Laaltain

بھٹو خاندان؛ سیٹھو بھٹو سے بلاول بھٹو تک

27 دسمبر، 2016
Picture of حمیرہ اشرف

حمیرہ اشرف

پاکستان کا سیاسی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کی سیاسی جماعتیں غیر فعال ہیں جو عشروں سے صرف دو سیاسی خاندانوں کا آلہ کار بنی ہوئی ہیں، بھٹو اور شریف خاندان، اور بدقسمتی سے دونوں ہی کرپٹ ہیں۔ بھٹو خاندان قیام پاکستان سے پہلے بھی سیاسی حوالے سے ایک نام اور پہچان رکھتا تھا، قیام پاکستان کے بعد اس خاندان کے نوجوان ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے ایک جماعت بنائی اور عملی سیاست میں قدم رکھا۔ بھٹو خاندان کی تاریخ سیاست، ریشہ دوانیوں اور قتل و خون سے رنگی ہے۔ زیر نظر سطور میں اس خاندان کی تاریخ پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

 

مغلیہ سلطنت نے محاصل اکٹھے کرنے کے لیے سلطنت کو انتظامی اعتبار سے مختلف حصوں میں منقسم کر دیا، یہ محاصل اکٹھا کرنے والے زمین دار کہلائے۔ ان بہت سے محاصل اکٹھے کرنے والے زمین داروں میں بھٹو قبیلہ بھی شامل تھا جو بہت دولت مند تھے۔ بھٹو قبیلہ سندھ کے مرکز یعنی مغل حکومت کے قلب میں آباد تھا۔ اکبر اعظم بھی سندھ ہی میں پیدا ہوا تھا۔ بھٹو خانوادہ جنگجو قوم راجپوت نسل سے تعلق رکھتا ہے جو آج بھی انڈیا و پاکستان کی فوج کا غالب حصہ ہے۔

 

15 ویں صدی میں بھٹو خاندان کے بزرگ سیٹھو بھٹو جیسلمیر سے ہجرت کر کے سندھ میں آباد ہوئے۔ یہ مغل دور حکومت تھا جب سندھ پر کلھوڑو خاندان حکمران تھا جو مغل سلطنت کے ماتحت تھے۔ یہ ضلع لاڑکانہ کے تعلقے رتو ڈیرو میں آباد ہوئے اور لاڑکانہ، جیکب آباد، اور شکار پور کے وسیع زرخیز رقبے کے مالک ہوئے۔ اس علاقے کی اہم فصلیں چاول، کپاس، اور گنا تھیں۔ بھٹو خاندان ہر لحاظ سے سندھ کے دوسرے خاندانوں پر سبقت رکھتا تھا۔ یہ دولت جائیداد کے حوالے سے بھی ممتاز تھے اور دیگر زمین داروں کی نسبت شان و شوکت، عظمت اور اقتدار کے حصول پر یقین رکھتے تھے۔

 

یہ راجپوت غالبا 18 ویں صدی میں مسلمان ہوئے۔ تالپور خانوادے اور اس کے بعد سندھ میں چارلس نیپیئر کی حکومت کے دوران اس خاندان کی سربراہی دودا خان بھٹو کر رہے تھے جو ستھو خان کے پوتے تھے۔ دودا خان بھٹو نے اپنی زمینوں میں توسیع کے لیے خاصا کام کیا اور بھٹو خاندان میں سب سے زیادہ زمینوں کے حامل فرد بن گئے۔ کچھ روایات کے مطابق دودا خان بھٹو کو برطانویوں کی جانب سے سندھ بھر میں اہم ترین زمین دار خیال کیا جاتا تھا۔

 

دادو خان کے تین بیٹے تھےجن میں سب سے بڑے خدا بخش بھٹو تھے ان کے بعد الہی بخش اور پھر امیر بخش۔ ستھو خان کے بیٹے پیر بخش بھٹو نے بھٹو خاندان کا آبائی گھر تعمیر کیا۔ گڑھی خدا بخش میں بھٹو مقبرہ دودا خان کے بیٹے زمین دار خدا بخش بھٹو نے تعمیر کروایا تھا (بعد از اس کی عظیم توسیع محترمہ بینظیر بھٹو نے کروائی)۔ خدا بخش بھٹو کے بیٹےسردار مرتضیٰ بھٹو نے لاڑکانہ میں ایک بڑی اقامتی اراضی تعمیر کی جس کا نام المرتضیٰ رکھا گیا۔
میر علی مراد خان تالپور نے پیر بخش خان بھٹو کو بلایا اور ان کے بیٹےاللہ بخش خان بھٹو کو اپنے دربار میں جگہ دی (درحقیقت انھوں نے بھٹو خاندان کی جانب سے بغاوت کے خدشے کے پیش نظر ان کے بیٹے کو اپنے ہاں رکھ لیا تھا جو بظاہر دوستی پر محمول تھا لیکن درپردہ طور پر نظربندی تھی)۔ ایسا کرنے کی وجہ بھٹو خاندان کی لڑاکا اور جنگجویانہ فطرت تھی جس کے باعث ان کے اطراف کے لوگ ان کو خطرہ تصور کرتے تھے۔

 

برطانوی جو پورے برصغیر پر قبضے کے خواہاں تھے وہ سندھ میں تالپوروں کو نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ اپنے تمام تر وعدوں اور دوستی و تعاون کے باوجود انھوں نے مارچ 1843 میں سندھ پر قبضہ کر لیا۔ اور تالپور حکمرانوں کو مع خاندان کلکتہ بھیج دیا گیا۔
جب تالپور گرفتار، جلاوطن اور قید ہوئے اور برطانوی حاکم بنے تو زیادہ تر زمین دار خوفزدہ ہوگئے اور اپنے نئے غیرملکی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے گڑگڑانے لگے۔ لیکن یہ اعزاز بھی بھٹو خاندان کے حصے میں آیا جنھوں نے اپنی سابقہ روش اور عظمت برقرار رکھی، وہ برطانوی حکمرانوں سے نہ ہی خوف زدہ ہوئے اور نہ ہی اپنے رویے میں کوئی فرق آنے دیا۔

 

خدا بخش بھٹو کے بیٹے وڈیرے غلام مرتضیٰ بالائی سندھ اور شکار پور میں اراضی کے مالک ایک امیر آدمی تھے۔ میر غلام مرتضیٰ اور ان کے عزت نفس کے حامل والد خدا بخش خان کے خلاف کئی ایک جھوٹےمقدمات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ انھوں نے برطانوی اور ان کے حاشیہ بردار زمین داروں کی ریشہ دوانیوں اور مظالم کے خلاف دفاع میں پانی کی طرح روپیہ بہایا۔ ایک دن خدا بخش بھٹو زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے جیکب آباد گئے تو وہاں کلھاڑیوں کے وار کر کے ان کو قتل کر دیا گیا۔ یہ بھٹو خاندان کا پہلا قتل تھا۔ برطانویوں سے بچ کر غلام مرتضیٰ نے بہاولپور میں پناہ لی لیکن جب برطانویوں نے ریاست بہاولپور پر قبضے کی دھمکیاں دیں تو آپ نے نواب کا شکریہ ادا کیا اور دریائے سندھ عبور کر کے سلطنت افغانستان میں پناہ گزین ہوئے جہاں وہ شاہی خاندان کے مہمان بنے۔ اس غصے میں برطانوی حکمرانوں نے 1896 میں ان کی تمام املاک پر قبضہ کر لیا اور پولیس سپرنٹنڈنٹ کے ذریعے ان کے اہل خانہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ صرف تن کے پہنے کپڑوں میں ہی رتو ڈیرو تعلقے میں قائم ان کے گڑھی خدا بخش گاؤں میں واقع عالیشان گھر کو چھوڑ کر نکل جائیں۔

 

بالآخر برطانوی حکمرانوں کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد غلام مرتضیٰ لاڑکانہ واپس آئے۔ تاہم ان کے دن گنے جاچکے تھے۔ ان کی صحت دن بدن گرنے لگی اور وہ شدید بیمار پڑ گئے۔ حکیموں اور گاؤں کے ویدوں نے شبہہ ظاہر کیا کہ ان کو زہر دیا جارہا ہے لیکن وہ زہر دینے والے ذریعے کی شناخت نہ کرسکے۔ ان کے کھانے اور پینے کے پانی کو انھیں دینے سے پہلےباقاعدہ چکھا جاتا تھا لیکن زہر دیے جانے کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ 1896 میں ہی ستائیس برس کی عمر میں وہ انتقال کر گئے۔ جس کے بعد زہر کے ذریعے کی شناخت ہوئی جو کہ ان کا حقہ تھا۔ وہ رات کے کھانے کے بعد حقہ نوش کرتے تھے۔ یہ بھٹو خاندان کا دوسرا قتل تھا۔ مرتضیٰ بھٹو کے بعد تمام تر ذمہ داری ناپختہ و کم عمر شاہنواز خان بھٹو کے کاندھوں پر آگئی۔ اتنے بڑے کنبے کی دیکھ بھال، مختلف اضلاع میں وسیع رقبے پر پھیلی زمین داری، خاندانی مخالفین کی سرکوبی اور معاندانہ سرگرمیوں کا انتظام بہت بڑی ذمہ داریاں تھیں۔ اس لیے برطانوی حکومت نے اس کے چچا الہی بخش (ممتاز بھٹو کے دادا)کو اس کا مختار بنایا جس نے شاہنواز کی تعلیم اور زمین و جائداد کا احسن طریقے سے خیال رکھا۔ 1908 میں جب شاہنواز بھٹو اپنی تعلیم مکمل کرکے گاؤں واپس آئے تو کچھ عرصہ بعدایک دن اپنے چچا کے ساتھ لاڑکانہ شہر کے ڈپٹی کلیکٹر سے ملاقات کے لیے گئے۔ شام ڈھلے واپسی پر دونوں روٹی کھاکر سوگئے اور صبح کو الہی بخش کومردہ حالت میں پایا گیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کودل کا دورہ پڑا ہوگا جبکہ بیشتر کو شک تھا کہ اس نے خودکشی کی ہوگی۔ الہی بخش کی موت کے بعد اس کے دو بیٹوں اور اہل و عیال کی ذمہ داری بھی شاہنواز بھٹو کے کاندھوں پر آگئی۔

 

رتو ڈیرو لاڑکانہ سے 28 کلومیٹر پرے ایک ذیلی ضلع (سب ڈسٹرکٹ ) ہے۔ اس قبضے میں بھٹو خاندان کے بنگلے اور وسیع ذرخیز زمین ہے جہاں ان کے بہت سے رشتے دار رہتے ہیں۔ پہلا بھٹو خاندان جو یہاں قیام پذیر ہوا وہ رسول بخش خان بھٹو کا تھا، ان کے بعد خان بہادر احمد خان بھٹو پگ دار بنے۔ سردار واحد بخش خان بھٹو کے بھائی نواب نبی بخش بھٹو دہلی مقننہ کے رکن رہے اور کچھ عرصہ لاڑکانہ کے ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ کے صدر بھی رہے۔ ان کے بیٹے ممتاز بھٹو سندھ کے وزیراعلیٰ اور قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر بھی رہے۔ یہ شہر سیاسی قائدین کے حوالے سے جانا جاتا ہے اس دھرتی کے اہم سیاسی سپوت سر شاہنواز خان بھٹو، نواب نبی بخش خان بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور ممتاز علی خان بھٹو شامل ہیں۔

 

سر شاہنواز بھٹو رتو ڈیرو میں 1888 میں پیدا ہوئے۔ آپ خدا بخش بھٹو کے پوتے اور مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے تھے۔ آپ کو تعلیم کے لیے انگلینڈ بھیجا گیا۔ جب سر شاہنواز 1908 میں ہندوستان واپس آئے تو انھیں ان کی تعلیم، خاندانی پس منظر اور ذہانت و انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر ہندوستانی برطانوی سوسائیٹی میں بڑی قدر منزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ وہ برطانوی ہندوستان میں سندھ کے ترجمان سمجھے جاتے تھے اور انھی کی کوششوں سے سندھ کو بمبئی سے الگ درجہ دیا گیا۔ 1925 میں سر شاہنواز بھٹو سندھ نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کے صدر بنے۔ 1937 میں سندھ کے نمایاں جاگیرداروں سر شاہنواز بھٹو، اللہ بخش، عمر سومرو، اور یار محمد جونیجو کی سرکردگی میں سندھ یونائیٹڈ پارٹی میں تشکیل دی گئی۔ 1940 میں سر شاہنواز بھٹو نے سندھ پارٹی قائم کی۔

 

1947 میں آپ ریاست جونا گڑھ منتقل ہوگئے اور ریاست کے دیوان یعنی وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا۔یہاں وہ دیوان شاہنواز کہلائے۔ 1947 میں دیوان شاہنواز نے نواب جونا گڑھ کو انڈیا سے الحاق پر زور دیا۔ یوں دیوان شاہنواز سر شاہنواز بھٹو بن گئے اور انھیں انڈیا پاکستان کی تقسیم کے دوران مدد کرنے پر CIE کمپینین آف دی آرڈر آف انڈین ایمپائر اور OBE آفیسر آف دی آرڈر آف برٹش ایمپائر کے اعزازات سے نوازا گیا۔

 

ایک دولت مند زمین دار گھرانے کا حصہ ہونے کے ناطے اور زمین داروں کے لیے برائے نام محاصل لاگو ہونے کے باعث بھٹو خاندان پر قسمت کی دیوی مہربان رہی۔ شاہنواز بھٹو کے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے سیاسی رہنما ہیں۔ آپ ایوب خان کے دور حکومت میں مختلف وزارتوں پر فائز رہے۔ 1971 تا 73ء پاکستان کے صدر مملکت اور 1973 تا 77ء ملک کے وزیر اعظم کے عہدوں پر متمکن رہے۔ پاکستان میں آپ کو قائدِعوام‎‎ یعنی عوام کا رہبر اور بابائے آئینِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ آپ پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین وزیراعظم تھے۔1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلیوں کے سبب ملک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ 5 جولائی 1977ء کو جنرل محمد ضیا الحق نے مارشل لاء نافذ کر کے وزیراعظم کو معزول کر دیا۔ ستمبر1977ء میں انھیں ان کے سیاسی مخالف نواب محمد احمد خاں کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ جبکہ 18 مارچ 1978ء کو ہائی کورٹ نے انھیں سزائے موت کا حکم سنادیا۔ 6 فروری 1979ءکو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کر دی۔ 4 اپریل کو انھیں راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ ان کی بیٹی محترمہ بینظر بھٹو دو مرتبہ ملک کی وزیراعظم رہیں۔

 

ذوالفقار علی بھٹو کے چار بچے تھے، دو بیٹے مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو جبکہ بیٹیاں صنم بھٹو اور بینظیر بھٹو۔ شاہنواز بھٹو کسی بے نام وجہ کی بنا پر فوت ہوگئے جسے خودکشی یا قتل کا نام دیا جاتا ہے۔ مرتضیٰ بھٹو نے الذولفقار نامی دہشت گرد تنظیم بنائی اورضیا دور میں مختلف تخریبی سرگرمیوں میں ان کا نام سامنے آتا رہا۔ انھیں کراچی میں ان کے گھر کے پاس پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا جبکہ اس وقت عنان حکومت ان کی اپنی سگی بہن محترمہ بینظیر بھٹو کے ہاتھ میں تھی۔ صنم بھٹو سیاسی ہنگاموں سے دور گھریلو زندگی گزار رہی ہیں۔ بینظیر بھٹو کو طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپسی پر 27 دسمبر 2007ء میں لیاقت باغ میں دوران جلسہ قتل کر دیا گیا۔ مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار جونیر پیپلز پارٹی کے وارثین کہے جاتے ہیں تاہم عملاً پیپلز پارٹی کی قیادت بینظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری کے ہاتھ میں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *