ہم ٹھہرے ٹھیٹھ ” پینڈو” لوگ؛ ہماری سوچ پینڈو، رہن سہن پینڈو، ملنا ملانا پینڈو، کھانا پینا پیڈواور حیران کن طور پہ ہمیں اپنے پینڈو ہونے پہ ہمیشہ احمقانہ حد تک فخر بھی رہا ہے جس کی وجہ سے اپنا "پینڈو پن” نہ کبھی چھپایا نہ ہی کبھی چھپانے کی کوشش کی ۔ شاید یہ ہمارے اندر کا پینڈو پن ہی ہے کہ ہم ملکی اہمیت کا کوئی معاملہ ہو یا عالمی سطح کا اس کو اپنے دیہاتی پس منظر کے حوالے سے ہی دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ جدید دنیا کی سہولیات کی فراہمی کے باعث اب دیہات میں بھی رہن سہن ویسے تو کافی حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ ان سہولیات اور آسائشوں نے مصنوعیت کو جنم دیاہے لیکن پھر بھی کسی نہ کسی حد تک قدرت سے تاحال رشتہ قائم ہے۔
شاید یہ ہمارے اندر کا پینڈو پن ہی ہے کہ ہم ملکی اہمیت کا کوئی معاملہ ہو یا عالمی سطح کا اس کو اپنے دیہاتی پس منظر کے حوالے سے ہی دیکھنا پسند کرتے ہیں۔
دیہاتوں میں کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہمیشہ سے کھیتی باڑی رہا ہے۔ کھیتوں میں محنت کر کے پورے سال کے لیے اناج جمع کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ دیہات میں ایسے ہوتے ہیں جو سال بھرکھیت میں ہل چلاتے ہیں، دن رات ایک کر کے فصل بوتے ہیں اپنے پسینے سے اس فصل کی آبیاری کرتے ہیں لیکن انہیں ان کی محنت کے باوجود بمشکل سال بھر کے لیے کافی اناج حاصل ہوتا ہے یہ لوگ ” مزارعے ” کہلاتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پورا سال کھیتوں کا رخ تک نہیں کرتے ،سکون سے گھروں میں بیٹھتے ہیں،تپتی دوپہروں میں ٹھنڈے مشروب پیتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے گودام سال کے اختتام پر اناج سے بھر جاتے ہیں۔ ان گوداموں کے رکھوالے مونچھوں کو تاؤ دے کے چارپائیاں سنبھال کر بیٹھ جاتے ہیں۔ مبادا کوئی مزارعہ ” دو نمبری” نہ کرے ۔ جن کے اناج کے گودام بناء کسی محنت کے بھرے جاتے ہیں یہ لوگ ” زمیندار” کہلاتے ہیں۔ انہیں کہیں کہیں "نواب صاحب”، "صاحب بہادر”، خان جی” یا پھر ” چوہدری صاحب” کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے۔ نام کوئی بھی ہو ان کا عملی کردار استحصالی ہی ہوتا ہے یعنی محنت کسی کی پھل کسی کا۔
گاؤں یا دیہات کی زندگی میں زمیندار و مزارعین کے کردار بہت اہم ہوتے ہیں۔ پورے گاؤں میں محدودے چند ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو زمیندار کہلوانے کے اہل ہوتے ہیں لیکن مزارعے ان گنت ہوتے ہیں۔ ان زمینداروں کا سب سے اہم کام مزارعوں پہ حکم چلانا ہوتا ہےاور مزارعے اس لیے چوں چراں نہیں کرتے کہ پھر سال بھر کے اناج سے محروم ہونا پڑے گا۔ اگر غلطی سے کسی غریب مزارعے کی عزت نفس جاگ جائے یا وہ چوہدری صاحب کو یہ کہنے کی جرات کر لے کہ جناب اس سال اناج آپ نے کم دیا ہے تو چوہدری صاحب اپنے کارندے بھیج کر نہ صرف اس کے کچے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں بلکہ ساری زندگی کے لیے اپنا ” کمی” بنانے کے احکامات بھی صادر فرما دیتے ہیں۔ اور اگر کسی مزارعے کی اولاد میں سے کوئی پڑھ لکھ کر اس نظام سے نکلنا چاہے تو اس کی راہ میں ایسے سپیڈ بریکر کھڑےکر دیے جاتے ہیں کہ اس بیچارے کو اپنی منزل کوسوں دور محسوس ہوتی ہے۔ وطن عزیز میں جس جگہ بھی زمیندار اور مزارعے کے تعلق میں کچھ توازن پیدا ہوا یا ایک عزت کا رشتہ قائم ہوا جس میں زمیندار مزارعوں کی عزت کرنے پہ مجبور ہوئے وہاں صرف ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ مزارعے اپنے حقوق کے لیے اکھٹے ہو گئے اور زمیندار، خان جی، چوہدری صاحب کو اپنی کمائی ہاتھوں سے نکلتی نظر آئی ۔
گاؤں یا دیہات کی زندگی میں زمیندار و مزارعین کے کردار بہت اہم ہوتے ہیں۔ پورے گاؤں میں محدودے چند ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو زمیندار کہلوانے کے اہل ہوتے ہیں لیکن مزارعے ان گنت ہوتے ہیں۔ ان زمینداروں کا سب سے اہم کام مزارعوں پہ حکم چلانا ہوتا ہےاور مزارعے اس لیے چوں چراں نہیں کرتے کہ پھر سال بھر کے اناج سے محروم ہونا پڑے گا۔ اگر غلطی سے کسی غریب مزارعے کی عزت نفس جاگ جائے یا وہ چوہدری صاحب کو یہ کہنے کی جرات کر لے کہ جناب اس سال اناج آپ نے کم دیا ہے تو چوہدری صاحب اپنے کارندے بھیج کر نہ صرف اس کے کچے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں بلکہ ساری زندگی کے لیے اپنا ” کمی” بنانے کے احکامات بھی صادر فرما دیتے ہیں۔ اور اگر کسی مزارعے کی اولاد میں سے کوئی پڑھ لکھ کر اس نظام سے نکلنا چاہے تو اس کی راہ میں ایسے سپیڈ بریکر کھڑےکر دیے جاتے ہیں کہ اس بیچارے کو اپنی منزل کوسوں دور محسوس ہوتی ہے۔ وطن عزیز میں جس جگہ بھی زمیندار اور مزارعے کے تعلق میں کچھ توازن پیدا ہوا یا ایک عزت کا رشتہ قائم ہوا جس میں زمیندار مزارعوں کی عزت کرنے پہ مجبور ہوئے وہاں صرف ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ مزارعے اپنے حقوق کے لیے اکھٹے ہو گئے اور زمیندار، خان جی، چوہدری صاحب کو اپنی کمائی ہاتھوں سے نکلتی نظر آئی ۔
پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کہا گیا کہ "بچہ جمہورا گھوم جا”اور بچہ جمہورا نے جواب دیا کہ "نہیں گھومتا "اور اس جواب نے عربچوہدریوں کے تن بدن میں آگ لگا دی ہے۔
قارئین سے گذارش ہے کہ اس کہانی کو ایک کہانی ہی سمجھیں ۔ اس کہانی سے ہرگز یہ مطلب نہ لیں کہ اماراتی وزیرکا بیان کسی زمیندار کا بیان ہے۔ اور ہماری دبی دبی سی وضاحت کسی مزارعے کی مانند ہے۔ اس کتھا سے ہرگز یہ تاثر نہ لیا جائے کہ اماراتی وزیر کا پاکستان کے لیے لب و لہجہ اپنے ” کامے” کو حکم دیتے چوہدری جیسا ہے۔ اور یہ بھی ہرگز نہ سمجھا جائے کہ جب کامے نے کوئی تاویل پیش کرنا چاہی تو چوہدری صاحب نے دھمکی آمیز بیانات صادر کرنا شروع کر دیے۔ کیوں کہ نہ تو ہم کسی کے ” کامے ” ہیں نہ ہی ہمارا کوئی چوہدری ۔اللہ رب العزت نے ہمیں جس بھی مقام سے نوازا ہے اس میں دوست ممالک کی مدد تو یقیناًشامل حال رہی ہے لیکن ہم دوست ممالک کا قرض وقتاً فوقتاً چکاتے بھی رہے ہیں۔
ہمارے یہ نام نہاد چوہدری صاحبان اس زعم میں ہیں کہ ان کے ممالک میں موجود لاکھوں پاکستانیوں کو وطن واپس بھیجا جا سکتا ہےکیوں کہ انہیں مزارعین کہیں سے بھی مل سکتے ہیں لیکن ہمارے چوہدریوں کا مزاج بدلتا جارہا ہے۔پارلیمان کی قرارداد کے بعد جیسا بیان اماراتی وزیر نے دیا ویسا ہی کچھ بیان عرب پارلیمنٹ کے چیئرمین نے بھی دیا ۔ ذرا غور کیجیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ زور پاکستان پر ہی ہے۔ کم و بیش پچاس ممالک ایسے ہی جن میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ تو پھر دباوپاکستان پہ ہی کیوں؟ عرب طبعاً سہل پسند ہیں محنت کی عادت نہیں ۔ تمام خلیجی ممالک اسلحے کی دوڑ میں آگے پیچھے ہیں خود سعودی عرب اسلحہ خریداری میں چند بڑے ملکوں میں شامل ہےاور باقی عرب ممالک بھی اسلحہ ذخائر کے حوالے سے کسی سے کم نہیں ۔ لیکن تمام ممالک سوائے عراق، ایران ، مصر ، لبنان اور چند دوسرے ممالک کے کسی بھی ملک کو جنگ کا نہ تو تجربہ ہے اور نہ ہی ان کی طبیعیت میں سختی جھیلنا ہے۔ دولت کی فراوانی ہے جس کی وجہ سے دوسروں سے کام لینے کی ہمیشہ سے عادت رہی ہے ۔ سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک کے پاس اسلحہ کے انبار تو ہیں لیکن ان کو چلانے والے سخت جان فوجی نہیں ہیںاور چوں کہ پاکستانی افواج ہمیشہ کرائے پر دستیاب رہی ہیں اس لیے توجہ ہم پر ہی رہتی ہے۔ عرب ممالک کی دولت نے شاید ان کی سوچ کے دروازوں پہ قفل لگا دیے ہیں کہ وہ ہمیں پارلیمنٹ کو بائی پاس کرنے کے لیے دھمکیاں دے رہے ہیں۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ اب یہ حالات ہیں کہ متحدہ عرب امارات بھی صرف اس وجہ سے ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے کہ وہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد کام کرتی ہےیا یہ کہ ہمیں عربوں سے آسان شرائط پر تیل مل جاتا ہے۔ اگر نا عاقت اندیش حکمرانوں میں عقل کا مادہ موجود ہوتا تو ملکی وسائل پہ انحصار کرتے ۔ سینڈک، ریکوڈک، گوادر کی ساحلی پٹی اور مکران کے ساحلوں میں چھپے خزانوں کو تلاش کرنے پہ توجہ دیتے تا کہ ہمارے صوبوں کے برابر ممالک ہمیں دھمکیاں نہ دیتے۔ اور ہم یہ کہنے کی جرات رکھتےکہ تمام پاکستانی واپس بھی آ جائیں تو ہم سنبھال لیں گے لیکن ان کا ملک ضرور دیوالیہ ہو جائے گا۔ لیکن ہم ایسا نہیں کہہ سکتے کیوں کہ ” بچہ جمہورا” ہمیشہ سے گھومتا آیا ہے۔ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کہا گیا کہ "بچہ جمہورا گھوم جا”اور بچہ جمہورا نے جواب دیا کہ "نہیں گھومتا "اور اس جواب نے عرب چوہدریوں کے تن بدن میں آگ لگا دی ہے۔
ہمارے یہ نام نہاد چوہدری صاحبان اس زعم میں ہیں کہ ان کے ممالک میں موجود لاکھوں پاکستانیوں کو وطن واپس بھیجا جا سکتا ہےکیوں کہ انہیں مزارعین کہیں سے بھی مل سکتے ہیں لیکن ہمارے چوہدریوں کا مزاج بدلتا جارہا ہے۔پارلیمان کی قرارداد کے بعد جیسا بیان اماراتی وزیر نے دیا ویسا ہی کچھ بیان عرب پارلیمنٹ کے چیئرمین نے بھی دیا ۔ ذرا غور کیجیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ زور پاکستان پر ہی ہے۔ کم و بیش پچاس ممالک ایسے ہی جن میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ تو پھر دباوپاکستان پہ ہی کیوں؟ عرب طبعاً سہل پسند ہیں محنت کی عادت نہیں ۔ تمام خلیجی ممالک اسلحے کی دوڑ میں آگے پیچھے ہیں خود سعودی عرب اسلحہ خریداری میں چند بڑے ملکوں میں شامل ہےاور باقی عرب ممالک بھی اسلحہ ذخائر کے حوالے سے کسی سے کم نہیں ۔ لیکن تمام ممالک سوائے عراق، ایران ، مصر ، لبنان اور چند دوسرے ممالک کے کسی بھی ملک کو جنگ کا نہ تو تجربہ ہے اور نہ ہی ان کی طبیعیت میں سختی جھیلنا ہے۔ دولت کی فراوانی ہے جس کی وجہ سے دوسروں سے کام لینے کی ہمیشہ سے عادت رہی ہے ۔ سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک کے پاس اسلحہ کے انبار تو ہیں لیکن ان کو چلانے والے سخت جان فوجی نہیں ہیںاور چوں کہ پاکستانی افواج ہمیشہ کرائے پر دستیاب رہی ہیں اس لیے توجہ ہم پر ہی رہتی ہے۔ عرب ممالک کی دولت نے شاید ان کی سوچ کے دروازوں پہ قفل لگا دیے ہیں کہ وہ ہمیں پارلیمنٹ کو بائی پاس کرنے کے لیے دھمکیاں دے رہے ہیں۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ اب یہ حالات ہیں کہ متحدہ عرب امارات بھی صرف اس وجہ سے ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے کہ وہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد کام کرتی ہےیا یہ کہ ہمیں عربوں سے آسان شرائط پر تیل مل جاتا ہے۔ اگر نا عاقت اندیش حکمرانوں میں عقل کا مادہ موجود ہوتا تو ملکی وسائل پہ انحصار کرتے ۔ سینڈک، ریکوڈک، گوادر کی ساحلی پٹی اور مکران کے ساحلوں میں چھپے خزانوں کو تلاش کرنے پہ توجہ دیتے تا کہ ہمارے صوبوں کے برابر ممالک ہمیں دھمکیاں نہ دیتے۔ اور ہم یہ کہنے کی جرات رکھتےکہ تمام پاکستانی واپس بھی آ جائیں تو ہم سنبھال لیں گے لیکن ان کا ملک ضرور دیوالیہ ہو جائے گا۔ لیکن ہم ایسا نہیں کہہ سکتے کیوں کہ ” بچہ جمہورا” ہمیشہ سے گھومتا آیا ہے۔ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کہا گیا کہ "بچہ جمہورا گھوم جا”اور بچہ جمہورا نے جواب دیا کہ "نہیں گھومتا "اور اس جواب نے عرب چوہدریوں کے تن بدن میں آگ لگا دی ہے۔
Leave a Reply