[blockquote style=”3″]
یہ نظم اس سے قبل معروف آن لائن رسالے ‘ہم سب‘ پر بھی شائع ہو چکی ہے، نصیر احمد ناصر کی اجازت سے اسے لالٹین پر شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
بوڑھوں کا گیت
[/vc_column_text][vc_column_text]
عورتو آؤ
ہم بوڑھے لوگوں سے محبت کرو
آؤ ہم سے محبت کرو
ہم تمہاری جوانی کا ابدی گیت ہیں
روشن دنوں کی دائمی دعا ہیں
ہم سے بہتر کوئی تمہاری ثنا نہیں کر سکتا
ہمارے سفید بالوں، پکی رنگت
اور جھریائے ہوئے چہروں پر نہ جاؤ
ہماری دل گرمی، دل گدازی دیکھو
ہم لفظوں کی پلپلاہٹ ہیں
تمہاری غیبی کہانیوں میں
بچ رہنے والے آخری حقیقی کردار
اور تمہاری زندگیوں کے سب سے خوبصورت کنائے ہیں!
ہم بوڑھے لوگوں سے محبت کرو
آؤ ہم سے محبت کرو
ہم تمہاری جوانی کا ابدی گیت ہیں
روشن دنوں کی دائمی دعا ہیں
ہم سے بہتر کوئی تمہاری ثنا نہیں کر سکتا
ہمارے سفید بالوں، پکی رنگت
اور جھریائے ہوئے چہروں پر نہ جاؤ
ہماری دل گرمی، دل گدازی دیکھو
ہم لفظوں کی پلپلاہٹ ہیں
تمہاری غیبی کہانیوں میں
بچ رہنے والے آخری حقیقی کردار
اور تمہاری زندگیوں کے سب سے خوبصورت کنائے ہیں!
عورتو آؤ، ہمارے پاس بیٹھو
ہم سے باتیں کرو
ہم تمہاری ناآسودہ محبتوں کا بھرم ہیں
ہم تمہاری سہیلیاں ہیں
ہم سے اپنا آپ نہ چھڑاؤ
آؤ ہمارے ساتھ پیدل چلو
ہماری قربت کو محسوس کرو
اور ہمارا ہاتھ تھامتے ہوئے ڈرو مت
ہمارا خاموش کہنہ لمس
تمہاری ہی خواہشوں کا خمیازہ ہے
ہماری انگلیاں جادو کی چھڑیاں ہیں
جو رنگ برنگے لباسوں کو پرندوں میں بدل سکتی ہیں
ہم نے زمانوں کے سرکس دیکھے ہیں
موت کے کنوؤں کے چکر لگائے ہیں
اور وقت کے شیروں کو سدھایا ہے
ہمارے سینوں کے راز کریدو
ہمارے ساتھ دُور کے اسفار پر نکلو
ہم آج بھی راستوں کے اطراف میں
پھول کھلا سکتے ہیں
فصلیں اور درخت اگا سکتے ہیں
کھنگریلے پتھروں پر بیٹھ کر
بادلوں اور ہواؤں سے باتیں کر سکتے ہیں
اور پَل کے پَل بارش لا سکتے ہیں!
ہم سے باتیں کرو
ہم تمہاری ناآسودہ محبتوں کا بھرم ہیں
ہم تمہاری سہیلیاں ہیں
ہم سے اپنا آپ نہ چھڑاؤ
آؤ ہمارے ساتھ پیدل چلو
ہماری قربت کو محسوس کرو
اور ہمارا ہاتھ تھامتے ہوئے ڈرو مت
ہمارا خاموش کہنہ لمس
تمہاری ہی خواہشوں کا خمیازہ ہے
ہماری انگلیاں جادو کی چھڑیاں ہیں
جو رنگ برنگے لباسوں کو پرندوں میں بدل سکتی ہیں
ہم نے زمانوں کے سرکس دیکھے ہیں
موت کے کنوؤں کے چکر لگائے ہیں
اور وقت کے شیروں کو سدھایا ہے
ہمارے سینوں کے راز کریدو
ہمارے ساتھ دُور کے اسفار پر نکلو
ہم آج بھی راستوں کے اطراف میں
پھول کھلا سکتے ہیں
فصلیں اور درخت اگا سکتے ہیں
کھنگریلے پتھروں پر بیٹھ کر
بادلوں اور ہواؤں سے باتیں کر سکتے ہیں
اور پَل کے پَل بارش لا سکتے ہیں!
نیک دل عورتو آؤ!
ہماری آنکھوں کے بے بہا پانیوں میں اترو
ہم سمندر ہیں
ہمارے ریتلے ساحلوں پر ننگے پاؤں چہل قدمی کرو
دیکھو ہماری ریت کتنی نرم ہے
ہمارے جزیروں کی رات خالص ہے
اور صبح اجلی ہے
ہمارے وجود کے جنگلوں میں
برگدی معبد ہیں
مقدس روشنی ہے
نروان ہے
اس سے پہلے
کہ ہماری دھوپ چھاؤں معدوم ہو جائے
اور ہم عمروں کی طویل راہگزاروں پر
اٹھتے بیٹھتے، پاؤں گھسیٹتے
جیتے جاگتے پرچھائیوں میں ڈھل جائیں،
اپنے طلسم بند جسموں پر
ہماری فتح کے طول و ارض تسلیم کرو
ہم سے محبت کرو
ہماری تکریم کرو!!
ہماری آنکھوں کے بے بہا پانیوں میں اترو
ہم سمندر ہیں
ہمارے ریتلے ساحلوں پر ننگے پاؤں چہل قدمی کرو
دیکھو ہماری ریت کتنی نرم ہے
ہمارے جزیروں کی رات خالص ہے
اور صبح اجلی ہے
ہمارے وجود کے جنگلوں میں
برگدی معبد ہیں
مقدس روشنی ہے
نروان ہے
اس سے پہلے
کہ ہماری دھوپ چھاؤں معدوم ہو جائے
اور ہم عمروں کی طویل راہگزاروں پر
اٹھتے بیٹھتے، پاؤں گھسیٹتے
جیتے جاگتے پرچھائیوں میں ڈھل جائیں،
اپنے طلسم بند جسموں پر
ہماری فتح کے طول و ارض تسلیم کرو
ہم سے محبت کرو
ہماری تکریم کرو!!
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]