایسے حوالے ہیں جو شامل کتاب نہیں ہوسکے۔ ضروری تھا کہ مؤلف نے جہاں بہت سارے اعداد و شمار پیش کیے ہیں، وہاں انڈس واٹر ٹریٹی کے اصل معاہدے کے متن کو بھی شامل کیا جاتا۔ اور 3 اکتوبر 1947ء کو ریاست بہاولپور اور حکومت پاکستان کے مابین معاہدے کے متن کو بھی پیش کیا جاتا اور اسی کے تسلسل میں ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد جب اس معاہدے کی تجدید ہوئی اس کی تفصیلات بھی شامل کتاب ہوتیں۔ تاکہ ہر ریاستی کو یہ معلوم ہوتا کہ تاریخ نے ان کے ساتھ کتنا بڑا کھلواڑ کیا ہے۔

ہمارے لیے لکھیں۔