[blockquote style=”3″]
سر سیرل ریڈ کلف جب ہندوستان آیا تو اسے ایک اجنبی سرزمین کی تقسیم اور انہیں اقتدار کی منتقلی کے لیے بھیجا گیا تھا۔ تقسیم اور انتقالِ اقتدار کے لیے اس کے پاس محض پانچ ہفتے کا وقت تھا۔ ریڈ کلف کے ریڈ کلف کو بہت سے لوگ تقسیم کے دوران ہونے والے خون خرابے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور ہندوستان اور پاکستان دونوں کی جانب سے اس پر جانبداری کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ آڈن کی یہ نظم ریڈکلف کے فیصلوں اور تقسیم کے عمل میں اس کے کردار پر ایک زبردست تنقید ہے۔ یہ نظم طنزیہ آہنگ میں ہے اور یہ 1966 میں لکھی گئی۔
[/blockquote]
[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
بٹوارہ اُس برّعظیم کا
[/vc_column_text][vc_column_text]
شاعر: ڈبلیو ایچ آڈن
مترجم: یاسر چٹھا
مترجم: یاسر چٹھا
جب اس (ریڈ کلف) نے اپنے اہم مقصد کے لئے اس سر زمین پر قدم رکھے
تو کم از کم اس وقت تک
وہ کسی کا طرفدار نہ تھا
اسے اس سر زمین کے حصے بخرے کرنے کو بھیجا گیا
جس کو اس نے کبھی بُھولے سے بھی دیکھا نہ تھا
وہ ان دو قوموں کے درمیان منصفی کرنے کے محال کام سے دو چار تھا
جو باہم خطرناک حریف تھے
ان کے بیچ اُسے منصفی کرنا تھی
جن کی غذائین باہم مختلف تھیں
جن کے معبود قطعی طور پر آپسی میل تک نہیں کھاتے تھے
لندن میں ہی اسے بتا دیا گیا کہ
"وقت بہت ہی کم ہے،
بلکہ یہ اس نہج پر ہے کہ
صلح و تفہیم کا کوئی امکان باقی نہیں،
اب کسی عقل کو ہاتھ مارنے کا محل باقی نہیں۔
وقت اور حالات نے اب صرف
بَٹوارہ ہی مقدر ٹھہرا دیا ہے۔
وائسرائے کا بھی یہی خیال ہے
اور اس کا اپنے نام کے خط میں بھی
یہی لکھا پاؤ گے
کہ وائسرائے سے جس قدر دُوری پر رہو گے،
بھلے میں رہو گے۔
سو ہم نے آپ کے لئے الگ قیام گاہ کا بندو بست کیا ہے۔
ہم آپ کو مدد و مشورہ کے لئے چار جج دیں گے؛ دو مسلمان اور دو ہندو
لیکن کہیں بھول نا جائے کہ
قولِ فیصل آپ کو ہی سزاوار ہے۔”
تو کم از کم اس وقت تک
وہ کسی کا طرفدار نہ تھا
اسے اس سر زمین کے حصے بخرے کرنے کو بھیجا گیا
جس کو اس نے کبھی بُھولے سے بھی دیکھا نہ تھا
وہ ان دو قوموں کے درمیان منصفی کرنے کے محال کام سے دو چار تھا
جو باہم خطرناک حریف تھے
ان کے بیچ اُسے منصفی کرنا تھی
جن کی غذائین باہم مختلف تھیں
جن کے معبود قطعی طور پر آپسی میل تک نہیں کھاتے تھے
لندن میں ہی اسے بتا دیا گیا کہ
"وقت بہت ہی کم ہے،
بلکہ یہ اس نہج پر ہے کہ
صلح و تفہیم کا کوئی امکان باقی نہیں،
اب کسی عقل کو ہاتھ مارنے کا محل باقی نہیں۔
وقت اور حالات نے اب صرف
بَٹوارہ ہی مقدر ٹھہرا دیا ہے۔
وائسرائے کا بھی یہی خیال ہے
اور اس کا اپنے نام کے خط میں بھی
یہی لکھا پاؤ گے
کہ وائسرائے سے جس قدر دُوری پر رہو گے،
بھلے میں رہو گے۔
سو ہم نے آپ کے لئے الگ قیام گاہ کا بندو بست کیا ہے۔
ہم آپ کو مدد و مشورہ کے لئے چار جج دیں گے؛ دو مسلمان اور دو ہندو
لیکن کہیں بھول نا جائے کہ
قولِ فیصل آپ کو ہی سزاوار ہے۔”
وہ ( ریڈ کلف) ایک بہت بڑی حویلی میں اکیلے آن گُھس بیٹھا،
جس کے باغوں کے چاروں طرف پولیس دن رات گشت پر مامور رہتی
کہیں کوئی شر پسند،
کوئی قتل کے ارادے سے ادھر نا آن ٹپکے۔
اُس نے اپنے کارِ عظیم کو ہاتھوں ہاتھ لیا؛
کام بھی ایسا کہ
اس کے ہاتھ کروڑوں انسانوں کی قسمت لکھنے کا قلم تھما تھا۔
اس کو دیئے گئے نقشے وقت کے ہاتھوں پِٹے ہوئے، ہارے ہوئے، گئے گزرے پارچے تھے؛
اور مردم و خانہ شماری کی ساری کتابیں
اور حساب کھاتے قریب قریب سر تا پا
غلطیوں سے اٹے تھے۔
لیکن ان کی جانچ کا وقت کس کے پاس تھا، قضیات کو پرکھنے اور
ان پر فیصل ہونے کی کس کو فرصت تھی۔
اوپر سے موسم بھی تو بلا کا گرم تھا۔
رہی سہی کسر اس کو لاحق پیچش کی مروڑوں نے
اُس کی دوڑیں لگوا کے پوری کی ہوئی تھی۔
لیکن سات ہفتوں کی مار میں یہ کام فِشوں چکر ہوا؛
سرحدوں اور سِیماؤں کی کترنیں بن چُکیں۔
پورے کا پورا برّعظیم آن کی آن میں بَٹ چُکا۔
جس کے باغوں کے چاروں طرف پولیس دن رات گشت پر مامور رہتی
کہیں کوئی شر پسند،
کوئی قتل کے ارادے سے ادھر نا آن ٹپکے۔
اُس نے اپنے کارِ عظیم کو ہاتھوں ہاتھ لیا؛
کام بھی ایسا کہ
اس کے ہاتھ کروڑوں انسانوں کی قسمت لکھنے کا قلم تھما تھا۔
اس کو دیئے گئے نقشے وقت کے ہاتھوں پِٹے ہوئے، ہارے ہوئے، گئے گزرے پارچے تھے؛
اور مردم و خانہ شماری کی ساری کتابیں
اور حساب کھاتے قریب قریب سر تا پا
غلطیوں سے اٹے تھے۔
لیکن ان کی جانچ کا وقت کس کے پاس تھا، قضیات کو پرکھنے اور
ان پر فیصل ہونے کی کس کو فرصت تھی۔
اوپر سے موسم بھی تو بلا کا گرم تھا۔
رہی سہی کسر اس کو لاحق پیچش کی مروڑوں نے
اُس کی دوڑیں لگوا کے پوری کی ہوئی تھی۔
لیکن سات ہفتوں کی مار میں یہ کام فِشوں چکر ہوا؛
سرحدوں اور سِیماؤں کی کترنیں بن چُکیں۔
پورے کا پورا برّعظیم آن کی آن میں بَٹ چُکا۔
اگلے دن کا سورج انگلستان پِدھارنے کا چڑھا۔
جہاں پہنچتے ہی ایک سکہ بند و پیشہ ور وکیل کی طرح
کسی عام سے مقدمے کی مِثل
اِس مہان بٹوارے کا مقدمہ بھی اُس نے پلک جھپکنے میں
اپنی یاد سے محو کردیا۔
اس نے یہاں کا پھر کبھی مُنھ نہ کرنا تھا،
وہ اپنے کلب کے دوستوں کو بتا چلا تھا
کہ واپس لوٹنے کا معنٰی
بجُز سیدھے گولی کا نشانہ بننے کے
کچھ اور نا تھا۔
جہاں پہنچتے ہی ایک سکہ بند و پیشہ ور وکیل کی طرح
کسی عام سے مقدمے کی مِثل
اِس مہان بٹوارے کا مقدمہ بھی اُس نے پلک جھپکنے میں
اپنی یاد سے محو کردیا۔
اس نے یہاں کا پھر کبھی مُنھ نہ کرنا تھا،
وہ اپنے کلب کے دوستوں کو بتا چلا تھا
کہ واپس لوٹنے کا معنٰی
بجُز سیدھے گولی کا نشانہ بننے کے
کچھ اور نا تھا۔
Image: "Hail and Welcome.” Leader 24 March, 1947
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]
Leave a Reply