Laaltain

بھاگ مسافر میرے وطن سے

4 دسمبر، 2014
Picture of ناہید اسرار

ناہید اسرار

(گاوں کے ایک تھانے کا منظر، تھانیدار صاحب کے کمرے کے باہر چند کانسٹیبل اونگھ رہے ہیں، ایک جانب سپاہیوں کی میلی وردیاں دیوار پر ٹنگی ہیں۔ تحانیدار صاحب بنیان اور خاکی پتلون پہنے چارپائی پر مالش کرا رہے ہیں۔ عبداللہ دہائی دیتا تھانے کی حدود میں داخل ہوتا ہے)
عبداللہ: فریاد کرتا ہوں تھانیدار صاحب، میں لٹ گیا! برباد ہوگیا میں!
تھانیدار : او بابے کیوں رونا دھونا مچا رکھا ہے؟
عبداللہ: (روتے ہوۓ) صاحب دو روز پہلے فصل کو پانی دینے پر چھوٹے زمیندار کے آدمیوں سے جھگڑا ہوا تھا۔ کل وہ لوگ میرے بیٹے احمد کو اٹھا کے لے گۓ تھے۔
تھانیدار: ہاں تو آیا وہ واپس؟
عبداللہ: نہیں سرکار آج نہر کے کنارے اسکی کٹی پھٹی لاش ملی ہے ۔ ظالموں نے مار دیا میرے جوان جہان بیٹے کو ! صاحب میں پرچہ کٹوانے آیا ہوں۔
تھانیدار: پر بابا پرچہ کس ک خلاف کاٹوں؟
عبداللہ : صاحب، چھوٹے زمیندار اور اس کے بندوں کے خلاف ۔
تھانیدار: (بھنویں سکیڑتے ہوۓ) بابا بات سنو یہ قتل کا الزام بہت بڑا ہوتا ہے،ایسے کیسے کسی کے خلاف 302 کاپرچہ کاٹ دوں؟کوئی گواہ ہے تمھارے پاس؟
عبداللہ : ہے سرکار یہ شریف الدین ہے، اس کے سامنے ہوا سب۔
شریف الدین: او بابا جی!! مینو کیوں پھنسا رہے ہو؟ میں نے کچھ نہیں دیکھا، سرکار میں تو دور کھڑا تھا اور میری تو پیٹھ بھی احمد کی طرف تھی ۔
تھانیدار: ابے تو آیا کیوں ہے یہاں؟
شریف الدین: جناب میں تو بابے کا ساتھ دینے آگیا تھا ہمدردی میں، یہ تو میرے ہی گلے پڑ گیا، نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں۔
عبداللہ : جھوٹ نہ بول شریفے تو نے کل تو کہا تھا تیرے سامنے ہوا تھاسب۔
شریف الدین: بابا جی میں بہت دور تھا، میں نے کچھ نہیں دیکھا۔
تھانیدار: بابا نہ تمھارے پاس کوئی گواہ نہ ثبوت، اب پرچہ کیا ہوا میں کاٹوں؟
عبداللہ : صاحب میں سچ کہہ رہا ہوں، میں تو کل بھی آپ کے پاس آیا تھا اورآپ نے مجھے بھگا دیا تھا، اگر کل آپ کچھ کر لیتے تو آج میرا جوان بیٹا زندہ سلامت ہوتا!
تھانیدار: ابے سالے بڈھے مجھے میرا کام بتاۓ گا تو؟ نکل باہر اب واپس نہ آئیو، نکل ! نکل !!!


مائی: دہائی ہے جی سرکار دہائی ،انصاف چاہیے مجھے !! ظالمو نے کہیں کا نہیں چھوڑا!
تھانیدار: بول مائی کیوں رو رہی ہے؟
مائی: صاحب، میرے جیٹھ کا لونڈا کچھ غنڈوں کے ساتھ کل رات میرے گھر میں گھس گیا اور میری بیٹی کی عزت لوٹ لی۔
تھانیدار: او امّاں ایسے ہی کوئی گھس گیا تیرے گھر میں؟ جوان بیٹی ہے، گھر میں تالا لگا کر نہیں رکھتی کیا؟
مائی: صاحب رکھتی ہوں، وہ دیوار پھلانگ کر آیا اور سب کچھ لوٹ کر لے گیا- کسی کو مونہہ دکھانے لائق نہیں چھوڑا ہمیں۔ رسوا کردیا ہمیں۔
تھانیدار: او امّاں کوئی یونہی اس طرح کی کارروائی نہیں ڈالتا کسی کے گھر، تیری بیٹی نے کچھ تو کیا ہوگا نا ، اس نے خود ہی بلایا ہوگا۔
مائی: نہیں سائیں میری بیٹی نے قرآن پڑھا ہے حافظہ ہے ، پردہ کرتی ہے وہ۔
تھانیدار: ارے تو پردے کے پیچھے کیا کیا کرتی ہے ہم کیا جانیں؟ ثبوت ہے تمہارے پاس ؟
مائی: سب میرے سامنے ہوا ہے،ان بوڑھی آنکھوں کے سامنے۔تھانیدار جی میں انصاف لینے آئی ہوں، پرچہ کٹوانے آئی ہوں اپنے جیٹھ اور اس کے بیٹے کے خلاف۔
تھانیدار: کیسے پرچہ کاٹ دوں امّاں ؟ قانون ثبوت مانگتا ہے گواہ مانگتا ہے، کوئی میڈیکل کراو اس کا پھر آنا۔ تمہاری گواہی تو آدھی بھی نہیں بنتی۔ چار گواہ ہیں تمھارے پاس ریپ کے؟
مائی: چار گواہ؟
تھانیدار: ہاں مائی چار گواہ لاؤ ریپ کے لئے پھر پرچہ کٹے گا، اب جاؤ!


(مسجد سے سائرن کی آواز آرہی ہے)
تھانیدار: اوے الله بخش یہ سائرن کیوں بج رہا ہے؟ چل ذرا پیٹی کس دیکھیں کیا ہوا-
(مسجد کے سامنے نمبردار کے ڈیرے کے پاس لوگوں کی بھیڑ ہے، فضا میں چند چیلیں منڈلا رہی ہیں۔ مٹی میں جذب ہوئے خون کے نشان ابھی تازہ ہیں جن پر مکھیاں منڈلا رہی ہیں۔ کچھ لوگوں کے ہاتھ میں لاٹھیاں ہیں مسجد کا موذن فون کان سے لگائے کھڑا ہے)
تھانیدار: اوئے! کیا ہوا؟ کیوں بھیڑ لگائی ہے؟
مولوی علم دین: جناب اسلام علیکم، گاؤں والوں نے ایک گستاخ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پکڑا ہے جی۔
تھانیدار: اچھا! کدھر ہے؟
لوگ: تھانیدار صاحب ادھر زمین پہ پڑا ہے کافر، پلید!
تھانیدار: اوے یہ تو بَلّی سقہ ہے، کیا کیا ہے اس نے؟
لوگ: نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی شان میں گستاخی کی ہے جناب اس کافر نے !
تھانیدار: کس نے بتایا تم لوگوں کو؟
لوگ: وہ جی مولوی صاحب نے بتایا آج مسجد میں نماز کے بعد۔
مولوی علم دین: (گڑبڑا کر) وہ جی مجھے آج ظہر سے پہلے صدیق نے بتایا تھا بَلّی نے اس کے سامنے گستاخانہ کلمات کہے ہیں۔
تھانیدار: اوے صدیق سامنے آ ذرا۔ صحیح کہہ رہے ہیں مولوی صاحب؟
صدیق: ہاں جی صحیح کہہ رہے ہیں میرے سامنے ایسی گندی گندی گالیاں دی ہیں اس نے، کہہ رہا تھا میں تیرے ہاتھ سے پانی نہیں پیوں گا تو پلید ہے، ( بَلّی کو ایک لات جماتے ہوۓ) سالا کافر ۔
تھانیدار : اوے بس بس، اور کوئی گواہ تھا وہاں؟
مولوی: جناب صدیق نے میرے سامنے قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی ہے- اس ملعون نے گستاخی کی ہے۔ یہ واجب القتل ہے۔
لوگ: (اشتعال میں نعرے لگاتے ہوئے)گردن کاٹ ڈالو اس گستاخ کی، جلا ڈالو اسے۔
(گستاخ رسول کی ایک سزا۔۔۔ سر تن سے جدا)
بَلّی: (ہوش میں آکر کراہتے ہوے) سرکار بچا لو مجھy، میں نے تو اپنے ہزار روپے واپس مانگے۔۔۔۔۔
صدیق: (ایک اور لات جماتے ہوۓ) مار اس گستاخ کو۔
(ہجوم ایک بار پھر بَلّی پر پل پڑتا ہے- کچھ اور دیر لاتیں کهانے کے بعد بالآخر بَلّی دم توڑ دیتا ہے )
تھانیدار: ابے مار دیا تم لوگوں نے اسے، اب کیا ہوگا؟ پرچہ کس کے خلاف کاٹوں گا میں ؟
مولوی: (تقریر کرتے ہوئے)جناب نبی پاک(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی شان میں جو گستاخی کرے گا اسکا وہی حشر ہوگا۔ آپ بیچ سے ہٹ جائیں ہم نمٹ لیں گے ان سے۔ یہ سب کافر واجب القتل ہیں، ان کو نیست و نابود کردو! تاریخ گواہ ہے بھائیو جب جب ان کفار نے سر اٹھایا ہے انہیں سبق سکھانے اور ان کی گردنیں کاٹنے کے لئے کسی غازی رحیم الدین، کسی امتیازقادری نے جنم لیا ہے، آج وہ رحیم الدین وہ امتیاز قادری ہمارے درمیان صدیق کی شکل میں موجود ہے۔عاشقان رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا فرض ہے کہ ایسے ملعونوں سے اس پاک دھرتی کو محفوظ رکھیں، یاد رکھو تم سب قیامت کے دن نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے ساتھ اٹھاۓ جاؤ گے۔
(لوگ مزید مشتعل ہوکر )چلو چلو، آگ لگا دو! نعرہ تکبیر ! الله اکبر!!!


تھانیدار: سر میں کیا کر سکتا تھا ہجوم مشتعل تھا، اتنے بڑے ہجوم کو قابو کرنا مشکل تھا، ہمارے پاس نفری بھی کم تھی۔ اور نبی پاک(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے نام پر ہر مسلمان قدرتی طور جذباتی ہوجاتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات اچھے خاصے گواہ موجود تھے اس کے خلاف۔
افسر: بات تو ٹھیک ہے۔ اور پھر یہ کوئی ریپ یا قتل کا معاملہ ہے بھی نہیں کہ ایک گھرک سنا کر بھگا دو ناموس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا معاملہ تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔


روزنامہ ‘الباکستان’، شہ سرخی:
مملکت خداداد کے ایک دور افتادہ گاؤں میں کل دوپہر عاشقان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ایک گستاخ رسالت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو جہنم واصل کردیا۔ ملکی قانون رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی شان میں گستاخی کرنے والے کو واجب القتل قرار دیتا ہے چناچہ ناموس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی حرمت ہر مسلمان اپنا فرض سمجھتا ہے۔
حکومت سے گزارش ہے کہ صوبہ ‘نیا خواہ مخواہ ‘ کی مثال سامنے رکھتے ہوۓ دیگر صوبوں کے تدریسی نصاب میں ‘غازی رحیم دین شہید، جیسے ناموس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کےمحافظوں سے متعلق ابواب لازمی قرار دیں۔ اس موقع پر ایک شاندار اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے علماء نے جناب ‘امتیاز قادری ‘ کی رہائی اور ان کے نام سے ناموس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی خاطر جہاد کرنے والے امت کے سپوتوں کے لیے ایک ایوارڈ کے اجراء کے لیے ملک گیر احتجاجی تحریک کا مطالبہ بھی کیا۔

One Response

  1. لکھا اچھا ہے مگر اینڈ میں پڑھ کر افسوس ھوا غازی علم دین شہید کا نام جاہل لوگوں کیساتھ مت لگاو اور نہ انکا مزاق بناو کوہی انکی سٹوری کو کتابوں سے نیں نکال سکتا وہ ھمشیہ مسمانوں کے دل میں زندہ رہیں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

  1. لکھا اچھا ہے مگر اینڈ میں پڑھ کر افسوس ھوا غازی علم دین شہید کا نام جاہل لوگوں کیساتھ مت لگاو اور نہ انکا مزاق بناو کوہی انکی سٹوری کو کتابوں سے نیں نکال سکتا وہ ھمشیہ مسمانوں کے دل میں زندہ رہیں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *