یہ اس مضمون کا دوسرا حصہ ہے، پہلا حصہ پڑھنے کے لیے کلک کریں۔
چند عام مفروضے جو غلط ہیں
1۔ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا
بچوں کاجنسی استحصال ایک عام برائی ہے جسے تسلیم کرنے سے اکثر انکار کیا جاتا ہے کیو ں کہ زیادہ تر متاثرین یا تو خاموشی اختیار کرلیتے ہیں یا پھر جنسی استحصال کی مختلف صورتوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔یہ ممکن ہے کہ ہمارے بچوں کو جنسی استحصال کی صورتوں میں سے کسی ایک یا زائدکا ایک یا ایک سے زائد بارسامنا کرنا پڑا ہواور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سلسلہ کافی عرصے سے چلا آرہا ہو۔
2۔ ایسا عام طور پر اجنبی کرتے ہیں
جنسی استحصال اور ہراسانی کے زیادہ تر واقعات میں عموماً وہ لوگ ملوث پائے گئے ہیں جو بچے یا اس کے والدین کے جاننے والے تھے، جیسے رشتے دار،والدین کے دوست،اساتذہ، پڑوسی، ملازمین وغیرہ۔بعض افسوسناک وقعات میں والدین یا ان میں سے کوئی ایک بھی اس میں ملوث پایا گیا ہے۔اگر مجرم خاندان کا حصہ ہو تو اسے تنہائی کے مواقع زیادہ ملنے کی صورت میں یہ استحصال اپنی نہایت کو پہنچ سکتا ہے۔وہ افراد جن سے احترام کا رشتہ ہو یا والدین ان پر بھروسہ کرتے ہوں وہ بھی ابچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا سکتے ہیں جیسے استاد، والدین کے دوست اور رشتے دار وغیرہ۔ ایسے واقعات کا ایک سبب والدین کی حد سے بڑھی ہوئی لاپرواہی یا دوسروں پربےجا اعتماد ہے۔خاندان کے ارکان یا قابل بھروسہ افراد کی جانب سے جنسی استحصال اور ہراسانی کا سامنا کرنے والے بچے عموماً خاموش رہتے ہیں اور اس حوالے سے بات کرتے گھبراتے ہیں۔
بچوں کو جنسی استحصال کی مختلف صورتوں، جنسی بیماریوں اور محفوظ جنسی عمل سے سے آگاہ کرناجنسی استحصال کی روک تھام میں بے حد معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
3۔ جنسی تعلیم سے بے راہروی پھیلتی ہے
جنسی عمل سے متعلق نامکمل یا منفی معلومات بھی اس صورت حال کی پردہ پوشی کا سبب بن سکتی ہیں۔بچوں کو جنسی استحصال کی مختلف صورتوں، جنسی بیماریوں اور محفوظ جنسی عمل سے سے آگاہ کرناجنسی استحصال کی روک تھام میں بے حد معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
4۔ ایسا لڑکوں کے ساتھ نہیں ہوتا
یہ تاثر غلط ہے کہ جنسی استحصال کا شکار صرف لڑکیاں ہوتی ہیں، اگرچہ بچیوں کے ساتھ ایسے واقعات کی شرح نسبتاً زیادہ ہے تاہم لڑکوں کو بھی جنسی بدسلوکی کا سامناکرنا پڑتا ہے۔
5۔ اس کی وجہ بے پردگی یا مخلوط اجتماعات ہیں
جنسی استحصال اور ہراسانی کا تعلق لباس، جسم ڈھانپنے یا مخلوط اجتماعات سے نہیں بلکہ اس کی عمومی وجوہ نفسیاتی بیماریاں،جنسی گھٹن اور پدرسری روایات ہیں۔
6۔ ایسا کرنے والے نفسیاتی مریض ہوتے ہیں
یہ بات درست ہے کہ بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے بعض افراد پیڈوفیلیا کا شکار ہوتے ہیں لیکن ایسا ضروری نہیں۔ بہت سے جنسی استحصال کرنے والے افراد عام حالات میں بالکل نارمل ہوتے ہیں ۔
والدین یا سرپرستوں کا رویہ:
اس صورت حال میں والدین کا رویہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ عموما والدین کی لاپرواہی ، عدم توجہی، اور بچوں کے ساتھ غیردوستانہ برتاؤ ایسے واقعات کو سامنے لانے اور ان کے سدباب میں روکاوٹ بن جاتے ہیں۔بچے توجہ کے متلاشی ہوتے ہیں، وہ اچھی یا بری نیت کا فرق نہیں جان پاتے اور جب کسی قدر ادراک کے قابل ہوتے ہیں تو بات کافی آگے بڑھ چکی ہوتی ہے۔ والدین کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کی نا صرف حرکات و سکنات کا بغور مشاہدہ کریں بلکہ ان سے بات چیت بھی کریں۔ اگر بچے اس قسم کے شبہات کا اظہار کریں یا کسی پر ایسا الزام عائد کریں ،کچھ مخصوص لوگوں کے سامنے آنے سے گریز کرتے ہوں یا ربط و ضبط کی صورت میں احتراز یا خوف کا مظاہرہ کریں تو اسے ہرگز نظر انداز نہ کیا جائے۔ والدین بچوں کو اعتماد میں لیں اور ان پر اپنے رویے سے واضح کریں کہ وہ ان کی رائے کو اہمیت دیتے اور ان کی بات کا یقین رکھتے ہیں۔ جنسی استحصال کا شکار بچوں کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دینا انہیں احساس جرم میں مبتلا کر سکتا ہے۔ فی زمانہ بچوں کے جنسی استحصال اور بچوں پر جنسی زیادتی جیسے جو واقعات تواتر سے سننے میں آرہے ہیں اس کے تدارک کے لیے بالخصوص والدین کو بہت ضبط اور سمجھ داری کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔
اہم علامات:
بچے جن کا جسمانی، جذباتی یا جنسی استحصال ہورہا ہو یا ہوتا رہا ہو اس کا بروقت پتا لگانے کے لیے والدین کو درج ذیل علامات کے تناظر میں بچوں کا مشاہدہ کرنا ہوگا۔
جسمانی علامات:
وزن میں اچانک اور بڑی تبدیلی واقع ہونا، بالعموم کمزور ہوتا جانا۔
اٹھنے بیٹھنے یا چلنے میں دشواری کا سامنا
زیرجاموں کا داغ دار، خون آلود یا پھٹا ہوا ہونا
تناسلی اعضا کے بیرونی حصوں میں زخم، سوجن یا نیل وغیرہ کی موجودگی
اعضائے تناسل میں درد خارش یا جلن ہونا
سر درد یا معدے پیٹ اور پیڑو کے اطراف درد کی شکایت ہونا
پیشاب میں انفیکشن وغیرہ
جنسی طور پر منتقل ہونے والی انفیکشنز بالخصوص ۱۴ سال کی عمر سے
حمل ٹھہر جانا (لڑکیوں میں خصوصاً 14 سال کی عمر سے)
رویہ جاتی علامات:
جنسی استحصال کی واضح یا دبے دبے لفظوں میں شکایت کرنا
عمر کی مناسبت سے زائد جنسی نوعیت کی معلومات کا ہونا
نامناسب جنسی رویہ جیسے اپنے یا دوسروں کے جنسی اعضا کے حوالے سے بہت زیادہ تجسس کا مظاہرہ یا اعضائے جنسی کو بار بار چھونا وغیرہ
سوتے میں ڈر جانا یا بستر پر پیشاب کر دینا
سونے یا کھانے پینے کے معمولات میں خرابی
بھوک کی اشتہا میں تبدیلی واقع ہونا
بہت گندا رہنا یا ضرورت سے زائد نہانا دھونا
مخصوص لوگوں سے ملتے ہوئے اپنے آپ میں سمٹ جانا، احتراز یا گریز کا رویہ اپنانا
اپنے چھوٹوں کی حفاظت کے لیے ایک دم محتاط ہوجا نا اور ان کے معمولات کو نظر میں رکھنا
جذباتی ہیجان اور رد عمل:
معمولات زندگی سے لاتعلقی
ڈپریشن
خودکشی کی کوشش یا خود کو نقصان پہنچانے پر مائل ہونا( خصوصاً نوبلوغت میں ایسا رویہ بھی سامنے آیا ہے)
خود کو جسمانی ایذا دینا جیسے، ہاتھ پاؤں وغیرہ کو بلیڈ سے کاٹ لینا
تعلیمی اعتبار سے تنزلی جیسے اسکول سے غیر حاضری یا پڑھائی میں عدم دلچسپی
احساس جرم میں مبتلا نظر آنا
مراجعتی رویے جیسے انگوٹھا چوسنا، انگلیاں چٹخانا، اضطراب کا شکار نظر آنا
الجھن کا شکار رہنا، بہت چڑچڑا اور غصیلا ہوجانا یا بہت تنہائی پسند ہوجانا
 
مذکورہ بالا علامات کے موجود ہونے کی صورت میں بچوں کو بٹھا کر ان سے پیار محبت سے بات کی جائے، یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ درج بالا علامات میں سے بیشتر کسی جسمانی یا نفسیاتی عارضے کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہیں لازمی نہیں کہ ان کی تہہ میں جنسی استحصال کے واقعات ہی ہوں لیکن ان علامات کے نظر آنے پر نرمی سے بچوں سے بات کرنا ضروری ہے۔جنسی استحصال کی شکایت پر والدین بچوں پر الزام لگانے سے گریز کرتے ہوئے بنا کسی کا نام لیے مختلف لوگوں کے بارے میں ان کی رائے جاننے کی کوشش کریں، ان کے رحجانات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ دوران بات چیت بچے کے رویے کا بغور مشاہدہ کرنا ہوگا۔ اگر بچے کترا رہے ہوں، کسی الجھن کا شکار ہوں یا خوف زدہ محسوس ہوں تو ان کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ بچے ایک ہی نشست میں سب کچھ نہیں بتا دیں گے، بلکہ والدین کو پہلے اپنے اور بچے کے درمیان دوستی اور اعتماد کی فضا ہموار کرنی ہوگی۔ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ باہمی دلچسپیوں کے امور پر بات کی جائے تا کہ وہ آپ پر اعتماد کر سکیں ۔

 

مدرسوں اور اقامتی اداروں میں زیرتعلیم بچے بچیوں کی ایسی شکایتوں کو محض تعلیم سے فرار کی ایک کوشش پر محمول کیا جاتا ہے اور اسی کا یہ خوفناک نتیجہ ہے کہ آج مدرسوں میں اساتذہ کے ہاتھوں بچوں کے جنسی استحصال اور جنسی زیادتی کے واقعات کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
ڈانٹ پھٹکار ،مار کے خوف یا شرم و جھجک کے باعث عموماً بچے ایسی باتیں شیئر نہیں کر پاتے اور اندرونی گھٹن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں بچوں کو ہمیشہ بڑوں کی تابع داری اور احترام ہی سکھایا جاتا ہے، اکثر اوقات بچوں پر مار پیٹ اور ڈانٹ دپٹ کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خوف کی زیادتی ان کو زبان بندی پر مجبور کرتی ہے یا پھر وہ کسی نوع کے جنسی استحصال کی شناخت ہی نہیں کر پاتے۔ مدرسوں اور اقامتی اداروں میں زیرتعلیم بچے بچیوں کی ایسی شکایتوں کو محض تعلیم سے فرار کی ایک کوشش پر محمول کیا جاتا ہے اور اسی کا یہ خوفناک نتیجہ ہے کہ آج مدرسوں میں اساتذہ کے ہاتھوں بچوں کے جنسی استحصال اور جنسی زیادتی کے واقعات کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
معاشرہ بچوں کو جن اعلیٰ اخلاقی اصولوں کی تربیت دیتا ہے ان میں سے اکثر بڑوں کی ہر زیادتی کے جواب میں بچوں کو خاموش رہنا سکھاتے ہیں۔ اجنبیوں کو راستہ بتانا، اہل محلہ کو سودا سلف لا کر دینا پسندیدہ افعال ضرور ہیں لیکن بچوں پر کیے جانے والے مجرمانہ حملوں کی بڑھتی تعداد یہ درس دیتی نظر آتی ہے کہ بچوں کو اب مزید خاموش رہنا نہ سکھایا جائے۔ اجنبیوں سے بات چیت سے گریز اور تعلقات میں احتیاط کا برتاؤ سکھایا جائے۔ بچوں کے استحصال کے بہت سے واقعات میں دکاندار اور سیلزمین بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ بچوں کو ٹافیوں یا کسی دوسری مرغوب چیز کا لالچ دے کر دکان کے اندرونی حصوں میں لے جانا اور بہانے سے ان کے اعضائے جنسی کو چھونا اور ربط ضبط بڑھا کر جنسی تعلقات قائم کر لینے اور افشائے راز کے خوف سے بچوں کے قتل کی صورتیں بھی پائی گئی ہیں۔
بچوں پر دست درازی ثابت کی صورت میں قانونی چارہ جوئی ازحد ضروری ہے، خاموشی اختیار کرنا دراصل مجرم کی پشت پناہی کے مترادف ہے۔
والدین کو عام زندگی میں بھی اپنے اور بچوں کے درمیان فاصلوں کو سمیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے ، خاص طور پہ بچوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے انھیں مناسب لفظوں میں ان کے جسم کا شعور دیا جائے۔ شرم و حیا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کو واضح طور پہ سمجھایا جائے کہ ان کے جسم کے حساس مقامات کون سے ہیں جن کی حفاظت لازمی ہے۔ بچوں میں اعتماد اجاگر کرنا کہ کسی قسم کی جنسی زیادتی کی صورت میں خاموش نہ رہیں، بلکہ سب سے پہلے والدین کو بتائیں ، یا ان کی عدم موجودگی میں کسی دوسرے عزیز کو یا عدم شنوائی کی صورت میں تیسرے چوتھے جو بھی افراد میسر آئیں ان کو ضرور بتائیں ۔
قانونی چارہ جوئی:
بچوں پر دست درازی ثابت ہونے کی صورت میں قانونی چارہ جوئی ازحد ضروری ہے، خاموشی اختیار کرنا دراصل مجرم کی پشت پناہی کے مترادف ہے۔ ہمارے معاشرے میں جرم اور مجرم کا خوف اور اس سے بھی بڑھ کے بدنامی کا خوف ایسا محرک ہے جو والدین کو زبان بندی پر مجبور کرتا ہے۔ بعض اوقات اس جرم کے قانونی پہلوؤں سے ناواقفیت بھی خاموشی کا سبب بنتی ہےاسی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کا حوصلہ شکن رویہ بھی رکاوٹ بنتا ہے۔
بچوں کے تحفظ کے مناسب قوانین نہ ہونے کے باعث بھی ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، موجودہ قوانین کے مطابق بچوں کے جنسی استحصال کی سزا جرم کی نوعیت کے اعتبار سے سات سال قید محض اور قید مع جرمانہ بھی ہوسکتی ہے۔
کس سے رابطہ کریں:
ذیل میں بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف کام کرنے والی چند تنظیموں کے نام اور رابطہ نمبر دیے جا رہے ہیں۔ یہ تنظیمیں قانونی معاونت کے علاوہ بچوں کو معمول کی زندگی کی طرف واپس لانے کے لیے مشاورت بھی فراہم کرتے ہیں۔
(ان تنظیموں کے نام نیک نیتی کے جذبے کے تحت شائع کیے جا رہے ہیں اس کا مقصد کسی قسم کی تشہیر نہیں اور نہ ہی لالٹین میگزین رابطہ کیے جانے پر ان اداروں کے ردعمل کا ذمہ دار ہے۔)
جنسی استحصال کی صورت میں مددگار ادارے:
۱۔ ساحل (ہر بچہ محفوظ)
رابطہ: آفس نمبر 13، فرسٹ فلور، ال بابر سینٹر، ایف ۔8 ، مرکز، اسلام آباد، پاکستان۔ فون:(92-51) 2260636, 2856950
۲۔ سوسائیٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چلڈرنز ( SPARC)
رابطہ: 151 ۔بی، اسٹریٹ ۔37، ایف۔ 1/ 10 ، اسلام آباد پاکستان۔ فون: 2291553، 2291559 (92-51)
(دیگر شہروں میں بھی اس تنظیم کے دفاتر موجود ہیں جن کاپتہ ان نمبرز سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔)
۳۔ سیو دا چلڈرنز۔ پاکستان
پاکستان پروگرام کنٹری آفس: مکان نمبر 78، مین مارگلہ روڈ، ایف 2/6، اسلام آباد پاکستان۔ فون: 2871527، 2871517 (92-51)
۴۔ چلڈرن کیئر فاؤنڈیشن، پاکستان
رابطہ: A-6, A-E، 105 نیو سپر ٹاؤن، ڈیفینس، مین بلیوارڈ لاہور۔ فون: 36621031 (42-92)
۵۔ الائنس فار دی رائٹس آف دی چلڈرن ( ARC)
رابطہ: F-178/3، بلاک 5 ، کہکشاں، کلفٹن، کراچی، پاکستان۔ فون: 35867300 (21-92)

One Response

  1. Kashif Ali

    Complete information
    Good step i would like to appreciate for this issue which usually don’t like to share or discusse.
    Good effort

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: