Laaltain

بھولا گُجر شہید

8 اپریل، 2017
میرا نام ملک شوکت علی رحمانی ہے اور صحافت میرا مشغلہ ہے، پیشہ نہیں۔ میری تعلیم ایف۔اے ہے جو میں نے اپنے آبائی شہر ننکانہ صاحب کے بابا گُرو نانک ڈگری کالج سے حاصل کی۔ اللہ کے فضل سے فیصل آباد میں اپنا بیوپار چل نکلا ہے لہٰذا صحافت سے کمائی کا کبھی ارادہ نہیں کیا۔ اس لئے کسی کو راضی کرنے یا ناراض کر بیٹھنے کے خیال سے آزاد ہو کر لکھتا ہوں البتہ زیرِ نظر تحریر مجھے الحاج چودھری ظہور حسین گجر صاحب کے حکم پر لکھنی پڑ رہی ہے جو کہ اُن کے خیال میں میرا اخلاقی فریضہ ہے۔ اخلاقی فریضہ صرف بھولے گُجر سے ہمسائیگی کا حق نہیں بلکہ چودھری ظہور حسین گجر صاحب کی اُن مہربانیوں کا شکریہ ادا کرنا بھی ہے جن کی بدولت میرے دادا منا کمہار سے ملک منظور حسین رحمانی بنے- خیر وہ تو لمبی کہانی ہے، آمدم بر سرِ مطلب- بھولے گجر کی شہادت کے بعد کچھ دن تک الحاج صاحب مسلسل اصرار کرتے تھے کہ اُس کے بارے میں کچھ لکھوں، آخر ہمارے محلے کا سپوت ہے، مجھے ضرور کچھ نہ کچھ لکھنا چاہیئے اُس کی زندگی اور موت کے بارے میں؛ وہ موت جسے سرکاری طور پر شہادت کا رُتبہ ملا ہے۔

 

یہ فیصل آباد مزدوروں کا شہر ہے، دہقانوں کا ضلع ہے۔ سو یہاں ہر دور میں ارباب ِ تخت و تاج نے قانون کی گرفت مضبوط رکھنے کی کوشش کی ہے تاکہ صرف امن و مان ہی قائم نہ ہو بلکہ صنعت کار اور سیاستدان طبقے کے جملہ مفادات بھی محفوظ رہیں۔ مجھے پنجابی ذہن کے ارتقاء اور تاریخ میں وقت ضائع کیے بغیر یہ بات اپنے پڑھے لکھے قاری پر چھوڑ دینی چاہیئے کہ فیصل آباد میں قانون کی گرفت کا دوسرا مطلب “پولیس گردی” کس طرح پڑ گیا۔ میرا عزیز بھولا گجر اسی ماحول کی پیداوار ایک پولیس انسپکٹر تھا۔ بھولے کا اصل نام عدنان گجر تھا اور وہ چودھری ظہور حسین کی دوسری اولاد تھا۔ چودھری صاحب کی فیصل آباد میں لکڑی کی آڑھت تھی (جس پہ اُنہوں نے میرے دادا کو منشی مقرر کیا تھا) اور کم عمری میں ہی کافی با حیثیت آدمی بن گئے تھے۔ اُن کی پہلی شادی تو اپنے خاندان میں ہی ہوئی لیکن اولاد نہ تھی۔ دوسری شادی ایک رانا خاندان میں کی جو کہ کاروباری اور سیاسی، دونوں حوالوں سے بہت با اثر خاندان تھا۔ اس شادی سے ان کے دو بچے ہوئے، ایک بیٹی (فرحانہ) اور ایک بیٹا (عدنان) جو کہ بیٹی سے دو سال چھوٹا تھا۔ چودھری صاحب نے تابہ مقدور ان بچوں کو بہترین تعلیم دی۔ فرحانہ تو ایم۔اے تک پڑھی اور پنجاب یونیورسٹی تک پہنچی لیکن عدنان کو شروع ہی سے کھیلوں میں دلچسپی تھی، اپنے سن سے بڑے قد کاٹھ کا لڑکا اور ہاکی کا بڑا دھانسُو کھلاڑی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انٹرنس کے بعد اگے نہ پڑھ سکا۔ انہی دنوں چودھری صاحب کے سُسر کے بھائی رانا حامد علی ایم پی اے منتخب ہو گئے اور پھر صوبائی وزارتِ داخلہ کا قلمدان بھی مل گیا تو عدنان کی، جو اب بھولا کے عُرفی نام سے جانا جاتا تھا، نوکری کا مسئلہ بھی خوش اسلوبی سے حل ہو گیا۔ قد کاٹھ کا اپنی عمر کے لڑکوں سے کافی نکلتا ہوا تو تھا ہی، ایف اے کی تعلیم بھی تھی، پولیس میں اے ایس آئی بھرتی کروا دیا گیا۔ فرحانہ نے گریجوایشن کے بعد ایم۔اے فلسفہ کی ڈگری لی تو اس وقت تک بھولا گجر محکمہ پولیس میں ایک باجبروت، نڈر اور سخت کوش “چھوٹے تھانیدار” کے طور پہ نام کما چکا تھا۔ بھولا جس چوکی کا انچارج ہوتا، وہاں چھوٹے موٹے جرائم پیشہ افراد کی تو شامت رہتی ہی تھی، شرفاء بھی شام ڈھلنے کے بعد ناکے پر سے گزرتے ہوئے گھبراتے تھے۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ بھولا بلا کا بددماغ ہی نہیں، بدزبان اور ہتھ چھٹ تھانیدار بھی تھا (پھر وزیرِ داخلہ کا قریبی عزیز ہو تو کیا ہی کہنے)۔ اپنے طبیہ کالج کے پرانے اُستاد اور شاعر، ڈاکٹر محبوب مسیح کی مثال تمام اہلِ محلہ کو یاد تھی۔

 

ایک ناکے پہ ڈاکٹر صاحب کی موٹر سائیکل روکتے ہی بھولے نے اپنے اہلِ محکمہ کے روائتی انداز میں موٹر سائیکل کی چابی اُچک لی تو عمر رسیدہ ہومیو فزیشن کو بہت بُرا لگا کہ اُن کی بیٹی بھی اُن کے ہمراہ تھی۔ انہوں نے بھولے کو ڈانٹنے کے انداز میں کہہ دیا “نوجوان، اگر میرے سفید بالوں کا حیا نہیں کرنا تو اپنے نام نہاد قانون کا خیال ہی رکھ لو ! یہ جو حرکت تُم نے کی ہے، یہ بھی تو ٹریس پاسنگ کے زمرے میں آسکتی ہے!!” پولیس والوں کو قانون بتانا اور وہ ٹارٹ جیسا قانون جو کہ مہذب ملکوں کے چونچلوں کا محافظ ہے، ایک صریح غلطی تھی جو ڈاکٹر صاحب نے کر دی تھی۔ بھولے نے ڈاکٹر صاحب کو گریبان سے پکڑ کر موٹر سائیکل سے اُتارا، ایک گھونسا اور دھکا ملا جُلا ڈاکٹر صاحب کے رسید کیا اور انہیں چلتا کیا۔ موٹر سائیکل، جس کے کاغذات اس وقت ڈاکٹر موصوف کے پاس نہ تھے، لاوارث پراپرٹی کی دفعہ کے تحت تھانے میں جمع کروا دی۔ ڈاکٹر صاحب اس کے والد کے پاس پہنچے، سفارش کیلئے، تو چودھری صاحب نے ہامی بھر لی لیکن بھولے نے ان کی ایک نہ مانی۔ ڈاکٹر صاحب نے تھانے سے موٹر سائیکل واپس لینے کیلئے محرر کو رشوت کی رقم ادا کی (جو کہ محرر نے قسم کھا کے کہی تھی کہ ایس پی صاحب کے ریڈر کو جمع کروانی تھی، خود اس پہ اس کا ایک روپیہ بھی حرام تھا) اور اپنی موٹر سائیکل گھسیٹ کے تھانے سے نکل رہے تھے تو میں نے خود انکی آنکھوں میں آنسو دیکھے- میں اُن کے ساتھ تھا۔ بھولا اس وقت اپنی غیر قانونی (مدت پہلے ڈکیتوں سے چھینی گئی) ہنڈا ایک سو پچیس موٹر سائیکل پر سوار تھانے میں جا رہا تھا اور ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر فاتحانہ انداز میں مسکرا دیا۔ یہ معمول کا ایک واقعہ تھا جو ایک ڈاکٹر محبوب مسیح کے ساتھ ہی کیا، فیصل آباد میں سیکڑوں لوگوں کے ساتھ، روز ہوا کرتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب حساس طبیعت کے آدمی تھے، ادیب شاعر قسم کے، اُنہوں نے محتسب، ڈی پی او، آئی جی اور وزیرِ اعلیٰ کے شکایات سیل میں بھولے کی بدتمیزی کے خلاف درخواستیں دیں لیکن ایک سال گزر گیا، کوئی نتیجہ نہ نکلا، سوائے اس کے، کہ ڈاکٹر صاحب بھولے کی ‘نظرِ کرم’ کا مستقل مرکز بن گئے۔ ایس پی صاحب کا تو ایک ہی جواب ڈاکٹر صاحب کیلئے کافی تھا : “سر اگر فقط بدتمیزی کے الزام پہ میں تھانے دار معطل کرنا شروع کردوں تو میرا سارا محکمہ گھر بیٹھا ہو گا، آپ صبروتحمل سے کام لیں، خداوند اجر دے گا”۔ اس کے بعد دو دفعہ ڈاکٹر صاحب کا لڑکا غیر قانونی شراب فروخت کرنے کے ‘صلے’ میں حوالات کی ہوا کھا آیا اور ایک بار مکان پر ریڈ میں اُن کی بیٹی بھی بھولے سے جی بھر کے گالیاں کھا چکی تو ڈاکٹر صاحب اپنے چک جھمرے والے آبائی گھر منتقل ہو گئے۔ ایک عیسائی کے گھر پر ریڈ کا آسان ترین بہانہ ‘شراب’ ہے اور یہ رمز سب تھانیدار جانتے ہیں۔تاہم اس کے بعد بھولے کو کسی ایسے معمولی معاملے میں وقت ضائع کرکے اہلِ محلہ پر دھاک بٹھانے کی ضرورت نہ پڑی۔

 

میرا اور اُس کا بچپن کا دوست رانا چاند اسلحے اور منشیات کا معمولی سا اسمگلر تھا اور اب دو ایک اقدامِ قتل کی وارداتوں میں اشتہاری ہو کر نسبتاً بڑے نام والا مجرم بن گیا ہوا تھا۔ رانا چاند مجھ پہ بہت بھروسہ کرتا تھا لیکن میں نے کئی دفعہ اُسے سمجھایا کہ بھولے پر بہت ذیادہ بھروسہ نہ کرے مگر اُس کو مان تھا کہ وہ بھولے کا دوست ہی نہیں اُس کے ننہالیوں کا دور کا رشتے دار بھی تھا۔

 

میں اُس شام بھولے کی بیٹھک پہ رانا چاند سے مختصر سی ملاقات کے بعد تراویح کی نماز پڑھنے کے لئے آ گیا کہ پہلا روزہ تھا اور اسکی تراویح نماز تو پڑھنی چاہیئے تھی ناں۔ دوسرے چاند اور بھولے نے میخواری کی محفل جما لی تھی اور مجھے یہ عادت کم از کم ماہِ صیام کے دورانیئے کی حد تک نہ تھی، سو میں نے اُن سے اجازت لی اور مسجد کی طرف نکل آیا۔ میں تراویح کی نماز ادا کر کے گھر پہنچا تو گلی میں پولیس کی گاڑیوں کی قطاریں، عوام کا ہجوم اور شوروغوغا کا عالم دیکھ کے میں نے راہگیروں سے پوچھا کہ بھائی خیر تو ہے؟ پتہ چلا کہ گلی میں فائرنگ ہوئی ہے۔ پھر پتہ چلا کہ بھولے گجر نے رانا چاند کو قتل کردیا ہے۔ میرے اندر کے صحافی نے کروٹ لی اور میں بھی پولیس کے ناکوں پہ بحث کرتا، منت گزارش کرتا جائے وقوعہ پر پہنچا- میں نے دانستہ صحافی والا کارڈ استعمال نہ کیا۔ پتہ چلا کہ گلی میں کسی بات پہ تکرار اور جھگڑا ہوا تھا۔ بیٹھک میں بھولے کے چند دوست سادہ کپڑوں میں ملبوس بھی بیٹھے تھے جن سے میرا تعارف نہیں کروایا گیا تھا، اب پتہ چلا کہ اُن میں ایک صاحب اُس کے آئی ایس ایچ او بھی تھے۔ دو چار دن عجیب اُدھیڑ بُن میں گزرے، میں بھی منظرِ عام سے ہٹ سا گیا۔ مجھے اس دوران بھولے نے کسی انجان فون نمبر سے فون کر کے کہا کہ میں اس معاملے میں مکمل بے خبری کا اظہار کروں۔ رانا چاند کے اقارب میں سے کسی نے مجھ سے رابطہ نہ کیا کہ کسی کو میرے جائے وقوعہ پر جانے کا پتہ بھی نہ تھا۔ میرے خاموش رہنے کی وجہ فقط تفتیش میں شامل ہونے کا خوف تھا نہ کہ بھولے سے کسی طرح کی ہمدردی۔صوبائی وزیرِ داخلہ رانا حامد علی خاں نے معاملے کا “نوٹس لیا” تو اخباروں اور مقامی ٹیلی ویژن پہ خبر جاری ہوئی کہ : “خطرناک اشتہاری رانا چاند مقابلے میں مارا گیا”۔ تفصیلات کے مطابق خطرناک مجرم نے سادہ کپڑوں میں ملبوس ڈیوٹی پر مامور اہل کاروں کو گلی میں دیکھتے ہی فائرنگ شروع کی اور جوابی فائرنگ میں مارا گیا وغیرہ۔ دراصل بھولے نے پولیس کو رانا چاند کی یہاں موجودگی کا پہلے بتا رکھا تھا اور وہ چاند کو کسی پولیس مقابلے کے بغیر پکڑوانا چاہتا تھا لیکن پولیس کی گاڑی کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی چاند کو بھی اطلاع مل گئی تھی۔ وہ فون کال سُننے کے بہانے اُٹھ کے گلی میں آیا تو بھولے سے یہ غلطی ہوئی کہ وہ بھی اُٹھ کر باہر نکل آیا جس سے چاند کے شک کو تقویت ملی۔ یہاں دونوں کی تکرار نے گالم گلوچ کا رُوپ دھارا تو تھانے دار صاحب باہر نکل آئے، چاند نے طیش میں آکر تھانے دار پر پستول تان لیا لیکن بھولے نے اسے پستول لوڈ کرنے کی مہلت نہ دی۔

 

بھولا نہ صرف ہفتے بھر میں ملازمت پر بحال ہو گیا بلکہ اگلی “گیلنٹری پروموشن” میں بھولا سب انسپکٹر بن گیا۔ پولیس کے افسران اور تھانے داروں کے درمیان ایک دوسرے سے عدم وفاداری کا عفریت اتنا خوفناک ہے کہ اس کے خوف سے، وہ ایک دوسرے کے جرائم پر پردہ ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اسی باریک ڈور سے پولیس کا مضبوط نطام بندھا ہے۔

 

کچھ عرصے بعد بھولا جب ہمارے تھانے کا آئی ایس ایچ او بنا تو لا محالہ طور پر علاقے میں چھوٹے جرائم کی شرح بھی بہت کم ہو گئی اور بڑے جرائم جو ہوئے وہ اسی لئے قابلِ ذکر ہیں کہ وہ پولیس کی نظر میں جرائم نہیں تھے اور ان میں بھولے کا کردار بھی پہلے سے ذیادہ ‘آب و تاب’ سے نمایاں ہے۔ میرے وطن پنجاب کی پولیس میں اگر کوئی تھانے دار اس امر کا دعویٰ کرے کہ وہ رشوت نہیں لیتا تو اُس کی صداقت یا ذہنی توازن، دونوں میں سے ایک یقینی طور پر مشکوک ہے لیکن اس حوالے سے بھولے کی ایک عادت اُس کو انسانوں کی اس پولیس میں فرشتہ بنا دیتی ہے کہ وہ ‘کرپشن کی اخلاقیات’ کا قائل تھا۔ جہاں صوبے بھر میں تھانے داروں کی عادت ہے کہ مقدمات میں دونوں پارٹیوں، یا فریقین سے رشوت لے کر بالآخر تفتیش کا اختتام “میرٹ” پر کرتے ہیں، وہاں بھولا ایسا نہیں کرتا تھا۔ بھولے نے جس کسی سے رشوت کی مد میں ایک وقت کا کھانا بھی کھایا، اُس کے ایک ایک لقمے سے وفادار رہا۔ یہی وجہ ہے کہ بھولے نے جب بھی رشوت لی، سوچ سمجھ کر لی اور بڑا ہی ہاتھ مارا۔

 

بھولا اگرچہ خود بلا کا میخوار تھا لیکن شراب نوشی کے الزام میں پکڑے جانے والوں کو چوراہے پہ لٹا کے ان کی چھترول کرتا تھا، اگرچہ اُس کی اپنی کمر سے ہمیشہ بغیر لائسنس کا پیٹرو بریٹا پستول لٹکا رہتا تھا لیکن اپنے تھانے کی حدود میں نا جائز اسلحے کی مخبری پر تلاشی کی آخری حدوں تک چلا جاتا تھا جس کی مثال مَیں آگے چل کر بیان کروں گا۔ اگرچہ بھولا خود سیکیورٹی چیکنگ کے نام پر مقامی ہاسٹلوں پہ جب ریڈ کرتا تھا تو رات گئے اور نصف شب تک طالب علموں کو گلی میں صف بستہ کھڑا کئے رکھتا اور ذرا ذرا سی لغزشوں پہ تھپڑوں سے اُن کی یادگار تواضع کرتا لیکن اگر اسی تھانے کی حدود میں کسی پرائیویٹ یا سرکاری ٹیچر کے خلاف طالب علم کو تھپڑ مارنے کی شکائیت موصول ہوتی تو وہ جس ‘اہتمام’ سے اسے گرفتار کرکے تھانے تک لاتا، وہ ٹیچر دوبارہ کسی بچے پہ ہاتھ اُٹھانا تو درکنار، دوبارہ اپنے طلباء سے آنکھ ملا کر بات کرنے کے قابل نہ رہتا۔

 

شام کے وقت علاقے میں کرفیو کا سماں رہنے لگا۔ ہمارے محلے کے دوچوراہوں کے تھڑوں پر سرِ شام جمنے والی نوعمر طلباء کی بیٹھک بھی سیکیورٹی کے نام پر حکماً برخاست کردی گئی اور رات گئے تک چہل قدمی کے سارے شوقین ‘آوارہ گردی’ کی دفعہ میں ایک ایک بار حوالات میں رات گزارنے کے بعد خانہ نشیں ہوگئے۔ الغرض بھولے کے ہوتے ہوئےپولیس کے افسرانِ بالا کو اس امر کا اطمینان تھا کہ خوف کا عنصر، جو قانون نافذ کرنے کے لئے بہت ضروری ہے، اُن کے ہاتھ میں تھا۔ بھولے کو افسروں کی اس خوشنودی کے عوض عوام کی نفرت کا نشانہ ہونے کی چنداں پروا نہ تھی کہ یہ کامیابی کی قیمت ہے جو ہر تھانے دار کو ادا کرنی پڑتی ہے۔

 

جن دو واقعات کا ذکر میں کررہا تھا ان میں پہلے واقعے کا تو میں بڑی حد تک عینی شاہد ہوں (اور کسی حد تک دوسرے کا بھی)۔ بگا وٹُو تاندلیانوالہ کا ایک نامی گرامی ڈکیت تھا جس نے تھانہ باہلک کے عین سامنے ضلعے کے نامی گرامی انکاؤنٹر اسپیشلسٹ تھانیدار رانا اظہارالحق کی کھوپڑی میں گولی اُتاری تھی، اور چند روز بعد ایلیٹ کے کمانڈوز کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔ ایلیٹ کے جوانوں نے مقابلے کے دوران اس کی کھوپڑی کو بڑی مہارت سے نشانے پر رکھا، ایک ہی گولی سے اس کا کام تمام ہو گیا اور قانون کی بالادستی کی ایک با رعب مثال قائم ہو گئی۔ یہ رُعب بگے وٹُو کے پسماندگان پر بھی لامحالہ طور پر طاری ہوا، اُس کی بیوہ اپنے کم سن بیٹے کو لے کر فیصل آباد شہر آکررہنے لگی جہاں اسے اسکول داخل کروا کر تعلیم کے زیور سے آراستہ کروانے لگی تاکہ کم سن خالد اپنے باپ کی بدنامی کے اثرات سے دور ہو کر معاشرے کا ایک شریف فرد بنے۔ میری والدہ اکثر اس کی مالی امداد کیا کرتی تھیں جس وجہ سے وہ اکثر ہمارے گھر آئی رہتی تھی۔ اس کے سلائی کڑھائی کے کام کا یہاں چرچا تھا۔ خالد دسویں جماعت کا طالب علم تھا اور مسلم ہائی اسکول میں پڑھتا تھا۔ بہت شرمیلا اور ڈرپوک لڑکا تھا – اب اس کے برعکس ہے۔ یہ تبدیلی خالد میں اس طرح آئی کہ ایک دفعہ بھولے گجر کو “مخبری” ہوئی کہ “بدنام اشتہاری بگے وٹُو کا بیٹا خالد عُرف خالدی وٹو مجرمانہ قماش کا نوجوان ہے اور اس کے پاس غیر قانونی ٹی ٹی پسٹل ہمراہ دیگر خنجر وغیرہ کے موجود ہے” مخبری کے درست اور سنجیدہ ہونے کے لئے بگے وٹُو کے نام کا عنوان ہی کافی تھا۔ فرض شناس بھولے نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اسی رات خالد کے گھر پر ‘ریڈ’ کردیا۔ سپاہیوں نے اینٹی ٹیررسٹ ٹریننگ کے پیشہ ورانہ اصولوں کے مطابق دروازے کے بجائے ذیلی راستوں اور دیواروں سے ‘انٹری’ کی اور آن کی آن میں “مشکوک افراد” پر قابو پا لیا۔ ان “مشکوک افراد” میں بگے کی بیوہ، خالد اور خالد کی شادی شدہ بہن جو کہ اُمید سے تھی اور آج ماں سے ملنے فیصل آباد آئی تھی۔ انہیں جب دبوچ کر پولیس کی گاڑی میں ڈالا گیا تو میں اُس وقت وہاں پہنچ چکا تھا کہ میرا گھر وہاں سے چند گز کے فاصلے پر بھی تو نہ ہوگا۔

 

“پستول تو تیرے بھائی کی — سے نکلا یا تیرے اس گیابھ سے، نکال کے ہی دکھاؤں گا!!”

 

خالد کی بہن نے پولیس کی گاڑی میں دھکیلے جاتے ہوئے بھولے سے چلا کر کچھ کہا تھا جس کا جواب بھولے نے اُس کی قمیص اُٹھاتے ہوئے دیا۔ لڑکی کے چلانے میں صرف گالی ہی سمجھ میں آسکی۔ وہ بھولے اور دیگر پولیس والوں کی ماں بہن کے حق میں جو قصیدے پڑھ رہی تھی، وہ پنجابی گالیوں کا “ادبِ معلیٰ” تھے اور وہ اس میں حق بجانب بھی تو تھی۔ خالد کی ماں اور بہن تو ایک رات ہی حوالات میں گزار کے واپس آگئیں البتہ خالد نے حوالات سے جیل تک کا سفر مکمل کیا۔ خالد جیسے “مجرم ذادے” لیکن لاوارث لڑکے سے پستول برآمد کروانا کون سا مشکل کام تھا کہ بہت وقت لیتا۔ گھر سے پستول برآمد نہ بھی ہوا تو کیا فکر، تھانے داروں کے پاس ہمہ وقت کچھ بے لائسنس اسلحہ ایسے وقت پر اپنی تھانے داری کی عزت رکھنے کیلئے رکھا ہوتا ہے۔ روزنامہ “امن و انصاف” کے ایڈیٹر نے ایک دفعہ خالد کی ماں اور بہن سے چادر اور چاردیواری کے تقدس کی پامالی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کا انٹرویو شائع کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ چند روز بعد ایڈیٹر صاحب نے مجھے فون کیا اور صحافتی زبان کے رمز و کنایہ میں بھولے کیلئے پیغام دیا کہ اگر وہ ایڈیٹر صاحب کی مُٹھی گرم کردے تو یہ خبر لاہور سے چھپنے سے روکی جا سکتی ہے۔ میں نے یہ دلالی کرنے سے معذرت کرلی لیکن کچھ دنوں بعد خود بھولے کی زبان سے یہ سُنا کہ ایڈیٹر موصوف سے “بات چیت” ہو گئی تھی۔ ہم دونوں کی دوستی میں جو دراڑ رانا چاند کے قتل کے بعد پڑی تھی وہ اب خلیج بن گئی۔ میں نے فرحانہ کیلئے اپنے دل میں موجود عزت و احترام اور پسندیدگی کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے فقط بھولے سے ہی دوستی ختم کی، چودھری صاحب اور چودھرانی چچی سے نیازمندی کا تعلق قائم رہا۔ بھولے کی منگنی کی تقریب میں بھی میں اماں جان کے ہمراہ بصد اہتمام گیا۔

 

فرحانہ بلاشبہ ایک مثالی کردار کی لڑکی تھی؛ دلیر اور اعلیٰ ظرف ہی نہیں، تعلیم میں بھی بہت قابل تھی لیکن ایم فِل کے دوران ہی یونیورسٹی سے نکال لی گئی (یا نکال دی گئی )۔ پنجاب یونیورسٹی میں “یومِ حیاء” کے موقعے پر ایک مذہبی تنظیم کے ناظم صاحب نےجو خود بھی طالبِ علم تھے، فرحانہ کو ایک ہم جماعت لڑکے کے ساتھ دیکھ کر اُسے کچھ سخت الفاظ کہہ دیئے جس میں اس پر بے حیائی اور فحاشی کے الزام تھے، فرحانہ نے بگولے کی طرح بھڑک کر ناظم صاحب کے گریبان کو جالیا اور یکے بعد دیگرے دو تین تھپڑ بھی جڑ دیئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فرحانہ کو ڈیپارٹمنٹ انتظامیہ کے “مشورے” پر والدین نے یونیورسٹی سے نکال کر گھر بٹھا لیا۔ چودھری صاحب کو جب پتہ چلا کہ بیٹی کو عورتوں کے حقوق والی کسی این جی او نے ‘بگاڑا’ تھا، توبیٹی کو باغی قرار دے کر اُس کے گھر سے نکلنے پر بھی پابندی لگا دی۔ بھولا اس واقعے پر بڑا آگ بگولا ہوا کہ بہن نے ناک کٹوا دی برادری میں لیکن سوائے اس کے، کہ اُس سے بول چال کم کردی، بہن سے کچھ نہ کہا۔ پہلے ہم دونوں فرحانہ کو ‘آپی’ کہہ کر پکارتے تھے، اب بھولا اسے اُس کے عرفی نام سے، “فَری” کہہ کر پکارنے لگا کہ اس کے خیال میں اب فرحانہ اُس محترم لقب کے قابل نہ تھی۔ کافی عرصے بعد جب پابندیاں نرم ہوئیں تو فرحانہ کو گھر کے ساتھ ہی ایک خالی مکان میں اپنا ایک بیوٹی پارلر کھولنے کی اجازت مل گئی۔ بیوٹی پارلر بنانے میں محلے کی لڑکیوں سے اس رابطے نہ صرف بحال ہوئے بلکہ اس کے باقی مشاغل بھی ازسرِ نَو زندہ ہو گئے کیونکہ اس کے بعد میں نے اُسے دو تین دفعہ “دی وومین فاؤنڈیشن” کے اجلاس میں دیکھا اور ایک رسالے میں اس کی تحریریں بھی پڑھیں۔ اس کے بعد اُس سے ایک دفعہ ہی مُلاقات ہوئی۔

 

ایک شام اُس کا ایس ایم ایس ملا؛ “شوکے! پارلر پہ آؤ، تُم سے کام ہے!” میں نے “آیا آپی جی” لکھ بھیجا اور تھوڑی دیر سے سہی لیکن پارلر پہ پہنچا تو وہ پارلر کے تالہ لگا کر جانے لگی تھی۔ میں نے بلوائے جانے کی وجہ پوچھی تو میرے ذمے دو کام لگائے، ایک تو یہ کہ پارلر پہ انگریزی اخبار لگوا دوں، دوسرا کیبل والے سے کنکشن لگانے کا کہوں۔ “جی بہتر آپی جی” میں نے نیازمندی سے کہا اور واپس آگیا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اس سے ڈرتا بھی تھا۔ فرحانہ گھر پہنچی تو بھولا ٹریک سوٹ پہنے ہاکی تھامے کسی میچ میں جانے کو تیار تھا۔ چودھرانی چچی نے بعد میں اماں کو بتایا تھا کہ اُس شام وہ بڑے خراب مُوڈ میں تھا۔

 

“فَری!”

 

بھولے نے سخت ناگواری سے اُسے مخاطب کیا۔

 

“ہاں کیا ہے؟”

 

فرحانہ بھی اب اُس سے پہلے سا لگاؤ نہیں رکھتی تھی۔

 

“یہ پارلر بند کردے!”

 

“کیا مطلب؟”

 

“بس کہہ دیا ناں، بند کرو یہ تماشہ!”

 

“بھولے تُو دُنیا جہان کیلئے تھانے دار ہوگا، لیکن مجھ سے بڑا کب ہو گیا کہ اس طرح حُکم چلا رہا ہے مجھ پہ؟؟؟”
فرحانہ کے جواب میں بھی سخت ناگواری اور غصہ بھر آیا۔

 

“فَری! جو باتیں مَیں باہر اور تھانے میں سُن کر آتا ہوں، وہ یہاں نہیں کہنا چاہتا! بس مجھے یہ پسند نہیں! بند کردے پارلر اپنا! بس!”

 

بھولے نے غُصے پر قابو پاتے ہوئے کہا تو ہاکی پر اس کی گرفت مضبوط ہو گئی۔

 

“بھولے اپنی گندی سوچ تھانے میں رکھ کے آیا کر! اور اپنی گندی زبان بھی! بڑی بہن ہُوں تیری! اور اگر میرے پارلر پر تُجھے یاردوستوں کے سامنے شرمندگی ہوتی ہے ناں! تو سُن لے! تیرے تھانیدار ہونے پہ بھی مجھے فخر نہیں ہے! جیسا تُو تھانے دار ہے، مَیں جانتی ہُوں!”

 

فرحانہ بھی زبان کی بڑی تیز اور دلائل کی اٹل تھی!

 

“زبان کھینچ لُوں گا تیری!! مَیں مرد ہوں، معاشرے میں ناک میری کٹتی ہے، تیری نہیں! تیرے پارلر کو لوگ ‘چکلا’ کہتے ہیں، ‘چکلا’! سمجھیں؟؟؟”

 

بھولے کی زبان سے قحبہ خانے جیسا غلیظ لفظ گھر کی چاردیواری میں سُن کر کسی کو بھی یقین نہ آیا- ماں تو گُنگ رہ گئی، فرحانہ چِلا اُٹھی۔

 

“بھولے! میرا پارلر ‘چکلا’ ہے؟؟ چکلا تو تیرا تھانہ ہے جہاں قانون رنڈی بن کر ناچتا ہے اور تُم کالی وردیوں والے دلال اُس کی قیمتیں وصول کرکے جیبیں بھرتے ہو! جو جتنی قیمت چُکائے، اُتنا لطف اُٹھا لے!!!”

 

فرحانہ کا یہ چلانا ایک چیخ سے بدل گیا کیونکہ “بکواس بند کر گشتیئے!!!” کے ایک فلک شگاف حُکم کے ساتھ بھولے نے جو فرحانہ کے سر میں ہاکی کی ایک ضرب لگائی تو پھر فرحانہ کی چیخ مکان کے باہر تک گونجی۔ وہ بے جان پُتلی کی طرح فرش پہ گری اور خون میں لت پت ہوگئی۔ بھولا ہاکی پھینک کر گلی میں نکل آیا۔ چودھرانی چچی کی آہ و زاری سُن کر کام والی ماسی دوڑی چلی آئی، اُس نے فوراً مجھے فون کیا۔ “شوکے! ذرا جلدی سے آ! فرحانہ کو۔۔۔” اور پھر وہ رو پڑی۔ میں بھاگم بھاگ گھر سے نکلا اور بھولے کی گلی میں پہنچا۔ بھولا وہاں نہیں تھا۔ گھر میں آیا تو فرحانہ کو خُون میں لت پت دیکھا۔ اپنی سی کوشش کی تو ریسکیو کی ایمبولینس کے آنے تک فرحانہ کے سر سے خون بہنا کم ہو گیا تھا البتہ ناک سے ایک سفید سیال مادہ رِس رہا تھا۔ ڈاکٹروں نے بعد میں بتایا کہ فرحانہ کی موت اُسی سیال کے ضائع ہو جانے سے ہوئی تھی۔

 

فرحانہ کا قتل- جو کہ جان بوجھ کر نہیں کیا گیا تھا- اگرچہ رانا چاند کے قتل سے برا سانحہ تھا لیکن یہ سانحہ بھی بھولے کی وردی نہ اُتروا سکا۔ تین ماہ کے اندر اندر بھولا دوبارہ ڈیوٹی پر تھا۔ فرحانہ کے قتل کا مقدمہ چودھری صاحب کی مدعیت میں درج ہوا تھا۔ بھولے نے اقبالِ جُرم میں کوئی دیر نہ لگائی لیکن عدالت کا فیصلہ ہونے سے قبل ورثاء کی طرف سے معافی ہو جانے پر بھولا نہ صرف قید سے رہا ہو گیا بلکہ ا س کی نوکری بھی بحال ہو گئی۔ اگرچہ کچھ لوگوں نے غیرت کے نام پر اس اقدام پہ بھولے کی تعریف بھی کی کہ فرحانہ تو پنجاب یونیورسٹی سے ہی ایک “بُری عورت” کا استناد لے کر آئی تھی لیکن بھولا ایک عرصے تک اس واقعے پر شدید نادم رہا۔ شراب نوشی ترک کردی اور صوم و صلوٰۃ کا پابند ہو گیا۔ اکثر بُرے کام چھوڑ دئیے لیکن تھانے آنے والوں کے ساتھ جو مُٹھی گرم والا سلسلہ تھا، وہ ختم کرنا اُس کے اختیار سے باہر تھا- اس ناسور کی جڑیں بھولے کی توبہ سے بھی گہری ہیں۔

 

جوں جوں بھولا اپنے احساسِ ندامت پہ قابو پاتا گیا، اُس کا دل مضبوط ہوتا چلا گیا اور ایک سال کے اندر اندر اس کے پہلو میں وہی سنگ و خشت کا دل تھا۔ پھر وہی معمولاتِ زندگی تھے لیکن ایک خاموش تبدیلی جو فرحانہ کے مرنے کے بعد گھر کی چاردیواری میں پل رہی تھی، وہ چودھرانی چچی کی حالت تھی۔ وہ بیٹی کی موت کے بعد بیٹھے کی کوٹھڑی کی متحمل نہ ہو سکتی تھیں اور اسی دیوانی مامتا سے لاچار ہو کر اُنہوں نے بھولے کو معافی دلوائی تھی لیکن ضمیر کی خلش اور فرحانہ کی جُدائی نے اُنہیں ایک سال کے اندر اندر ختم کردیا۔ ایک شام چودھرانی چچی نے نمازِ عشاء کے آخری سجدے میں سر رکھا تو کبھی نہ اُٹھایا۔ جتنی خاموشی سے فوت ہوئیں، اُتنی خاموشی سے دفن بھی ہوگئیں- میں اُن کی تدفین تک ساتھ رہا۔ بھولے کو چند روز زہد و ورع کا جو دورہ پڑا تو اس بار جلد ہی ٹھنڈا ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد بھولے کی دوبارہ منگنی ہوئی کیونکہ پہلی منگنی فرحانہ کی موت کے بعد ٹُوٹ گئی تھی۔ منگنی کے ایک ماہ بعد اُس کی شادی ہوئی تو مجھے تقریب میں جانا پڑا۔ میری بہن کو چودھری صاحب کے کہنے پر بھولے کی خالہ ذاد بہنوں کے ساتھ مل کر رسومات میں بہنوں کے فرائض ادا کرنے پڑے۔ فرحانہ کی کمی سب نے محسوس کی، حتیٰ کہ بھولا بھی رو دیا۔ شادی ہو چکی تو بھولے کی زندگی میں کافی حد تک خُوشی اور طمانیت شاملِ حال ہو گئی۔ دُلہن نے ایم ایس سی کررکھا تھا اور بہت حسیِن گُجر لڑکی تھی۔ اب بھولا ایک پختہ کار سب انسپکٹر تھا اور افسرانِ بالا کا منظورِ نظر بھی۔ رانا حامد علیخاں نے حکومت بدلتے ہی پارٹی بدل لی تھی اور اب وزارتِ قانون کے قلمدان کے ساتھ اسمبلی میں براجمان تھے لہٰذا بھولا بھی آئی ایس ایچ او کی ذمہ داریوں پر ہی رہا۔ نامی گرامی ڈکیت کاشی موچی کو جعلی مقابلے میں مارنے کیلئے آر پی او صاحب نے بھولے گجر کا انتخاب اس کی اسی پروفائل کو دیکھ کر کیا۔ بھولے نے بھی اس ذمہ داری کو خوب نبھایا۔ بھولے کا تھانے کی حدود پر حکمرانی کا انداز ویسا ہی رہا۔ اُس کے دفتر میں کسی بھی حیثیت کے سائل کو کُرسی نہیں پیش کی جاتی تھی تا آنکہ وہ سائل قانونی طور پر بھولے کا کچھ بگاڑنے کی پوزیشن میں ہو۔ پورے ضلعے سے اقبالِ جُرم نہ کرنے والے ڈھیِٹ سے ڈھیِٹ مجرم اُس کے پاس بھیجے جاتے جنہیں وہ کامی وڑائچ کے ڈیرے پر قائم “خصوصی سیل” میں لے جاتا اور ایک رات کے اندر اند سب کچھ اگلوا دیتا۔ اُسے صرف ایک دفعہ ناکامی ہوئی جب ایک نو عمر ملزم سے مطلوبہ مواد اگلوانے کی کوشش میں غیر مطلوبہ مواد اگلوا بیٹھا۔ اُس کے مُنہ اور پیشاب کے مقام نے اتنا خُون اُگلا کہ وہ ڈاکٹر کے آنے سے قبل ہی چل بسا۔ اب ایسا بھی نہیں کہ اس مُلک میں اندھیر نگری ہے اور کوئی پولیس والوں کو نہیں پوچھتا، سیکڑوں شکایات اور ہزاروں پیشیاں بھولے نے بھگتی ہوں گی لیکن کامیاب تھانیدار وہی ہے جو اس معاملے میں مضبوط اعصاب کا مالک ہو اور بھولے جیسے مضبوط اعصاب کے مالک تھانے داروں کو سزا دے کر پولیس افسران کبھی اپنے محکمے کو کمزور نہیں کر سکتے۔

 

اس صبح طالبان کے کسی ماسٹر مائنڈ دہشت گرد کو فیصل آباد جیل میں پھانسی ہوئی تھی اور ایک خفیہ وائرلیس سگنل کے ذریعے شہر بھر کی پولیس کو الرٹ کردیا گیا تھا۔ بھولا بھی اپنے ناکے پر موجود تھا اور ایک ایک مشکوک اور غیر مشکوک گاڑی کو چیک کر رہا تھا۔ ایک اسکول وین میں بیٹھی کسی اُستانی نے سپاہی سے بحث شروع کی تو بھولے کو بحث میں مداخلت کرنا پڑی۔ اس نے تمام اُستانیوں کو وین سے اُتار لیا اور تلاشی کیلئے لیڈی کانسٹیبل کے انتطار میں انہیں فٹ پاتھ پر کھڑا کردیا۔لیڈی کانسٹیبل کہیں موجود تھی ہی نہیں لیکن ‘اُستاد’ کو سبق دینا سب نہیں جانتے۔ بھولا باقی گاڑیوں کی تلاشی میں مصروف ہو گیا۔ اسی اثناء میں ایک مشکوک کار کو سپاہیوں نے جو رُکنے کا اشارہ کیاتو وہ رفتار بڑھا کر فُٹ پاتھ پہ چڑھ دوڑی جہاں اُستانیاں کھڑی تھیں۔ اُستانیاں چیخ کر منتشر ہوئی تھیں کہ بھولا لپک کر اس کار کے سامنے آگیا۔ دو سپاہیوں نے گاڑی پر فائر کھول دیا۔ کار سے جوابی فائرنگ ہوئی اور ایک بھگڈر مچ گئی۔ اگر چہ کار میں سوار تمام لوگ مارے جاچکے تھے یا زخمی تھے تاہم ڈرائیور سلامت تھا جو کار کو لے کر نکل بھاگا۔ اس کا تعاقب کیا جا تا لیکن سڑک کے درمیان بھولا اوندھے مُنہ پڑا تھا۔ اُستانیاں اپنی ایک ساتھی کے لہولہان جسم کے گرد اکٹھی تھیں۔ جب ایک اُستانی اور بھولے کی لاش ہسپتال سے واپس لائی گئیں تو کچھ یقین سے نہ کہا جاسکتا تھا کہ ان کی موت پولیس کی گولی سے ہوئی یا حملہ آوروں کی گولی سے۔ بعد میں پتہ چلا کہ حملہ آوروں کا تعلق کسی کالعدم دہشتگرد تنظیم سے تھا جس کی وجہ سے وفاقی حکومت نے بھی واقعے کا نوٹس لیا۔

 

وزیرِ اعلیٰ اور آئی جی پنجاب نے فاتحہ خوانی اور دلاسے کیلئے بھولے کی بیوہ کو سرکاری خرچ پر لاہور بلوایا اور دونوں نے باری باری اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر فوٹو بھی کھنچوائے۔ بھولے کی بیوہ کو شہداء فنڈ سے پیسے ملے اور کچھ پنشن بھی بن گئی۔ ایک دفعہ جب آئی جی صاحب نے پولیس شہداء کی بیواؤں میں سلائی مشینیں تقسیم کیں تو بھولے کی بیوہ کو بھی تقریب میں جانا پڑا، اگرچہ وہ دی گئی سلائی مشین بعد میں پولیس لائن میں ہی چھوڑ آئی۔ بے چاری کو ایم ایس سی پاس کروانے والے والدین نے سلائی کڑھائی کی تربیت جو نہیں دی تھی۔۔۔

 

اگرچہ چودھری صاحب جوان بیٹے کی شہادت کے بعد سے اب تک ذہنی طور پر اس قابل بھی نہیں رہے کہ اس داستان کو مکمل پڑھ لیں گے لیکن مجھے اُن سے معافی ضرور مانگنی چاہیئے کہ میرے بے لحاظ قلم نے اس تھانے دار سے بھی رعائیت نہ کی جسے خُدا نے شہادت کیلئے چُن رکھا تھا۔ بھولے کی زندگی میں اس کی غیرت کی داد دینے والے یا اُس کی پیٹھ پیچھے اُسے گالیاں دینے والے، سبھی لوگ اب بھولے کی موت کو “قدرت کا انصاف” قرار دے رہے ہیں۔ میرے لئے اس تحریر کا اختتام اسی لئے مشکل ہے کہ اگر اتنے لوگوں کی جان، مال اور عزت کے نقصان کے عوض خُدا ہی نے بھولے کو بھری جوانی میں سڑک پر مرنے کی سزا دی یا پھر اگر نظام کے ہاتھوں بھولے کے مسخ ہونے والے کردار کا داغ دھونے کیلئے خُدا ہی نے اسے شہادت کیلئے منتخب کیا، دونوں صورتوں میں مجھے اس ‘انصاف’ میں اپنے وطن کے نظامِ انصاف کا رنگ جھلکتا نظر آتا ہے کیونکہ بھولے کے غمزدہ اور نیم پاگل باپ، بے سہارا بیوہ اور اس کی شہادت کے دو ماہ بعد پیدا ہونے والی اس کی بیٹی کا مستقبل مجھے اس معاشرے میں بڑا پُر آشوب دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے لئے خُدا سے معافی کا طلبگار ہوں۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *