سولہ دسمبر۲۰۱۴کےروز پاکستانی قوم جس سانحے سے گذری، اس کی اذیت کو گو ضبط تحریر میں تو نہیں لایا جا سکتا لیکن پھر بھی ان جذبات کی دھول کوقلم کی نظرکر رہا ہوں۔ ایک پشتو کہاوت کے مطابق “جب آپ کی اولاد مرتی ہے تو آپ اسے اپنے دل میں دفن کرتے ہیں، کیونکہ اصل میں تو وہ صرف اسی دن مرتے ہیں جس دن آپ مرتے ہیں۔”ان چھوٹے چھوٹے تابوتوں کا وزن بہت زیادہ تھا، اتنا زیادہ کہ انہوں نے ایک قوم کی کمر توڑ دی۔ اس دن کے بعد سےپورے ملک کے لوگوں کے چہروں سے مسکراہٹ غائب ہے، روزمرہ کے کام بھی نمٹانا بھاری لگ رہا ہے۔ ہر فرد چاہے وہ امیر ہو یا غریب، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ اس کا تعلق کراچی سے ہویا کوئٹہ سے، وہ لاہور کا رہنے والا ہویا اسلام آباد کا سب کے جذبات ایک تھے، پوری قوم سکتے میں گنگ کھڑی تھی۔ شائد 16 دسمبر کی تاریخ ہی اس قوم کے لئے ایسا پیام لاتی ہے جس میں کبھی مشرقی بازو الگ ہونے کی دلخراش خبر سننے کو ملتی ہے تو کبھی ایک ایسا انسانی المیہ جس کی مہذب تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہ اس قوم کا فرض ہے کہ دہشتگردی اور شدت پسندی کو جڑ سےاکھاڑ پھینکے، یہ محض ایک فرض ہی نہیں 132 بچوں کا 18 کروڑ سے زائد پاکستانیوں پر قرض بھی ہے۔
جب آپ کی اولاد مرتی ہے تو آپ اسے اپنے دل میں دفن کرتے ہیں، کیونکہ اصل میں تو وہ صرف اسی دن مرتے ہیں جس دن آپ مرتے ہیں۔
اس سانحے کے بعد قومی قیادت اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ایک میز پر بیٹھ گئی ہے اور ملک میں احتجاجی تحریک کے لیڈر جناب عمران خان صاحب نے اپنے طویل دھرنے کو ختم کرنے اور حکومت سے اس مسئلے کے حل کے لئے اپنے بھرپور تعاون کا اعلان کیا ۔آج ان کی جماعت نے تحریک طالبان پاکستان سمیت تمام دہشت گرد گروہوں کی مذمت کر کے مجھ سمیت اپنے ہزاروں ناقدین کے دل میں اپنی قدرومنزلت کئی گنا بڑھا لی ہے۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ وزیراعظم سمیت اس ملک کے مقتدر حلقوں پر ایک ایسی بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے جس کے بوجھ کو اگرصحیح طرح نہ اٹھایا گیا تو دہشت گردوں کے خلاف قومی اتفاق رائے مٹی میں مل جائے گا۔ قوموں کی زندگی میں ایسے رونما ہونے والے واقعات کو بھلایا نہیں جاتا بلکہ ان کی یاد کو ہردم تازہ رکھا جاتا ہے، ایسے زخموں پرمرحم نہیں لگاتے کیوں کہ یہ تکلیف کا احساس ہی تواس عظیم فرض کی یاد ہے جس کا بیڑا اٹھایا گیا ہے۔اس سانحے کی اذیت کو ہم نے اپنے دلوں سے ختم نہیں ہونے دینا کیونکہ یہی اذیت ، غم اور بے بسی ہمارے عزم اور استقلال میں آنے والی لغزش کے لمحات میں ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو سہارا دے گی۔ اب اس ملک کی عسکری وسیاسی قیادت کےمطمع نظر صرف ایک ہی مسئلہ ہونا چاہیےاوروہ ہے دہشتگردی، کیوں کہ دہشت گردی اورشدت پسندی کاتدارک کیے بغیر جمہوریت اور معیشت کا استحکام اور بحالی بھی ممکن نہیں۔
اس سانحے کی اذیت کو ہم نے اپنے دلوں سے ختم نہیں ہونے دینا کیونکہ یہی اذیت ، غم اور بے بسی ہمارے عزم اور استقلال میں آنے والی لغزش کے لمحات میں ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو سہارا دے گی۔
سب سے پہلا کام جو سیاسی قیادت نے اپنے ذمہ لیا ہے وہ دہشتگردی کے خلاف ایکشن پلان کی تشکیل ہے اور وہ بھی سات دنوں کے اندر۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ سیاسی قیادت کو اس بات کا ادراک ہے کہ دہشتگردی کے خلاف کسی بھی قسم کی پالیسی اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک سیاسی و عسکری قیادت ایک نقطےپر متفق نہ ہو۔ اسی چیز کو مدنظررکھتے ہوۓ وزیرداخلہ کی سربراہی میں قائم کمیٹی میں فوج اور انٹیلی جنس اداروں کے نمائندوں کو بھی شامل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور وزیراعظم کےاعلان کے مطابق اس پلان کوسیاسی وعسکری قیادت مل کرقوم کے سامنے پیش کرے گی۔ میں ہی کیا پوری قوم ہی چاہے گی کہ جب یہ پالیسی قوم کے سامنے پیش کی جائے تو یہ تقریب اسلام آباد کے ایوانوں میں ہو اورنہ ہی پشاورکے گورنرہاؤس میں بلکہ اس تقریب کا مقام آرمی پبلک اسکول وارسک روڈ پشاورکا میدان ہو تاکہ 142 شہدا گواہ رہیں۔ بعض رہنما اوسط درجے کے ہوتے ہیں اورمجھےیہ کہنے میں کوئی عارنہیں کہ پاکستان کے تمام سیاسی رہنما اوسط درجے کی صلاحیتوں کے حامل ہیں لیکن ایسے حالات وواقعات میں کےکیےگئے فیصلےاورمنصوبہ سازی ان اوسط درجے کے رہنماوں کو بھی تاریخ میں زندہ رکھنےکاباعث بن سکتےہیں۔ کاش مسلم لیگ ن کی قیادت بھی اپنے روایتی تساہل اورتذبذب کوبالائے طاق رکھ کرملکی بقا کے لئے اپنا کردارادا کرسکے۔
دیکھنا یہ ہےکہ اس عملی منصوبےاورآئندہ کےایک دوماہ میں ہونےوالے فیصلوں کے ذریعے کیا صرف مخصوص دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے یا پھرتمام دہشت گردوں خصوصاًفرقہ وارانہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف بلاامتیاز کاروائی کی جائےگی۔ دہشت گردی کے خلاف کوئی بھی ایسی پالیسی جو فرقہ واریت کی جڑپروارنہ کرسکے، نصاب پر نظر ثانی نہ کر ے، مساجد کے منبرکے تقدس کی پامالی کو نہ روک سکےاورملک میں مذہبی تعلیم کا کوئی منظم ومربوط نظام کا خاکہ نہ پیش کر سکے وہ پالیسی ردی کی ٹوکری کی نظرہوجائےتو بہترہے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم بطور قوم یہ فیصلہ کر لیں کہ شدت پسندی اور دہشت گردی کی تمام اشکال کو مٹا دیا جائے گا چاہے اس میں ہمارے ‘اثاثے’ مارے جائیں یا فی الحال ‘ریٹائرمنٹ’ کی زندگی گزارنے والے جہادی اس کی نظر ہو جائیں۔ پاکستانی قوم کوآرمی پبلک سکول وارسک روڈ پشاورکے شہداء کا قرض اتارناہوگا ورنہ نجانے کتنےاورسانحات منہ پھاڑے کھڑے ہیں کیا آپ میں صرف ایک، میں پھر کہتا ہوں کہ کیا صرف ایک اور سولہ دسمبر کا حوصلہ ہے؟؟ مجھ میں تو نہیں ہے ۔
دیکھنا یہ ہےکہ اس عملی منصوبےاورآئندہ کےایک دوماہ میں ہونےوالے فیصلوں کے ذریعے کیا صرف مخصوص دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے یا پھرتمام دہشت گردوں خصوصاًفرقہ وارانہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف بلاامتیاز کاروائی کی جائےگی۔ دہشت گردی کے خلاف کوئی بھی ایسی پالیسی جو فرقہ واریت کی جڑپروارنہ کرسکے، نصاب پر نظر ثانی نہ کر ے، مساجد کے منبرکے تقدس کی پامالی کو نہ روک سکےاورملک میں مذہبی تعلیم کا کوئی منظم ومربوط نظام کا خاکہ نہ پیش کر سکے وہ پالیسی ردی کی ٹوکری کی نظرہوجائےتو بہترہے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم بطور قوم یہ فیصلہ کر لیں کہ شدت پسندی اور دہشت گردی کی تمام اشکال کو مٹا دیا جائے گا چاہے اس میں ہمارے ‘اثاثے’ مارے جائیں یا فی الحال ‘ریٹائرمنٹ’ کی زندگی گزارنے والے جہادی اس کی نظر ہو جائیں۔ پاکستانی قوم کوآرمی پبلک سکول وارسک روڈ پشاورکے شہداء کا قرض اتارناہوگا ورنہ نجانے کتنےاورسانحات منہ پھاڑے کھڑے ہیں کیا آپ میں صرف ایک، میں پھر کہتا ہوں کہ کیا صرف ایک اور سولہ دسمبر کا حوصلہ ہے؟؟ مجھ میں تو نہیں ہے ۔