بھارت میں بعض انتہا پسند ہندو جنہیں مسلمانوں سے اور خاص کر پاکستانی مسلمانوں سے خدا نام کا بیر ہے کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔خاص کر جب سے نریندرمودی صاحب کی حکومت آئی ہے ان کی انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں شدت آگئی ہے اور اب یہ حال ہے کہ یہ انتہا پسند ہندو کسی اور مذہب کے پیروکاروں کو خواہ وہ مسلمان ہوں ، عیسائی ہو ں یا سکھ ہو ں برداشت نہیں کر پا رہے۔ ہندوستان میں رفتہ رفتہ مذہبی اقلیتوں پر تشدد اور ان کی مقدس کتابوں اور عبادت گاہوں کی بے حرمتی معمول بنتی جارہی ہے۔ ان انتہا پسند ہندوتنظیموں کے لیے صرف غیر مذہب کے لوگ ہیں نہیں بلکہ ہم مذہب سیکولر اور روشن خیال افراد بھی ناقابل قبول ہیں۔ ان انتہاپسند تنظیموں میں سب سے زیادہ فعال بال ٹھاکرے کی تنظیم شیو سینا کا ہے جو کسی نہ کسی بہانے مذہبی اقلیتوں کو تشدد کا نشانہ بناتی رہتی ہے، کبھی رام مندر کی تعمیر کا شوشا چھوڑا جاتا ہے ،کبھی دانشوروں کے منہ پر کالک مل دی جاتی ہے اور کبھی پاکستانی فنکاروں کے پروگراموں اور فلموں کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے۔ شیوسینا کی سرگرمیوں پر بات کرنے سے پہلے شیوسینا کے بارے میں جاننا بھی بہت ضروری ہے ۔
بہت سے ہندووں نے بھی شیو سینا کی ان سرگرمیوں کو کھلم کھلا تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ہندوستانی دانشوروں اور ادیبوں کی جانب سے اس مذہب عدم برداشت کے خلاف احتجاجاً سرکاری اعزازات لوٹانے کی مہم بھی چل رہی ہے۔ شیوسینا کی ان کارروائیوں سے ہندوستان بدنام ہورہاہےاور ہندوستان کی اپنی تہذیب خطرے میں پڑ گئی ہے۔

شیو سینا کا تاریخی پس منظر کچھ یوں ہے کہ اس کی بنیاد بال ٹھاکرے نامی ایک کارٹونسٹ نے رکھی۔ اس نے لسانی اور مذہبی بنیاد پرایسے ہندو نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کیا جو بے روزگار تھے اور 1966 میں شیوسینا قائم کی جسے مراٹھی ہندو راجہ شیوا جی کے نام سے منسوب کیا گیا۔ شیواجی کو بعض مورخ مغل بادشاہوں کے خلاف جدوجہد کے علم بردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ بال ٹھاکرے کے مطابق یہ تنظیم صرف مراٹھی ہندو نوجوانوں کو حقوق دلانے کے لیے قائم کی گئی یہی وجہ تھی کہ غیر مراٹھیوں کے خلاف اس تحریک نے کئی دفعہ تشدد کا رنگ اختیار کیا۔ شیوسینا میں بال ٹھاکرے کے علاوہ کوئی دوسرا رہنما نہیں تھا اور نہ ہی کبھی کسی نے جماعت کے اندر انتخاب کرانے کی بات کی کیونکہ اگر کبھی کسی نے ایسی بات کی بھی تواسے تنظیم سے نکال دیا گیا۔ شیو سینا کے مطابق ہندوستان کی تہذیب ہندو ہے اور ہندوستان میں رہنے والے ہر شخص کو اسے ماننا پڑے گا۔ 1992 میں جب تاریخی بابری مسجد کو انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے منہدم کیا گیا تو بال ٹھاکرے نے کہا کہ یہ عظیم کام شیو سینکوں نے انجام دیا جس پر مجھے فخر ہے وہ کئی دفعہ ہٹلر کو اپنا سیاسی پیشوا تسلیم کرچکا ہے۔

جیسے ہی نریندر مودی نے حلف اٹھایا فرقہ پرستی کی بنیادوں پر قائم ان تنظیموں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا جن میں میں سب سے آگے شیوسینا ہے جسے مودی سرکار کی پشت پناہی حاصل ہے۔ بعض مقامات پر خنزیر مار کر مسجدوں میں پھینکنےکے علاوہ شیو سینا کے جنونیوں نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے گائے کے تقدس کو استعمال کیا ہے۔ ہندوستان میں ایک زمانے سے لوگ گائے کا گوشت استعمال کرتے آئے ہیں اور صرف مسلمان ہی نہیں ہندوستان میں بسنے والے دیگر مذاہب کے پیروکار بھی گائے کا گوشت استعمال کرتے ہیں مگر گائے کے گوشت پر زیادہ تر فسادات مسلمانوں کے خلاف ہوئے ہیں۔ یہ تو وہ بات ہوگئی کہ ” ہے ٹھاکر جی کا عجب فلسفہ جو سب کھائیں تو حلال ہے مسلمان کھائے تو حرام ہے۔” یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ شیوسینا نہ تو پورے ہندوستان اورنہ ہی تمام ہندووں کی نمائندہ تنظیم ہے۔ بہت سے ہندووں نے بھی شیو سینا کی ان سرگرمیوں کو کھلم کھلا تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ہندوستانی دانشوروں اور ادیبوں کی جانب سے اس مذہب عدم برداشت کے خلاف احتجاجاً سرکاری اعزازات لوٹانے کی مہم بھی چل رہی ہے۔ شیوسینا کی ان کارروائیوں سے ہندوستان بدنام ہورہاہےاور ہندوستان کی اپنی تہذیب خطرے میں پڑ گئی ہے۔
شیوسینا کی سرگرمیاں گو ابھی صرف غیرہندو بھارتیوں کے خلاف ہیں مگر بہت جلد ان کا دائرہ کار ہندوستان میں بسنے والے تمام افراد تک پھیل سکتا ہے۔ شیوسینا کی یہ سرگرمیاں مذہب کے ذریعے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی ایک کوشش ہیں۔

میں نے گائے کے گوشت کھانے یا گائے ذبح کرنے کے مسئلے پر بھارت میں تشدد کے واقعات جب پڑھے تو ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا کہ اگر اسی طرح بھارت میں تشدد جاری رہا تو عین ممکن ہے لوگ خوف سے گائے ذبح کرنا ہی چھوڑ دیں اگر ایسا ہوا تو پھر بھارتی گائیں کہاں جائیں گی؟ جب اس غرض سے انٹرنیٹ پر اپنے سوال کو ڈھونڈا تو جواب میں کئی حیران کن چیزیں سامنے آئیں اور ذہن میں کئی سوالات مزید پیدا ہوئے کہ کیا واقعی یہ جنونی شیوسینا کے پیروکار گائے کو مقدس جانور مان کر تشدد کو فروغ دے رہے ہیں یا اس کے پیچھے کچھ اور سیاسی یا تجارتی مقاصد ہیں۔ اب ذرا دیکھیں کہ بھارت میں اگر یہ مطالبہ شیوسینا کی طرف سے آرہا ہے کہ گائے ذبح کرنے پر سرکاری طور پر پابندی لگائی جائے اور اس کے گوشت کے فروخت پر تو غیر اعلانیہ پابندی ہے ہی لیکن افسوس یہ کہ اس پابندی کا شکار زیادہ ترمسلمان ہی ہیں باقی خود ہندوؤں کو گائے کا گوشت برآمد کرنے کی کھلی اجازت ہے۔ بھارت میں6 بڑی کمپنیاں ہیں جو گائے کا گوشت فراہم کرتی ہیں جن میں سے 4 ہندوؤں کی ملکیت ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان ہندوؤں نے گوشت فراہم کرنے کے لیے اپنی کمپنی کا نام مسلمانوں جیسا رکھا ہے ۔ آخر انہیں ایسا کیوں کرنا پڑا جبکہ ہندو تو گائے کو مقدس خیال کرتے ہیں؟ ان اداروں کی تفصیل درج ذیل ہے:
الکبیر ایکسپورٹ پرائیویٹ لمیٹڈ ، مالکان کا نام ہے مسٹر شتیش اور مسٹر آتل سبھروال ، ایڈریس ہے جولی میکر چیمبر ممبئی 40021
عربین ایکسپورٹ پرائیویٹ لمیٹڈ ، مالک کا نام ہے مسٹر سنیل کپور ، ایڈریس ہے رشین مینشن اورسیز ممبئی 400001
ایم.کے. آر .فروزن فوڈ ایکسپورٹ پرائیویٹ لمیٹڈ ، مالک کا نام ہے مسٹر مدن ابووٹ ، ایڈریس ہے ایم جی روڈ جن پتھ نیو دہلی 110001
پی .ایم .ایل انڈسٹری پرائیویٹ لمیٹڈ، مالک کا نام مسٹر اے ایس بندرا، ایڈریس ہے ایس سی او62۔63 سیکٹر 34۔اے چندریگڑ160022

اب جناب کوئی پوچھے شیوسینا سے کہ کیا تم میں سے کسی نے ان کمپنیوں کے مالکان کے منہ پر کالک ملی ان کے اوپر سیاہی پھینکی یا ان کو مارا پیٹا اگر نہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ شیوسینا کی سرگرمیاں گو ابھی صرف غیرہندو بھارتیوں کے خلاف ہیں مگر بہت جلد ان کا دائرہ کار ہندوستان میں بسنے والے تمام افراد تک پھیل سکتا ہے۔ شیوسینا کی یہ سرگرمیاں مذہب کے ذریعے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی ایک کوشش ہیں۔ یہاں غورطلب امر یہ ہے کہ اس پر مودی سرکار کیوں چپ سادھے ہوئے تماشہ دیکھ رہی ہے؟ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی شیوسینا اور انتہا پسند ہندو ووٹ بنک کھونے سے ڈرتی ہے؟ ہندوستان میں اتنی شدت سے عدم برداشت کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اگر بھارتی حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو بھارت کو بھی پاکستان ہی کی طرح مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالمی سطح پر ہندوستان کو بدنامی اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہتر یہ ہے کہ ایسی تنظیموں کی پشت پناہی کرنے کی بجائے اس کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے اور تمام مذاہب کو ماننے والوں کو آزادی کے ساتھ رہنے دیا جائے۔ کسی کے منہ پر کالک ملنا، پاکستانی کھلاڑیوں، فنکاروں اور ادیبوں کے خلاف مظاہرے کرنا، نامور ہستیوں کو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنانا خود بھارت کے منہ پر کالک ملنے کے مترادف ہے ۔ ہمارے ملک میں بھی بہت سے ہندوستانی اداکار ، شعراء ، تاجر اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے بھارتی آتے ہیں لیکن ہمارے عوام کبھی ان سے اس قدرنفرت کا اظہار نہیں کرتے بلکہ ان کی مہمان نوازی کرتے ہیں ہندوستان کو بھی اپنی سابقہ روایات کو سامنے رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان اور اپنے ملک کے عوام کے درمیان امن، رواداری اور برداشت کو فروغ دینا چاہیئے۔

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: