تمہاری یادیں بیچ دی ہیں میں نے
اب اس میں ان کا مالک
پکوڑے بیچتا ہے
اس کی اچھی نکل جاتی ہے دیہاڑی

 

جب میں دیکھتا ہوں کہ لوگ
اپنے پکوڑے کھا کر
تمہاری یاد کو مچوڑ کر پھینک دیتے ہیں
تو کوئی خوشی نہیں ہوتی
خوش نہ ہو
کوئی غم بھی نہیں ہوتا

 

کل اکبر چوک والے نالے پر
جہاں سے ہم سب ہی گزرا کرتے تھے
وہاں غلاظتوں کے درمیان
اکبر چوک والی یادیں پڑی تھیں
میرا خیال ہے تمہیں یہ غلاظتوں میں پڑی
زیادہ بہتر رہیں گی
بہ نسبت کہ میری یاداشت میں حنوط زدہ

 

اور وہ تمہاری یاد
جو مختلف چھوٹی بڑی یادوں سے مل کر بنی ہے
وہ جو تم ہو
اپنی روح تک
وہ میں نے رکھی ہوئی ہے
وہ میری ہے
میں نے جنی ہے
اس میں کوئی مائی کا لال
پکوڑے بیچ کر دکھائے

2 Responses

  1. سید کامی شاہ

    کون ہے یہ بندہ یار، کیا بکواس لکھتا ہے۔؟ اور اپ اسے اپنے موقر جریدے میں جگہ بھی دے رہے ہیں۔؟ اپ کے ادارے کا کوئ فنانسر تو نہیں ہےیہ ۔؟

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: