ہمارے ملک میں بچوں سے مشقت لینے کا رحجان ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے تدارک کے لیے ہر ایک کو متحرک ہونا چاہیئے۔ بچے جنت کے پھول ہیں خالق کائنات کی سب سے زیادہ خوبصورت اور پیاری مخلوق ہیں، معصوم ہیں اور اس روئے زمین کا حسن ہیں۔ جب یہی بچے خاندان کی معاشی کفالت کے لیے مزدوری پرمجبو ر ہوتے ہیں تو اپنا بچپن کھو دیتے ہیں۔ ایسے بچے بچپن کی خوشیوں اور تعلیم کے بنیادی حق سمیت تمام حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی تعریف کے مطابق ایسی تمام مشقت جو بچےکوبچپن سے محروم کرے، تعلیم کی راہ میں روکاوٹ بنے، ان کی جسمانی یا ذہنی افزائش کی راہ میں حائل ہو یا بچے کے لیے ذہنی، سماجی یا جسمانی طور پر نقصان دہ ہوبچوں سے مشقت کے زمرے میں آتا ہے۔ بچے عموماً بہت کم تنخواہ پرکام کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق چائلڈ لیبر ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے، ایشیائی ممالک کی افرادی قوت کا دسواں حصہ بچوں پرمشتمل ہے۔ مختلف صنعتوں سے وابستہ بچوں کی تعداد پاکستان میں44لاکھ ہے جن میں پانچ سے چودہ برس کے بچے شامل ہیں ۔
کاشتکاری،کان کنی، صنعتی مزدوری اور غیر رسمی معیشت میں بچوں کو تیز دھار آلات اور بھاری مشینری کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بچوں سے مشقت کا مسئلہ اس لحاظ سے بھی سگین ہے کہ یہاں انتہائی خطرناک شعبو ں میں بھی بچے کام کرتے ہیں۔ کاشتکاری،کان کنی، صنعتی مزدوری اور غیر رسمی معیشت میں بچوں کو تیز دھار آلات اور بھاری مشینری کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ چارہ کاٹنے کی مشین، دھات کاٹنے کے آلات ، پتھر پیسنے کے کارخانوں اور 50 وولٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والے آلات پر بچوں کو اپنی طاقت سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ چمڑا رنگنے ، سیمنٹ سازی، پٹرولیم مصنوعات کی فروخت ، دھات کاری ، کیمیکل سازی اور جہاز سازی جیسی
صنعتوں میں کام کرنے والے بچوں کو ہر وقت زہریلے اوردھماکہ خیز مواد کے قریب رہنا پڑتا ہے۔ ان صنعتوں سے خارج ہونے والے دھوئیں اور زہریلے مرکبات کا سامنا کرنے کی وجہ سے ان بچوں کی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ ماحول مشقت کرنے والے بچوں کوتمباکو،نسوار اور منشیات کے استعمال کا عادی بنا دیتا ہے۔
بچوں سے مزدوری لینے کی ایک بڑی وجہ ان کی کم اجرت پر دستیابی ہے۔ غریب گھرانوں میں معاشی تنگی کی وجہ سے بچوں کو مزدوری کے لیے بھیجا جاتا ہے اور یہ عمل طلب اور رسدکے خود کارنظام کے تحت جاری ہے ۔ بچپن میں ہی بچے اپنی زندگی خود جینے کی بجائے دوسروں کے حساب سے جینے پر مجبور ہوتے ہیں۔بچپن کی زندگی میں خاص اور سب سے خوشی کا لمحہ وہ ہوتا ہے جب ایک بچہ اپنی مرضی سے کچھ کرتاہے۔ لیکن جب ان کے اپنے والدین انہیں بچپن سے ہی کام یعنی مزدوری پرلگا دیتے ہیں تو ان کے احساسات، خواہشات، احساس خود مختاری اورذہنی شعورسب تباہ و برباد ہوجاتاہے ۔ بچپن تمام بچوں کا پیدائشی حق ہے جو والدین کی محبت اور دیکھ بھال میں سب کو ملنا چاہیئے۔
بچوں کو بڑوں کی طرح رہنے اور مشقت کرنے پر مجبور کیا جانا ایک المیہ ہے۔ اس کی وجہ سے بچے ذہنی و جسمانی افزائش کے فطری عمل سے محروم ہوجاتے ہیں۔ بچوں سے مشقت لینے کی روک تھام کے لیے قانون سازی کے باوجود بھی یہ مسئلہ ایک ناسور کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ذمہ داری پورے معاشرے خصوصاً سماجی تنظیموں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ عام طور پر غربت او ر آبادی میں بے تحاشہ اضافے کے باعث ترقی پذیر ممالک میں بچوں سے مشقت لینے کا رحجان عام ہورہاہے۔ بچوں سے مشقت کا معاملہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ کسی بھی ملک کی سماجی اور معاشی ترقی میں بچوں سے مشقت لینے کا مسئلہ ایک بڑی روکاوٹ ہے۔صحت مند بچے کسی بھی ملک کے لیے روشن مستقبل اور طاقت ہوتے ہیں اس لیے بچوں سے مشقت لینے کا عمل ملک کے مستقبل کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
صنعتوں میں کام کرنے والے بچوں کو ہر وقت زہریلے اوردھماکہ خیز مواد کے قریب رہنا پڑتا ہے۔ ان صنعتوں سے خارج ہونے والے دھوئیں اور زہریلے مرکبات کا سامنا کرنے کی وجہ سے ان بچوں کی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ ماحول مشقت کرنے والے بچوں کوتمباکو،نسوار اور منشیات کے استعمال کا عادی بنا دیتا ہے۔
بچوں سے مزدوری لینے کی ایک بڑی وجہ ان کی کم اجرت پر دستیابی ہے۔ غریب گھرانوں میں معاشی تنگی کی وجہ سے بچوں کو مزدوری کے لیے بھیجا جاتا ہے اور یہ عمل طلب اور رسدکے خود کارنظام کے تحت جاری ہے ۔ بچپن میں ہی بچے اپنی زندگی خود جینے کی بجائے دوسروں کے حساب سے جینے پر مجبور ہوتے ہیں۔بچپن کی زندگی میں خاص اور سب سے خوشی کا لمحہ وہ ہوتا ہے جب ایک بچہ اپنی مرضی سے کچھ کرتاہے۔ لیکن جب ان کے اپنے والدین انہیں بچپن سے ہی کام یعنی مزدوری پرلگا دیتے ہیں تو ان کے احساسات، خواہشات، احساس خود مختاری اورذہنی شعورسب تباہ و برباد ہوجاتاہے ۔ بچپن تمام بچوں کا پیدائشی حق ہے جو والدین کی محبت اور دیکھ بھال میں سب کو ملنا چاہیئے۔
بچوں کو بڑوں کی طرح رہنے اور مشقت کرنے پر مجبور کیا جانا ایک المیہ ہے۔ اس کی وجہ سے بچے ذہنی و جسمانی افزائش کے فطری عمل سے محروم ہوجاتے ہیں۔ بچوں سے مشقت لینے کی روک تھام کے لیے قانون سازی کے باوجود بھی یہ مسئلہ ایک ناسور کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ذمہ داری پورے معاشرے خصوصاً سماجی تنظیموں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ عام طور پر غربت او ر آبادی میں بے تحاشہ اضافے کے باعث ترقی پذیر ممالک میں بچوں سے مشقت لینے کا رحجان عام ہورہاہے۔ بچوں سے مشقت کا معاملہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ کسی بھی ملک کی سماجی اور معاشی ترقی میں بچوں سے مشقت لینے کا مسئلہ ایک بڑی روکاوٹ ہے۔صحت مند بچے کسی بھی ملک کے لیے روشن مستقبل اور طاقت ہوتے ہیں اس لیے بچوں سے مشقت لینے کا عمل ملک کے مستقبل کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
بچوں کو بڑوں کی طرح رہنے اور مشقت کرنے پر مجبورکیا جانا ایک المیہ ہے۔ اس کی وجہ سے بچے ذہنی و جسمانی افزائش کے فطری عمل سے محروم ہو جاتے ہیں۔
والدین اپنے بچوں کو مزدوری پرلگا کر اپنی ذمہ داری سے فرار اختیارکرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ان کے بچوں کو محبت اور پرورش کی ضرورت ہوتی ہے، انہیں باقاعدہ اسکول جانے اور ایک صحت مند ماحول میں بڑا ہونے کے لیے دوستوں کے ساتھ کھیلنے کی ضرورت ہے۔ بچوں سے کام کرانے والے ماں باپ سوچتے ہیں کہ بچے ان کی جاگیر ہیں اور وہ انہیں اپنے حساب سے استعمال کرسکتے ہیں۔ والدین کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ ملک کے مستقبل کو روشن بنانے کے لیے انہیں اپنے بچوں کو ہر طرح سے صحت مند بنانا چاہیئے لیکن بیشتر والدین غربت کی وجہ سے ایسا نہیں کرپاتے۔ پوری دنیا میں بچوں سے مشقت لینے کی بنیادی وجہ غربت، والدین کی کم آمدنی، بے روزگاری، سماجی نا انصافی، پسماندگی اورکمزور قانون ہے۔اس کے حل اوراس کو جڑ سے مٹانے کے لیے حکومت کو سخت قوانین بنانے چاہئیں ضروری ہے کہ ان قوانین پرسختی عمل بھی ہوبچوں سے مزدوری لینے والوں کو اس حوالے سے آگاہ کیا جانا چاہیئے۔
Leave a Reply