4 اپریل 1979 ہمارے سماج میں جہاں سیاست کے اندر ایک مستقل تلخی گھولے جانے کا عکاس ہے وہیں یہ دن ہمارے ادب کو نئی جہت ملنے کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ میں جب اس حوالے سے اپنی یادوں کو کھنگالتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ ڈاکٹر فیروز صاحب نے ایک مضمون اس وقت کے معروف جریدے پاکستان فورم میں لکھا تھا اور اس کا عنوان تھا ‘بھٹو فیلیا، لوگ بھٹو سے محبت کیوں کرتے ہیں’۔ یہ مضمون اگرچہ سیاسی غرض سے لکھا گیا تھا مگراس میں ادبی چاشنی موجود تھی۔ ڈاکٹر فیروز نے لکھا تھا کہ بھٹو پھانسی کے بعد ایک متھ، ایک اسطور میں بدل گیا ہے۔ اور وہ بھٹو حقیقی بھٹو سے کہیں زیادہ امید دلانے والا ہے۔ اور بھٹو صاحب کی پھانسی کو ایک سیاسی لیڈر کی پھانسی سے زیادہ عوامی امنگوں کو سولی دئیے جانے سے تعبیر کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر فیروز نے لکھا تھا کہ بھٹو پھانسی کے بعد ایک متھ، ایک اسطور میں بدل گیا ہے۔ اور وہ بھٹو حقیقی بھٹو سے کہیں زیادہ امید دلانے والا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ بھٹو کے چہلم کے موقعہ پر ستار طاہر مرحوم نے ایک کتاب شائع کی جس کا نام تھا ‘زندہ بھٹو، مردہ بھٹو’ یہ کتاب بھی نیم ادبی تھی۔ اور اس میں بھی بھٹو ایک تاریخی شخصیت سے زیادہ ایک اسطور کے طور پر سامنے لایا گیا تھا۔
یہی ستار طاہر مرحوم تھے جنہوں نے ان ہی دنوں آرتھر ملر کا ناول ‘احتساب کا جنوں’ کے نام سے ترجمہ کرکے شائع کیا تھا اور اس کے شائع کرنے کے پس پردہ بھٹو صاحب کی پھانسی کا المیہ کارفرما تھا۔ اسی دوران ایک کتاب جو خفیہ طور پر شائع ہوئی اور آج تک اس کے اصل مصنف کا پتہ نہیں ہے اور اس پر ضیاء نے پابندی بھی لگائی وہ کتاب ‘خوشبو کی شہادت’ تھی۔ یہ کتاب بھی بھٹو کی پھانسی کے بعد بھٹو کے اسطور کو بیان کرتی نظر آئی۔
بھٹو کی پھانسی پر فیض احمد فیض، احمد فراز، منیر نیازی سمیت اردو کے سب ہی اہم اور بڑے ناموں نے کچھ نہ کچھ کہا۔ اور ہمارے شاعر، افسانہ نگار، کہانی کار اس زمانے میں جب بھی کچھ لکھنے بیٹھے تو ان کی نظموں، غزلوں، قطعات، کہانیوں، افسانوں، ناولوں میں تراکیب، تشبیہ، استعارے، کردار، حالات اور واقعات کے پس پردہ اس پھانسی کے اثرات نظر آئے۔
اس واقعہ کو عام واقعہ خیال نہیں کیا گیا۔ صرف اردو ادب نہیں بلکہ پنجابی، سندھی، پشتو، سرائیکی، بلوچی ادب پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ انگریزی ادب میں یہ طارق علی تھے جنہوں نے ‘دی لیپرڈ اینڈ دی فاکس’ کے نام سے ایک ڈرامہ لکھا۔ اور جس کو بی بی سی کے چینل فور سے نشر ہونا تھا مگر وہ نہیں ہوسکا۔ کیونکہ ان دنوں ضیاء الحق اور ان کی تیار کردہ جہادی پالیسی مغرب کے لیے بہت کارآمد تھی۔ اس ڈرامہ کو طارق علی نے بعد میں کتابی شکل میں شائع کیا۔ اس کا ایک سندھی ترجمہ سندھی مصنف شفقت قادری نے کیا ہے۔
بھٹو کی پھانسی کو ایک المیہ کے طور پر دکھانے میں پاکستان کے ان ادیبوں نے اھم کردار ادا کیا جو ترقی پسند فکر سے منسلک تھے۔ اور اس پھانسی کو قدیم مذھبی المیوں میں استعمال ہونے والے استعاروں سے بھی ملا کر دیکھنے کی کوشش کی گئی۔ میں اگر اس پھانسی کو قدیم المیوں سے جوڑ کر دیکھنے والی پہلی شخصیت کو تلاش کروں تو وہ مجھے بیگم نصرت بھٹو لگتی ہیں۔ جنہوں نے بھٹو کی لاش کو پنڈی سے لاڑکانے تک لانے کے عمل کو بیان کرنے کے لیے کہا تھا کہ وہ اسلام آباد کے کوفے سے سندھ مدینے آئی ہیں اور یہ بہت بلیغ اشارہ تھا۔ بھٹو کی پھانسی کی ٹریجڈی کو بیان کرنے کے لیے اس جملے نے آگے چل کر بھٹو خاندان کے ساتھ ہونے والے المیے کو کربلا کے المیے اور اھل بیت اطہار پر کوفہ میں ہونے والے ظلم کے ساتھ جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔
بھٹو ایک ایسے کردار کے طور پر سامنے لایا گیا جو غریبوں کا ہمدرد اور مونس وغمخوار تھا۔ اور جس کی پھانسی کا سبب غریبوں سے ہمدردی بن گئی تھی۔
بھٹو کی پھانسی کو مسیحی روائت کے اندر دیکھنے کی کوشش بھی کی گئی کیونکہ مصلوب ہونا اور سولی شناس ہونے کا ذکر ہمارے ادب میں پہلے سے موجود تھا۔ اس لیے بھٹو کی پھانسی کو مصلوب ہونے اور ان کی ٹریجڈی کو یسوع مسیح کے المیہ سے مشابہہ کرکے دیکھنے کی کوشش بھی کی گئی۔
بھٹو کی پھانسی نے ہمارے ادب میں مزاحمت، احتجاج اور انقلاب کے تذکرے کو اور زیادہ شدید کردیا۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بھٹو کی شہادت کو بہت نیچے تک بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا۔ اور اس شہادت کے اثرات ہمارے ادب پر بہت گہرے ہوئے۔ اس زمانے کی کہانیوں اور منظوم نثر میں ہمیں بہت زیادہ المیہ نگاری نظر آتی ہے اور ایک احساس زیاں بھی ملتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ شعوری طور پر نہ ہو لیکن اس زمانے میں بھٹو کی پھانسی اجتماعی احساس زیاں کو جنم دینے کا سبب بنی تھی اس لیے اس کی بازگشت مجھے اس زمانے کے شعر و ادب میں جا بجا محسوس ہوتی ہے۔ بھٹو کی پھانسی نے انور سین رائے کے ناول ‘چیخ’ کو جنم دیا۔ اسی زمانے میں اوریانا فلاچی کے ایک ناول کو ڈاکٹر خالد سعید نے ترجمہ کیا۔ میں تو ولیم رائخ کی کتاب ‘لسن او لٹل مین’ کو بھی اس صف میں رکھتا ہوں۔ انور سجاد، ڈاکٹر انوار احمد، سمیع آھوجہ، اور مسعود اشعر کی ادبی تخلیقات پر بھی بھٹو کی پھانسی اور اس کے بعد بننے والی فضا کے خاصے اثرات نظر آتے ہیں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ ہمارا ادب اس پھانسی کے بعد ایک بھونچال کی کیفیت سے گزرا۔ اور اس نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا۔
یہی ستار طاہر مرحوم تھے جنہوں نے ان ہی دنوں آرتھر ملر کا ناول ‘احتساب کا جنوں’ کے نام سے ترجمہ کرکے شائع کیا تھا اور اس کے شائع کرنے کے پس پردہ بھٹو صاحب کی پھانسی کا المیہ کارفرما تھا۔ اسی دوران ایک کتاب جو خفیہ طور پر شائع ہوئی اور آج تک اس کے اصل مصنف کا پتہ نہیں ہے اور اس پر ضیاء نے پابندی بھی لگائی وہ کتاب ‘خوشبو کی شہادت’ تھی۔ یہ کتاب بھی بھٹو کی پھانسی کے بعد بھٹو کے اسطور کو بیان کرتی نظر آئی۔
بھٹو کی پھانسی پر فیض احمد فیض، احمد فراز، منیر نیازی سمیت اردو کے سب ہی اہم اور بڑے ناموں نے کچھ نہ کچھ کہا۔ اور ہمارے شاعر، افسانہ نگار، کہانی کار اس زمانے میں جب بھی کچھ لکھنے بیٹھے تو ان کی نظموں، غزلوں، قطعات، کہانیوں، افسانوں، ناولوں میں تراکیب، تشبیہ، استعارے، کردار، حالات اور واقعات کے پس پردہ اس پھانسی کے اثرات نظر آئے۔
اس واقعہ کو عام واقعہ خیال نہیں کیا گیا۔ صرف اردو ادب نہیں بلکہ پنجابی، سندھی، پشتو، سرائیکی، بلوچی ادب پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ انگریزی ادب میں یہ طارق علی تھے جنہوں نے ‘دی لیپرڈ اینڈ دی فاکس’ کے نام سے ایک ڈرامہ لکھا۔ اور جس کو بی بی سی کے چینل فور سے نشر ہونا تھا مگر وہ نہیں ہوسکا۔ کیونکہ ان دنوں ضیاء الحق اور ان کی تیار کردہ جہادی پالیسی مغرب کے لیے بہت کارآمد تھی۔ اس ڈرامہ کو طارق علی نے بعد میں کتابی شکل میں شائع کیا۔ اس کا ایک سندھی ترجمہ سندھی مصنف شفقت قادری نے کیا ہے۔
بھٹو کی پھانسی کو ایک المیہ کے طور پر دکھانے میں پاکستان کے ان ادیبوں نے اھم کردار ادا کیا جو ترقی پسند فکر سے منسلک تھے۔ اور اس پھانسی کو قدیم مذھبی المیوں میں استعمال ہونے والے استعاروں سے بھی ملا کر دیکھنے کی کوشش کی گئی۔ میں اگر اس پھانسی کو قدیم المیوں سے جوڑ کر دیکھنے والی پہلی شخصیت کو تلاش کروں تو وہ مجھے بیگم نصرت بھٹو لگتی ہیں۔ جنہوں نے بھٹو کی لاش کو پنڈی سے لاڑکانے تک لانے کے عمل کو بیان کرنے کے لیے کہا تھا کہ وہ اسلام آباد کے کوفے سے سندھ مدینے آئی ہیں اور یہ بہت بلیغ اشارہ تھا۔ بھٹو کی پھانسی کی ٹریجڈی کو بیان کرنے کے لیے اس جملے نے آگے چل کر بھٹو خاندان کے ساتھ ہونے والے المیے کو کربلا کے المیے اور اھل بیت اطہار پر کوفہ میں ہونے والے ظلم کے ساتھ جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔
بھٹو ایک ایسے کردار کے طور پر سامنے لایا گیا جو غریبوں کا ہمدرد اور مونس وغمخوار تھا۔ اور جس کی پھانسی کا سبب غریبوں سے ہمدردی بن گئی تھی۔
بھٹو کی پھانسی کو مسیحی روائت کے اندر دیکھنے کی کوشش بھی کی گئی کیونکہ مصلوب ہونا اور سولی شناس ہونے کا ذکر ہمارے ادب میں پہلے سے موجود تھا۔ اس لیے بھٹو کی پھانسی کو مصلوب ہونے اور ان کی ٹریجڈی کو یسوع مسیح کے المیہ سے مشابہہ کرکے دیکھنے کی کوشش بھی کی گئی۔
بھٹو کی پھانسی نے ہمارے ادب میں مزاحمت، احتجاج اور انقلاب کے تذکرے کو اور زیادہ شدید کردیا۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بھٹو کی شہادت کو بہت نیچے تک بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا۔ اور اس شہادت کے اثرات ہمارے ادب پر بہت گہرے ہوئے۔ اس زمانے کی کہانیوں اور منظوم نثر میں ہمیں بہت زیادہ المیہ نگاری نظر آتی ہے اور ایک احساس زیاں بھی ملتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ شعوری طور پر نہ ہو لیکن اس زمانے میں بھٹو کی پھانسی اجتماعی احساس زیاں کو جنم دینے کا سبب بنی تھی اس لیے اس کی بازگشت مجھے اس زمانے کے شعر و ادب میں جا بجا محسوس ہوتی ہے۔ بھٹو کی پھانسی نے انور سین رائے کے ناول ‘چیخ’ کو جنم دیا۔ اسی زمانے میں اوریانا فلاچی کے ایک ناول کو ڈاکٹر خالد سعید نے ترجمہ کیا۔ میں تو ولیم رائخ کی کتاب ‘لسن او لٹل مین’ کو بھی اس صف میں رکھتا ہوں۔ انور سجاد، ڈاکٹر انوار احمد، سمیع آھوجہ، اور مسعود اشعر کی ادبی تخلیقات پر بھی بھٹو کی پھانسی اور اس کے بعد بننے والی فضا کے خاصے اثرات نظر آتے ہیں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ ہمارا ادب اس پھانسی کے بعد ایک بھونچال کی کیفیت سے گزرا۔ اور اس نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا۔
بھٹو کی پھانسی نے ہمارے ادب میں مزاحمت، احتجاج اور انقلاب کے تذکرے کو اور زیادہ شدید کردیا۔
مجھے ‘میں باغی ہوں’ جیسی نظم کے خالق ڈاکٹر خالد جاوید جان، قمر رضا شہزاد، رضی الدین رضی، اور شاکر حسین شاکر بتلاتے ہیں کہ کیسے ان کی نثر اور شاعری کو بھٹو کی پھانسی نے متاثر کیا۔ قمر یورش کا نام مجھے یاد آرھا ہے جن کی کہانی نے بھٹو کی پھانسی کے بعد ایک نیا جنم لیا تھا۔ پنجابی کے معروف ادیب افضل حسن رندھاوا کی کہانیوں میں ہم نے اس المیہ کا اثر دیکھا جس کا اعتراف سب ہی کرتے ہیں۔ استاد دامن اور حبیب جالب اگرچہ بھٹو صاحب سے خوش نہ تھے لیکن یہ پھانسی ان کے لیے بھی المیہ بنی اور ان کی شاعری پر بھی اس کے اثرات دیکھنے کو ملے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں بھٹو کی پھانسی کو عالمی تناظر میں دیکھنے کی کوشش بھی ادبی سطح پر کی گئی۔ اس ضمن میں لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا کے دیگر خطوں سے ایسے واقعات پر مبنی کہانیاں ڈھونڈنے کا کام ہوا اور ان کو یہاں شائع کیا گیا جن سے بھٹو کی پھانسی کی مماثلت بنتی تھی۔ بھٹو کی شخصیت کو ایک اسطور کے طور پر دیکھنے کا عمل اور اس کے متھ میں بدل جانے کا اثر اس قدر غالب تھا کہ خود بے نظیر بھٹو نے اس کو ایک بڑے المیے کے طور پر قدرے افسانوی رنگ میں اپنی خود نوشت میں بیان کیا۔ ‘مشرق کی بیٹی’ ایک اسطوری رنگ میں بھٹو کی پھانسی سے قبل اور بعد کے واقعات کو بیان کرتی ہے۔ اور شاید بھٹو کے متھ اور اسطور میں بدلنے کی وجہ سے یہ ہوا کہ خود انکی بیٹی بھی حقیقت اور میجک کے امتزاج سے مل کر ایک اسطور میں بدل گئی ہے۔ اور بے نظیر کے ساتھ تو ایسا ان کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا۔ ستائیس دسمبر 2007 کو جب وہ شہید ہوئیں تو اس شہادت کو بھی ویسے ہی رنگ میں دیکھا گیا جیسے بھٹو کی شہادت کو دیکھا گیا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اب قوم کے وہ حلقے بھی اس قدر بالغ ضرور ہو گئے تھے جو عرف عام میں اینٹی بھٹو کہلاتے تھے کہ یہ جان لیں کہ اسطور جب مصلوب ہوں یا مقتول تو خوشی نہیں غم مناتے ہیں اور مٹھائی نہیں بلکہ نیاز دلواتے ہیں۔ صفدر میر صاحب کا ایک طویل تاریخی ڈرامہ ‘آخری حصار شب’ بھی ایسا ہی ایک ناول تھا۔ افضل توصیف صاحبہ اور فہمیدہ ریاض کی تخلیقات پر بھی اس پھانسی نے اپنے اثرات مرتب کیے تھے۔ اعتزاز احسن کی شاعری نے بھی اس سے اثر لیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بھٹو کی پھانسی سیاست کا المیہ نہیں تھی بلکہ یہ پورے سماج کا المیہ بن کر سامنے آئی اور اس کا کفارہ دینے کی کوشش ہمارے سماج کے سبھی اھل علم و دانش نے اپنے اپنے طور پر کی۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں بھٹو کی پھانسی کو عالمی تناظر میں دیکھنے کی کوشش بھی ادبی سطح پر کی گئی۔ اس ضمن میں لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا کے دیگر خطوں سے ایسے واقعات پر مبنی کہانیاں ڈھونڈنے کا کام ہوا اور ان کو یہاں شائع کیا گیا جن سے بھٹو کی پھانسی کی مماثلت بنتی تھی۔ بھٹو کی شخصیت کو ایک اسطور کے طور پر دیکھنے کا عمل اور اس کے متھ میں بدل جانے کا اثر اس قدر غالب تھا کہ خود بے نظیر بھٹو نے اس کو ایک بڑے المیے کے طور پر قدرے افسانوی رنگ میں اپنی خود نوشت میں بیان کیا۔ ‘مشرق کی بیٹی’ ایک اسطوری رنگ میں بھٹو کی پھانسی سے قبل اور بعد کے واقعات کو بیان کرتی ہے۔ اور شاید بھٹو کے متھ اور اسطور میں بدلنے کی وجہ سے یہ ہوا کہ خود انکی بیٹی بھی حقیقت اور میجک کے امتزاج سے مل کر ایک اسطور میں بدل گئی ہے۔ اور بے نظیر کے ساتھ تو ایسا ان کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا۔ ستائیس دسمبر 2007 کو جب وہ شہید ہوئیں تو اس شہادت کو بھی ویسے ہی رنگ میں دیکھا گیا جیسے بھٹو کی شہادت کو دیکھا گیا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اب قوم کے وہ حلقے بھی اس قدر بالغ ضرور ہو گئے تھے جو عرف عام میں اینٹی بھٹو کہلاتے تھے کہ یہ جان لیں کہ اسطور جب مصلوب ہوں یا مقتول تو خوشی نہیں غم مناتے ہیں اور مٹھائی نہیں بلکہ نیاز دلواتے ہیں۔ صفدر میر صاحب کا ایک طویل تاریخی ڈرامہ ‘آخری حصار شب’ بھی ایسا ہی ایک ناول تھا۔ افضل توصیف صاحبہ اور فہمیدہ ریاض کی تخلیقات پر بھی اس پھانسی نے اپنے اثرات مرتب کیے تھے۔ اعتزاز احسن کی شاعری نے بھی اس سے اثر لیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بھٹو کی پھانسی سیاست کا المیہ نہیں تھی بلکہ یہ پورے سماج کا المیہ بن کر سامنے آئی اور اس کا کفارہ دینے کی کوشش ہمارے سماج کے سبھی اھل علم و دانش نے اپنے اپنے طور پر کی۔
بھٹو کی پھانسی سیاست کا المیہ نہیں تھی بلکہ یہ پورے سماج کا المیہ بن کر سامنے آئی اور اس کا کفارہ دینے کی کوشش ہمارے سماج کے سبھی اھل علم و دانش نے اپنے اپنے طور پر کی۔
بھٹو فیلیا ہمارے سماج کی ایک ناقابل تردید حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ بھٹو ایک اسطور کے طور پر موجود ہے۔ اس اسطور میں اب بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر، مرتضی اور شاہ نواز بھی شامل ہیں اور اگر آپ کو مبالغہ نہ لگے تو میں یہ کہنے کی جرات بھی کرتا ہوں کہ اس میں نذیر عباسی، ایاز سموں، ادریس طوطی، اور رزاق جھرنا بھی شامل ہیں۔ میں ‘نیلے ہاتھ’ جیسے ڈراموں کو بھی اسی اسطور کو پھیلانے اور وسعت دینے والی تحریروں کا ایک اور سنگ میل خیال کرتا ہوں۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں اگر وسیم احمد کی بیوہ پروین ملک ارون دھتی رائے کا ‘گاڈ آف سمال تھنگز’ ترجمہ کرتی ہے اور مرحوم نعیم کلاسرا لاطینی امریکہ سے گبیرئل گارشیا مارکیز کا ‘تنہائی کے سو سال’ کا ترجمہ کرتے ہیں تو اس کے پس پردہ بھی اس اسطور سے بننے والی فضا ہے۔ سرائیکی شاعری میں اشو لال اور عاشق بزدار کی شاعری میں اس اسطور نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس اسطور کے نشان ہمیں رفعت عباس، شمیم عارف قریشی کے ہاں بھی نظر آتے ہیں۔ یہ اور بات کہ اس اسطور کی آفاقیت اور عالمگیریت ان کے ہاں تنگ قوم پرستی کے دائرے میں قید قید سی لگنے لگتی ہے۔ میں بھٹو کی پھانسی سے متاثر ہو کر اپنے اختلافات کو بھول جانے اور پھر اپنی تحریروں میں اس متھ کو استعمال کرنے والے دو حضرات کو تو نظر انداز ہی کر رہا تھا اور یہ بہت بڑی ناانصافی ہوتی۔ ان کے نام ہیں شفقت تنویر مرزا اور نجم حسین سید۔ ایک اور سید صاحب تھے اختر حسین جعفری جنہوں نے بھٹو کی پھانسی کو ‘مرگ یوسف’ سے تعبیر کیا اور اس پر کمال کی نظم لکھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ بھٹو کی پھانسی پر اس سے عمدہ اور شاندار مرثیہ نہ تو لکھا گیا اور نہ لکھا جائے گا۔ افسوس کہ مرگ یوسف کی خبر سچی ثابت ہوئی اور جو بیبیاں سجادے لیکر بدست دعا تھیں کہ ‘یا الہی مرگ یوسف کی خبر سچی نہ ہو’ ان کی دعائیں بے اثر چلی گئیں۔ لیکن ایک لمحے کے لیے سولی پر آنے والی مرگ کے بعد ہمارے یوسف پر پھر کبھی مرگ نہیں آئی اور سارے جہاں میں گونجتا ہے ‘زندہ ہے بھٹو زندہ ہے’۔
(بشکریہ LUBP)
(بشکریہ LUBP)
Leave a Reply