کہا جاتا ہے کہ کرکٹ شرفاء کا کھیل ہے، کئی ممالک میں کھیلا جاتا ہے اور پوری دنیا میں پسند بھی کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ کھلاڑی ملک کے سفیر ہوتے ہیں، ان کی کامیابیاں کسی بھی قوم کا سرمایہ افتخار ہوتی ہیں۔ -اور یہ بھی کہا جاتا ہےکہ بعض ملکوں میں کرکٹ کو مذہب کی حثیت بھی حاصل ہے، کھلاڑیوں کو دیوتاوں کی حیثیت حاصل ہے- ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں تو کرکٹ نے سیاسی حریفوں کے بیچ سفارت کار کی حیثیت بھی حاصل کر لی ہے- بمبئی حملوں اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کی وجہ سے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات کشیدہ تھے تو بھارت کے موجودہ وزیراعظم منموہن سنگھ نے ۳۰ مارچ ،۲۰۱۱ کوپاکستان کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سیمی فاینل دیکھنے کی دعوت دی اور گیلانی صاحب نے اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوے فوراً قبول کر لی- دونوں ملکوں نے دو طرفہ تعلقات کو مزید تقویت دینے کے لیے کرکٹ کو ‘ڈپومیسی’ کے طور پر اپنایا اور ایک اچھی روایت قائم کی- وائے افسوس جن ممالک میں کرکٹ کو مذہب کی طرح دیکھا جاتا ہے آج انہوں نے ہی اسے بیوپار بنا دیا ہے۔
کرکٹ کے تین بڑوں کے مستحکم مالی بورڈز کو ویونیو میں مزید حصہ ملنے سے ان ممالک میں پہلے سے موجود مضبوط کرکٹ انفراسٹرکچر کو مزید تقویت ملے گی جس کے باعث پاکستان، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز جیسے مالی طور پر کمزور ممالک کے ریونیو میں کمی کے باعث ان ممالک میں کرکٹ کی ترقی اور ترویج کا عمل رک سکتا ہے۔
"بگ تھری” کی جانب سے پیش کی جانے والی معاشی اور انتظامی تبدیلیوں کی منظوری نے دنیائے کرکٹ میں بھونچال برپا کر دیا ہے -آئی سی سی کے رکن ممالک کی طرف سے منظور کردہ اس مسودے کے مطابق آئی سی سی کے ایگزیکٹیو اختیارات اور مالی کنٹرول ای سی بی، کرکٹ آسٹریلیا اور بی سی سی آئی کے ہاتھ میں رہے گا، جو بالترتیب انگلستان، آسٹریلیا اور بھارت کے کرکٹ بورڈ ہیں۔اس کے علاوہ یہ تینوں کرکٹ بورڈز آئی سی سی کی ایگزیکیٹو کمیٹی کے مستقل رکن ہوں گے جس کی صدارت اس سال جولائی سے ہندوستانی این سری نواسن کریں گے- جن کے داماد آئ پی ایل میں سٹے باز ی اور میچ فکسنگ کی وجہ سے گرفتار ہوئے تھے- کمیٹی کا چوتھا رکن دیگر سات ممالک میں سے کوئی ایک نامزد ہوگا۔عالمی کرکٹ کی آمدنی کا بڑا حصہ انھی تین کرکٹ بورڈز کو ملے گا جبکہ ٹیسٹ میچوں میں ترقی اور تنزلی کے طریقۂ کار میں بھی یہ تینوں کرکٹ بورڈزٹیسٹ سٹیٹس کی تنزلی سے مبّرا ہوں گے- دیگر تجاویز میں2017 میں ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا منصوبہ ختم کر دیا گیا ہے اور اس کی جگہ 2017 اور 2021 میں ایک روزہ میچز کی چیمپیئنز ٹرافی منعقد کی جائے گی –
آئی سی سی میں ایسی تبدیلیوں کی کوشش پہلی بار نہیں کی جا رہی اس سے پہلے 1980 اور 1990 کی دہائی میں بھی بگ ٹو (انگلستان، آسٹریلیا) کی جانب سے اسی طرح کا ایک غیر جمہوری تبدیلیوں کا مسودہ پیش کیا گیا تھا جو منظور نہیں ہو سکا تھا- دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت بھارت نے آئی سی سی میں ایسے غیر جمہوری اقدامات کی مخالفت کی تھی ۔تاہم گزشتہ چند برسوں میں انڈین پریمیر لیگ کی کامیابی کے بعد ہندوستانی کرکٹ بورڈ کو مالی استحکام حاصل ہوا ہے اور آئی سی سی میں ہندوستان کا اثرورسوخ برطانیہ اور آسٹریلیا سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔
بگ تھری نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہر حربہ آزمایاجس کا اندازہ بھارت کی اس دھمکی سے ہوگیا تھا کہ اگر ان تبدیلیوں کو قبول نہ کیا گیا تو وہ آئی سی سی سے علیحدہ ہو جائے گا۔ان تین ملکوں نے ہر ملک کو پرکشش پیشکشوں سے ’رام‘ کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی- اس پر کسی نے کیا خوب کہا کہ یہ "دادا گیری کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش” ہے۔ ‘بدمعاش’ کے اس لقب پر فی الحال تو ہندوستان، آسٹریلیا اور انگلینڈ کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا کیونکہ جس ڈھٹائی کے ساتھ ان تینوں ممالک نے اپنی سفارشات انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے روبرو پیش کی ہیں، اس سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ معاملہ خالصتاً مالی مفادات کا ہے۔ویسٹ انڈیز، بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ جیسے مالی طور پر کمزور بورڈز نے مالی مفادات کے لئےبگ تھری سے دو طرفہ کرکٹ مقابلوں کے بدلے جبکہ جنوبی افریقہ نے کرکٹ میں عالمی تنہائی کے خوف سے اس مسودے کو منظور کرانے میں اہم کردار کیا ہے۔ جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ اور بی سی سی آئی کے تعلقات کافی عرصے سے کشیدہ رہے ہیں جس کا سبب ہارون لورگاٹ ہیں لیکن اب یقینی طور پر جنوبی افریقہ کو بگ تھری کے ساتھ ہونے کا بھاری فائدہ ہوگا جس کی یقین دہانیاں اسے کرا دی گئی ہیں۔
یہ ایسا ہی ہے کہ برازیل، انگلینڈ، جرمنی، سپین، اٹلی اور ارجنٹائن فٹ بال ورلڈ کپ کے کوالیفائنگ راونڈ کھیلنے سے مستثنیٰ قرار دے دیے جائیں۔ یا اولپمپکس صرف امریکہ، چین، برطانیہ یا روس کی اجارہ داری میں دے دیے جائیں۔
اس سارے عمل کی شفافیت سے متعلق چند اہم سوالات ہنوز جواب طلب ہیں کہ کیا اپنی مرضی کا منصوبہ منوانے کے لیے کھلم کھلا پیشکشں رشوت کے زمرے میں نہیں آتی؟ اور کیا اپنی مرضی کا منصوبہ منوانے کے لیے دھمکیاں دینا بلیک میلنگ کے زمرے میں نہیں آتا؟
آئی سی سی یقینی طور پر اقوام متحدہ کی طرح اس بارے میں آنکھیں بند کیے بیٹھی رہے گی کیونکہ وہ ہمیشہ سے بڑے ملکوں خاص کر بھارت کے معاملے میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی ہے اور اب تو تین بڑے ممالک خاص کر بھارت آئی سی سی کا بلاشرکت غیر حکمراں بن چکا ہے لیکن ایسا کسی دوسری عالمی تنظیم میں قابل قبول نہیں ہے اور دنیا اس کی کئی مثالیں دیکھ چکی ہے۔ دو ہزار دو کے سرمائی اولمپکس کی میزبانی حاصل کرنے کے لیے سالٹ لیک سٹی کے منتظمین نے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے کئی ارکان کو رشوت دی تھیاوریہ سکینڈل سامنے آنے پر انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے اپنے چھ ارکان کو برطرف کردیا تھا۔ فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کے صدر بننے کے خواہشمند محمد بن حمام پر حمایت حاصل کرنے کے لیے کئی ارکان کو قیمتی تحائف اور نقد رقوم دینے کا الزام ثابت ہوا تو ان پر فیفا کے دروازے بند کردیے گئے۔ فیفا کے ایک سابق صدر ہیو لانج کو اعزازی صدر کا عہدہ اس لیے چھوڑنا پڑا کیونکہ ان پر فیفا کی مارکیٹنگ کمپنی سے مالی فوائد حاصل کرنے کا الزام ثابت ہوگیا تھا۔ آئی سی سی اگر بھارتی کرکٹ کی پیسے کی طاقت کے سامنے مجبور نہ ہوتی تو وہ آئی پی ایل اور خود سری نواسن کے خلاف قدم اٹھا چکی ہوتی-
انگلینڈ اور ویلز کےسابق چیف جسٹس اور آئی سی سی میں جامع اصلاحات کےلیے تیار ہونے والی رپورٹ کے مصنف لارڈ ہیری وولف نے کہا ہے-کہ یہ کرکٹ کے مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک صورتِ حال ہے، اور یہ رجعت پسندانہ اقدام ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی بھی بڑی تنظیم میں اس طرح کی ایگزیکٹیو کمیٹی کی تجویز نہیں دیکھی جو تمام فیصلے کرنے کی مجاز ہو-پاکستان کرکٹ بورڈ کے دو سابق سربراہوں لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) توقیر ضیا اور شہر یار خان نے آئی سی سی میں پاکستان کے اصولی موقف کو سراہتے ہوئے تین ممالک کی اجاری داری کے منصوبے کی منظوری کو کرکٹ کے لیے تباہ کن قرار دیا ہے۔ توقیرضیا نے کہا کہ یہ جنگ نہیں کہ علاقے واپس نہ کیے جائیں پاکستان اب بھی کچھ نہ کچھ یقین دہانیاں حاصل کرسکتا ہے۔ دنیا کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کرکٹ میں ایک اہم ملک ہے وہ بنگلہ دیش اور زمبابوے نہیں ہے جسے آسانی سے نظرانداز کردیا جائے۔ شہریارخان نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ وقتی طور پر یقیناً تنہا رہ گیا ہے لیکن اسے اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہنا چاہیے اور اس منصوبے کی مخالفت جاری رکھنی چاہیے،اس بات کو کیسے مان لیا جائے کہ پوری دنیا کی کرکٹ صرف تین ممالک چلائیں گے۔ یہ کرکٹ کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔
بگ تھری منصوبے سے کرکٹ کی ترقی اور مزید ممالک تک اس کے پھیلاو کا عمل بھی رک سکتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ایسوسی ایٹ ممبرز میں کرکٹ کی ترقی کے لئے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی۔ اسی طرح کرکٹ کے تین بڑوں کے مستحکم مالی بورڈز کو ویونیو میں مزید حصہ ملنے سے ان ممالک میں پہلے سے موجود مضبوط کرکٹ انفراسٹرکچر کو مزید تقویت ملے گی جس کے باعث پاکستان، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز جیسے مالی طور پر کمزور ممالک کے ریونیو میں کمی کے باعث ان ممالک میں کرکٹ کی ترقی اور ترویج کا عمل رک سکتا ہے۔ ایک دوسرا اہم مسئلہ2015 سے 2023 تک تمام اہم عالمی مقابلوں کا ان تین بڑے ممالک میں انعقاد ہے۔ جس سے ان ممالک کو ان عالمی مقابلوں اپنے گراونڈز اورموسمی حالات کی برتری کے ساتھ ساتھ جیتنے کے زیادہ مواقع ملیں گے۔اس منصوبے کے باعث کرکٹ کا کھیل متنازعہ اور چند ممالک تک محدود ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ قانون سازی میچوں کے انعقاد، میڈیا کوریج کے حقوق اور ریونیو کی تقسیم پر اجارہ داری کے باعث کرکٹ صرف انگلینڈ، آسٹریلیا اور بھارت تک محدود ہوجائے گی۔ کرکٹ کو کاروبار بنانے کے باعث رکن ممالک صرف ان ممالک سے کرکٹ کھیلیں گے جہاں دورہ کرنے اور کھیلنے سے زیادہ سے زیادہ معاشی فائدہ ہوگا۔
پاکستانی کرکٹ کے لئے بھی بگ تھری منصوبہ تباہ کن ہے۔ نئے انتظامی ڈھانچہ کے تحت پاکستان کرکٹ بورڈ کے ریونیو کے حصہ میں کمی ہوگی اور عالمی مقابلوں کے مخصوص ممالک میں انعقاد سے پاکستان میں عالمی کرکٹ کی واپسی مزید مشکل ہو جائے گی۔
کرکٹ کے نئے انتظامی ڈھانچے میں ایک اہم نقص انگلینڈ، آسٹریلیا اور بھارت کو کارکردگی سے قطع نظر مستقل ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کا درجہ ملنا بھی ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ برازیل، انگلینڈ، جرمنی، سپین، اٹلی اور ارجنٹائن فٹ بال ورلڈ کپ کے کوالیفائنگ راونڈ کھیلنے سے مستثنیٰ قرار دے دیے جائیں۔ یا اولپمپکس صرف امریکہ، چین، برطانیہ یا روس کی اجارہ داری میں دے دیے جائیں۔
زیادہ ریونیو کمانے کی بنیاد پر انتظامی تبدیلیاں کرنے میں ایک بڑا مسئلہ مستقبل میں کرکٹ کا پھیلاو رک جانے کے باعث کرکٹ کے ریونیو کے کم ہو جانے کا خدشہ بھی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسوسی ایٹ ممالک اور کرکٹ کے پھیلاو کے منصوبے رکنے سے مزید شائقین کے نہ ہونے سے کرکٹ میں یکسانیت اور یک رنگی آجائے۔ ٹیسٹ کرکٹ کا وجود بھی مستقبل میں خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے کیوں کہ ٹیسٹ کرکٹ اکثر ممالک کے شائقین کے لئے دلچسپی کا باعث نہیں جس کی وجہ سے ٹیسٹ کرکٹ کی بجائے ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کرکٹ کو زیادہ اہمیت دیے جانے کا بھی امکان ہے۔
پاکستانی کرکٹ کے لئے بھی بگ تھری منصوبہ تباہ کن ہے۔ نئے انتظامی ڈھانچہ کے تحت پاکستان کرکٹ بورڈ کے ریونیو کے حصہ میں کمی ہوگی اور عالمی مقابلوں کے مخصوص ممالک میں انعقاد سے پاکستان میں عالمی کرکٹ کی واپسی مزید مشکل ہو جائے گی۔ پاکستان، سری لنکا، ویسٹ انڈیز اور جنوبی افریقہ کے بورڈز کو دوبارہ اس منصوبے کے حوالے سے لابنگ کرنے اور کرکٹ کی عالمی تنظیم میں تمام ممالک کی یکساں حیثیت کو یقینی بنانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ کرکٹ کا مقصد روپیہ کمانا نہیں بلکہ تمام انسانوں کی خوشی ، جذبہ اور ایک پرامن دنیا کی تصویر میں انسانی تنوع کے رنگ بھرنا ہے۔

Leave a Reply