وہ گوجرانوالا کے ایک نواحی گاوں کا رہنے والا تھا۔اسکا باپ بہت اچھا ڈھولچی تھا۔ پہلوانوں کے اکھاڑے سے اس کے ڈھول کی دھوم قرب و جوارمیں پھیل گئی اور اسے میلوں ٹھیلوں پر بصد اصرارا بلایا جانے لگا۔وہ اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اور جتنا اس کے باپ کو اسے پڑھانے اور بابو بنانے کا شوق تھا اتنا ہی وہ پڑھائی سے بھاگتا تھا۔ باپ کی خواہش تھی کہ اسکا بیٹا بابو بن جائے لیکن تعلیم میں اسکی واجبی سی دلچسپی دیکھ کر اس نے چاہا کہ وہ ڈھول بجانا ہی سیکھ لے تو اچھی روزی روٹی مل جائے گی لیکن اسے باپ کے اس کا م سے شدید چڑ تھی۔وہ نہ نکما تھا نہ کند ذہن بس اوسط درجے کا طالب علمم تھا اور اس نے باپ کی توقعات کے بر عکس بغیر کسی غیبی امداد کے میڑک کر ہی لیاتھا،باپ کے لئے تو خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ اس نے فوراً مستقبل کے خواب دیکھنا شروع کر دیےاوراسے ایک اعلیٰ افسر کے طور پردیکھنا شروع کر دیا۔خوبصورت بہو اور پوتے پوتیاں تصور کیے، حالانکہ یہ کام اکثر عورتوں سے منسوب رہا ہے لیکن اسکی ماں ایک حقیقت پسند عورت تھی۔بیٹے کی پڑھائی کے حالات اس سے پوشیدہ نہ تھے اس لئے اس نے اسے مشورہ دیا کہ ٹائپنگ سیکھ لے۔ گاوں میں ایک سرکاری اہل کار گھر پر شام کو ٹاٗئپنگ سکھاتا تھا۔ یہ مشورہ اس کے دل کو لگا اور اس نے بڑی محنت سے یہ کام سیکھا اور اسی اہل کار کی سفارش سے وہ محکمہ خوراک میں ٹائپسٹ بھرتی ہو گیا جس کے دو سال بعد قریبی عزیزوں میں اسکی شادی کر دی گئی۔
جس شہر میں اسے ملازمت ملی تھی وہ ایک بڑا شہر تھا۔ وہ کام لگن سے کیا کرتا تھا اور اس کی ٹائپنگ سپیڈ بھی اچھ تھی یہی وجہ تھی کہ گرم اور خشک مزاج سپرٹنڈنٹ بھی اس کے کام کی تعریف کرتا تھا۔اسکے باوجود بھی سات برس سے وہ جس سکیل میں بھرتی ہوا تھا اسی میں مارچ پاسٹ کر رہا تھا اوراس کی مالی حالت بہتر ہونے کی بجائے روز افزوں مہنگائی کے ہاتھوں ابتر تھی۔ کرایہ، بل، دوادارو اور ایک نومولود بیٹی کا خرچ اسے وقت سے پہلے بوڑھا کرنے پر تلے تھے۔
گرمیوں کا موسم اسے بہت پسند تھا لیکن سردی کے آتے ہی اسکامنہ ڈھلک جاتا ۔ سخت سردی میں وہ جب ساتھی کار کنوں کو اچھے اور نئے گرم کپڑوں میں دیکھتا تو آہیں بھر کر رہ جاتا۔مالی تنگی کی وجہ سے وہ اب تک نیا گرم سوٹ نہیں سلا پایا تھا اور سات برس سے اس پرانے سوٹ سے گزارا کرتا چلا آ رہا تھا جو اس نے شادی کے موقعے پر اسی بڑے شہر کے لنڈا بازار کی ایک دکان سے خریدا تھا۔پچھلے سات برس سے یہ سوٹ اسے سردی سے بچا رہا تھا مگر لگا تار استعمال سے کوٹ اور پتلون اب اتنے گھس چکے تھے کہ لگتا تھا کہ سوٹ خود اپنی بے چارگی کا اعلان کرنے والا ہے۔کوٹ کی حالت زیادہ خراب تھی اور پہلی نظر میں ایسا لگتا تھا کہ کسی نے پٹ سن کی بوری پہن رکھی ہے اسی لئے اسکے ساتھی اسے مذاق سے بوری بند کہتے ، آفس انچارج نے تو آج تک اسے بوری بند کے علاوہ کسی اور نام سے پکارا ہی نہیں تھا، لیکن وہ آفس انچارج تھا، وہ چاہے کچھ بھی کہہ لے،نوکری کے تسلسل میں بہر حال وہ اہم مقام رکھتا تھا،موسم تبدیل ہوتے رہے مگر یہ نام تبدیل نہ ہوا۔
جس شہر میں اسے ملازمت ملی تھی وہ ایک بڑا شہر تھا۔ وہ کام لگن سے کیا کرتا تھا اور اس کی ٹائپنگ سپیڈ بھی اچھ تھی یہی وجہ تھی کہ گرم اور خشک مزاج سپرٹنڈنٹ بھی اس کے کام کی تعریف کرتا تھا۔اسکے باوجود بھی سات برس سے وہ جس سکیل میں بھرتی ہوا تھا اسی میں مارچ پاسٹ کر رہا تھا اوراس کی مالی حالت بہتر ہونے کی بجائے روز افزوں مہنگائی کے ہاتھوں ابتر تھی۔ کرایہ، بل، دوادارو اور ایک نومولود بیٹی کا خرچ اسے وقت سے پہلے بوڑھا کرنے پر تلے تھے۔
گرمیوں کا موسم اسے بہت پسند تھا لیکن سردی کے آتے ہی اسکامنہ ڈھلک جاتا ۔ سخت سردی میں وہ جب ساتھی کار کنوں کو اچھے اور نئے گرم کپڑوں میں دیکھتا تو آہیں بھر کر رہ جاتا۔مالی تنگی کی وجہ سے وہ اب تک نیا گرم سوٹ نہیں سلا پایا تھا اور سات برس سے اس پرانے سوٹ سے گزارا کرتا چلا آ رہا تھا جو اس نے شادی کے موقعے پر اسی بڑے شہر کے لنڈا بازار کی ایک دکان سے خریدا تھا۔پچھلے سات برس سے یہ سوٹ اسے سردی سے بچا رہا تھا مگر لگا تار استعمال سے کوٹ اور پتلون اب اتنے گھس چکے تھے کہ لگتا تھا کہ سوٹ خود اپنی بے چارگی کا اعلان کرنے والا ہے۔کوٹ کی حالت زیادہ خراب تھی اور پہلی نظر میں ایسا لگتا تھا کہ کسی نے پٹ سن کی بوری پہن رکھی ہے اسی لئے اسکے ساتھی اسے مذاق سے بوری بند کہتے ، آفس انچارج نے تو آج تک اسے بوری بند کے علاوہ کسی اور نام سے پکارا ہی نہیں تھا، لیکن وہ آفس انچارج تھا، وہ چاہے کچھ بھی کہہ لے،نوکری کے تسلسل میں بہر حال وہ اہم مقام رکھتا تھا،موسم تبدیل ہوتے رہے مگر یہ نام تبدیل نہ ہوا۔
اس کا خیال تھا کہ یہ کوٹ پتلون بھی تو آخر کچھ نہ کچھ سوچتے ہوں گے کہ کس کے پلے پڑ گئے جو ہماری طبعی عمر گزرنے کے باوجود ہمیں چھوڑتا ہی نہیں۔
جب اسکے ساتھی افسر یا ملاقاتی اسکے لباس کی طرف دیکھتے تو اسے یوں محسوس ہوتا گویا وہ ننگا ہی دفتر آ گیا ہو۔ایسے موقعے پر وہ بہت پریشان ہو جاتا ، سخت سردی کے باوجود ماتھے کا پسینہ صاف کرتا اور لوگوں کی طنزیہ نظروں سے بچنے کے لئے دفتر سے باہر نکل کر ساتھ والے چائے کے کھوکھے میں جاتا اور وہاں رکھے ایک شیشے میں اپنا جائزہ لیتا اور بڑبڑاتا رہتا کہ آخر لوگ اسکے کام کی بجائے اسکے لباس ہی کو ہر وقت کیوں دیکھتے رہتے ہیں ۔
میری اس سے ملاقات ہفتے میں ایک آدھ بار اسی کھوکھے پر ہوتی۔چونکہ میں نے اسکے لباس یا ہیت پر کبھی کوئی بات نہیں کی تھی اس لئے وہ مجھے اپنے قریب سمجھتا اور کبھی کبھار اپنے ساتھیوں کی برائی بھی کر لیتا۔چائے پیتے ہوئے وہ جو کچھ بھی سوچتا اسکے چہرے سے عیاں ہوتا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ کوٹ پتلون بھی تو آخر کچھ نہ کچھ سوچتے ہوں گے کہ کس کے پلے پڑ گئے جو ہماری طبعی عمر گزرنے کے باوجود ہمیں چھوڑتا ہی نہیں۔یہی سوچتا ہوا وہ پھر دفتر آ بیٹھتا ۔ ساتھی اگر کسی اور بات پر بھی قہقہہ لگاتے تو اسے لگتا کہ اس کا ہی مذاق اڑا رہے ہیں اور وہ سہم کر رہ جاتا۔اسکے سب دوستوں نے اچھا لباس پہنا ہوتا تھا اور انچارج تو ہر سال سردیوں میں بڑھیا اور اعلیٰ کپڑے کا ایک نیا سوٹ سلاتا تھا۔وہ جانتا تھا کہ اس لباس کے لئے رقم کا بندو بست کہاں سے ہوتا ہے اور دیگر ساتھیوں کو تنخواہ کے علاوہ کچھ نہ کچھ حصہ کیسے ملتا ہے لیکن اسے ماں کی تاکید یاد تھی کہ بیٹا اپنے وسائل میں رہنا اور حرام کے قریب بھی نہ پھٹکنا۔اس نصیحت کی وجہ سے گھر میں تنگی ترشی اور کبھی کبھار تلخ کلامی بھی ہو جاتی لیکن وہ یہ سوچ کر خاموش ہو رہتا کہ نہ وہ حالات کا کچھ بگاڑ سکتا ہے اور نہ آفس انچارج کا۔
وہ ہر سخت سست بات بڑے تحمل اور برداشت سے سن لیتا تھا شایداسی لئے ساتھی کارکنوں کا حوصلہ کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا تھا ۔اب تو ایسا لگنے لگا تھا کہ وہ سب شاید اس کا اصلی نام بھول چکے ہیں۔ شاید وہ خود بھی اپنا نام بھول چکا تھا اسی لئے تو بوری بند سنتے ہی وہ فورا پکارنے والے کی طرف متوجہ ہو جاتا۔دوستوں کے اس رویے سے وہ بہت تنگ تھا اور ان سے بچنے کا بس ایک ہی طریقہ تھا کہ وہ ایک نیا سوٹ سلالے اور ان چیتھڑوں کو پھینک دے مگر مالی ناآسودگی کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔گرم کپڑے کی قیمتیں اس کی پہنچ سے باہر تھیں ، ہزار بارہ سو روپے میٹر کپڑا خریدنا اس کے بس سے باہر تھا۔ اس کے پے سکیل(Pay scale) کا پھیلاو بس اتنا ہی تھا کہ وہ اور اسکی فیملی دو وقت کی روکھی سوکھی کھا لیں۔طنزیہ جملے سن سن کر اسکے کان دکھنے لگتے تھے لیکن اسے معلوم تھا کہ وہ اتنی بڑی رقم نہ تو پس انداز کر سکتا تھا اور نہ ہی کسی غلط کام سے حاصل کر سکتا تھا،گھر میں بھی ساتھیوں کی طنزیہ باتیں یاد آتیں تو وہ آزردہ ہو جاتا، کبھی آہیں بھرتا اور کبھی تحقیر آمیزقہقہے لگانے لگتا ۔
یہ اسکی خوش قسمتی تھی کہ دو دن بعد انچارج نے اسے ایک حکمنامہ پکڑایا اور بتایا کہ کسی این جی او کی جانب سے خوراک پر سہ روزہ کانفرنس ہو رہی ہے جہاں ماہر ٹائپسٹ کی ضرورت ہے اور انچارج نے اسکا نام اسکی بہترین کارکردگی کی وجہ سے دیا ہے۔” تین دن جانا ہے ٹائپ رائٹر کے ساتھ، صبح دس بجے سے شام سات بجے تک، جب تک ان لوگوں کو ضرورت ہو وہیں رہنا ہو گا، سات آٹھ ہزار تو بن ہی جائے گا ۔۔۔” ابھی انچارج نے بات مکمل ہی کی تھی کہ اسکا نائب بول اٹھا’’ہاں بھائی بوری بند ،تمہاری تو لاٹری نکل آئی ۔ صاحب کتنے مہربان ہیں تم پر، اچھا موقع ہے۔ ایک گرم سوٹ تو آرام سے بن جائے گا۔دیکھو بیوی کا میک اپ نہ خرید لینا بلکہ اسے تو خبر بھی نہ ہونے دینا‘‘ اسے یہ بات ناگوار تو بہت لگی لیکن معاوضے کی رقم کا خیال آتے ہی نیا سوٹ اسکی نگاہوں میں پھرنے لگا۔
اس شام دفتر سے واپسی پر اس نے ٹائپ مشین سائیکل پر لادی اور گھر روانہ ہو گیا۔ تمام رات وہ سوچتا رہا، اس نے بھوک کے باوجود کھانا بے دلی سے کھایا اور بیوی کے پوچھنےپر بھی اسے کچھ نہیں بتایا۔ وہ بھلی مانس جان چکی تھی تھی کہ دفتروں میں کام کرنے والے بعض اوقات کافی دباو میں ہوتے ہیں اور چند ایک روز میں انکا مزاج ٹھیک ہو ہی جاتا ہے۔
میری اس سے ملاقات ہفتے میں ایک آدھ بار اسی کھوکھے پر ہوتی۔چونکہ میں نے اسکے لباس یا ہیت پر کبھی کوئی بات نہیں کی تھی اس لئے وہ مجھے اپنے قریب سمجھتا اور کبھی کبھار اپنے ساتھیوں کی برائی بھی کر لیتا۔چائے پیتے ہوئے وہ جو کچھ بھی سوچتا اسکے چہرے سے عیاں ہوتا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ کوٹ پتلون بھی تو آخر کچھ نہ کچھ سوچتے ہوں گے کہ کس کے پلے پڑ گئے جو ہماری طبعی عمر گزرنے کے باوجود ہمیں چھوڑتا ہی نہیں۔یہی سوچتا ہوا وہ پھر دفتر آ بیٹھتا ۔ ساتھی اگر کسی اور بات پر بھی قہقہہ لگاتے تو اسے لگتا کہ اس کا ہی مذاق اڑا رہے ہیں اور وہ سہم کر رہ جاتا۔اسکے سب دوستوں نے اچھا لباس پہنا ہوتا تھا اور انچارج تو ہر سال سردیوں میں بڑھیا اور اعلیٰ کپڑے کا ایک نیا سوٹ سلاتا تھا۔وہ جانتا تھا کہ اس لباس کے لئے رقم کا بندو بست کہاں سے ہوتا ہے اور دیگر ساتھیوں کو تنخواہ کے علاوہ کچھ نہ کچھ حصہ کیسے ملتا ہے لیکن اسے ماں کی تاکید یاد تھی کہ بیٹا اپنے وسائل میں رہنا اور حرام کے قریب بھی نہ پھٹکنا۔اس نصیحت کی وجہ سے گھر میں تنگی ترشی اور کبھی کبھار تلخ کلامی بھی ہو جاتی لیکن وہ یہ سوچ کر خاموش ہو رہتا کہ نہ وہ حالات کا کچھ بگاڑ سکتا ہے اور نہ آفس انچارج کا۔
وہ ہر سخت سست بات بڑے تحمل اور برداشت سے سن لیتا تھا شایداسی لئے ساتھی کارکنوں کا حوصلہ کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا تھا ۔اب تو ایسا لگنے لگا تھا کہ وہ سب شاید اس کا اصلی نام بھول چکے ہیں۔ شاید وہ خود بھی اپنا نام بھول چکا تھا اسی لئے تو بوری بند سنتے ہی وہ فورا پکارنے والے کی طرف متوجہ ہو جاتا۔دوستوں کے اس رویے سے وہ بہت تنگ تھا اور ان سے بچنے کا بس ایک ہی طریقہ تھا کہ وہ ایک نیا سوٹ سلالے اور ان چیتھڑوں کو پھینک دے مگر مالی ناآسودگی کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔گرم کپڑے کی قیمتیں اس کی پہنچ سے باہر تھیں ، ہزار بارہ سو روپے میٹر کپڑا خریدنا اس کے بس سے باہر تھا۔ اس کے پے سکیل(Pay scale) کا پھیلاو بس اتنا ہی تھا کہ وہ اور اسکی فیملی دو وقت کی روکھی سوکھی کھا لیں۔طنزیہ جملے سن سن کر اسکے کان دکھنے لگتے تھے لیکن اسے معلوم تھا کہ وہ اتنی بڑی رقم نہ تو پس انداز کر سکتا تھا اور نہ ہی کسی غلط کام سے حاصل کر سکتا تھا،گھر میں بھی ساتھیوں کی طنزیہ باتیں یاد آتیں تو وہ آزردہ ہو جاتا، کبھی آہیں بھرتا اور کبھی تحقیر آمیزقہقہے لگانے لگتا ۔
یہ اسکی خوش قسمتی تھی کہ دو دن بعد انچارج نے اسے ایک حکمنامہ پکڑایا اور بتایا کہ کسی این جی او کی جانب سے خوراک پر سہ روزہ کانفرنس ہو رہی ہے جہاں ماہر ٹائپسٹ کی ضرورت ہے اور انچارج نے اسکا نام اسکی بہترین کارکردگی کی وجہ سے دیا ہے۔” تین دن جانا ہے ٹائپ رائٹر کے ساتھ، صبح دس بجے سے شام سات بجے تک، جب تک ان لوگوں کو ضرورت ہو وہیں رہنا ہو گا، سات آٹھ ہزار تو بن ہی جائے گا ۔۔۔” ابھی انچارج نے بات مکمل ہی کی تھی کہ اسکا نائب بول اٹھا’’ہاں بھائی بوری بند ،تمہاری تو لاٹری نکل آئی ۔ صاحب کتنے مہربان ہیں تم پر، اچھا موقع ہے۔ ایک گرم سوٹ تو آرام سے بن جائے گا۔دیکھو بیوی کا میک اپ نہ خرید لینا بلکہ اسے تو خبر بھی نہ ہونے دینا‘‘ اسے یہ بات ناگوار تو بہت لگی لیکن معاوضے کی رقم کا خیال آتے ہی نیا سوٹ اسکی نگاہوں میں پھرنے لگا۔
اس شام دفتر سے واپسی پر اس نے ٹائپ مشین سائیکل پر لادی اور گھر روانہ ہو گیا۔ تمام رات وہ سوچتا رہا، اس نے بھوک کے باوجود کھانا بے دلی سے کھایا اور بیوی کے پوچھنےپر بھی اسے کچھ نہیں بتایا۔ وہ بھلی مانس جان چکی تھی تھی کہ دفتروں میں کام کرنے والے بعض اوقات کافی دباو میں ہوتے ہیں اور چند ایک روز میں انکا مزاج ٹھیک ہو ہی جاتا ہے۔
دکاندار نے اسکے لباس کی طرف دیکھا،کوٹ کا رنگ بعض جگہوں سے ایسے اڑ چکا تھا جیسے کپڑے کو برص کا مرض ہو،دکاندار نے اسے نظر انداز کر دیا اور پہلے گاہک کی طرف متوجہ ہوا۔
کانفرنس میں کام بے حد زیادہ تھا۔ تین دنوں میں اس نے اتنا کام کیا کہ شاید دفتر میں پندرہ دن میں بھی اتنا کام نہیں کرنا پڑتا ہو گا۔اسکے ہاتھ بٹن دباتے دباتے تھک جاتے اور اسے اپنے کندھوں پر بھاری بھرکم بوجھ محسوس ہونے لگتا لیکن نئے سوٹ کا حصول، جو اب دور نہیں تھا اسےکام کرنے پر مجبور کرتا رہا۔کانفرنس کے تینوں دن جب وہ تھک کر گھر لوٹتا تو دن بھر کی مشقت ، تھکان اور نئے سوٹ کا خیال اسے تھپک تھک کر سلا دیتے۔
اس ماہ جب اسے تنخواہ کے علاوہ ساڑھے چھ ہزار الگ سے ملے تو اس نے ان نوٹوں کو ہتھیلی پر پھیلا کر بار بار یوں دیکھا گویا پہلی بار کرنسی نوٹ دیکھے ہوں۔یہ کرنسی نوٹ نہیں تھے بلکہ عمدہ غیرملکی کپڑے کا تھان تھا۔دفتر کا وقت ختم ہوتے ہی اس نے سائیٗکل پکڑی اور وقت ضائع کیے بغیر وہ گرم کپڑے کی مارکیٹ جا پہنچااورجو دکان اسے سب سے پہلے نظر آئی اسی میں گھس گیا۔اس دکان میں ایک اور شخص جو آن بان سے کافی صاحب ثروت دکھائی دیتا تھا، دکاندار سے بھاو تاوکر رہا تھا۔درآمد شدہ غیر ملکی کپڑے کے تھان اسکے سامنےکھلے تھے اور دکاندار بہترین سیلز مین ہونے کا کردار نبھا رہا تھا۔اس نے سوچا کہ وہ بھی ایسا ہی کپڑا لے گا بلکہ یہی کپڑا خریدے گا کیونکہ دکاندار نے بتایا تھا اس کپڑے کو نہ دھونے سے فرق پڑے گا،نہ اسکا رنگ اترے گا، نہ ڈرائی کلین اسکا کچھ بگاڑے گا اور نہ ہی دھوپ۔اس نے سوچا یہی کپڑا اسکے لئے موزوں ترین ہے۔ کپڑا دیکھنے کے لئے جیسے ہی اس نے ہاتھ آگے بڑھایا تودوکاندار بولا:
’’ کیا ہے، کیا چاہئے آپ کو ‘‘
مجھے ایک سوٹ کا کپڑا چاہئے، کیا بھاوہے اسکا؟‘‘
دکاندار نے اسکے لباس کی طرف دیکھا،کوٹ کا رنگ بعض جگہوں سے ایسے اڑ چکا تھا جیسے کپڑے کو برص کا مرض ہو،دکاندار نے اسے نظر انداز کر دیا اور پہلے گاہک کی طرف متوجہ ہوا۔
دکاندار نے پہلے گاہک کواپنی چرب زبانی سے ایک کی بجائے دو سوٹ اٹھوا دیئے اور پیسے گلّے میں ڈالنے کے بعد دیکھا تو بوری بند وہیں بیٹھا تھا۔
’’ جی اب فرمایئے‘‘
’’ مجھے سوٹ کا کپڑا درکار ہے۔کیا دام ہیں ؟‘‘
جو جی چاہے دے دیجیے‘‘دکاندار نے یہ کہہ کر نسبتاً ہلکا کپڑا اسے دکھایا۔
’’اُس کپڑے کا کیا بھاو ہے؟مجھے وہی چاہیئے، جو وہ صاحب لے کر گئے ہیں‘‘
دکاندار نے شک کی نظر سے اسے دیکھا پھر اپنی دکان کے باہر غور سے دیکھا اور وہاں کھڑے گارڈ کو دیکھ کر مطمئن ہو کر بولا
’’یہ اٹھارہ سو روپے میٹر ہےپانچ ہزار چار سو کا ایک سوٹ‘‘
’’ مگر ابھی تو ان صاحب کو آپ نے پندرہ سو کے حساب سے دیا ہے‘‘
’’ جی ان کی کیا بات ہے، وہ تو بڑے آدمی ہیں اور ہمارے پرانے گاہک‘‘
’’ چلیے مجھے بھی گاہک بنائیں اور پندرہ سو ہی لگائیں‘‘
امپورٹڈ ٹویڈ کا کپڑا لے کر اس نے رقم ادا کی اور دکان سے باہر نکل آیا۔
دکاندار نے جب اسے سائیکل پر جاتے دیکھا تو بہت حیران ہوا۔اس نے سوچا کہ یا تو اس پھٹیچر کے پاس چوری کا مال ہے یا پھر بے چارہ کسی صاحب کو رشوت دینے کے لئے اتنا مہنگا کپڑا خرید کر گیا ہےبہر حال اسے تو دام سے مطلب تھا۔ ابھی وہ سائیکل پر سوار ہونے کو تھا کہ اسے درزی کی دکان نظر آئی اور حسب عادت وہ پہلی نظر آنے والی دکان میں گھس گیا۔ درزی نے اتنے بڑھیا کپڑے کی تعریف کی تو اسکا جی خوش ہو گیا لیکن جب اس نے سلائی کی رقم سے آگاہ کیا تو وہ درزی اسے بہت برا لگا،سوٹ کی قیمت سے زیادہ سلائی۔الٹے قدموں وہ دکان سےنکلا اور تیز تیز سائیکل چلاتے گھر کو ہو لیا۔صبح اٹھتے ہی اس نے اپنے دوست درزی کے گھر کا رخ کیا جو اس کے گھر کے نزدیک ہی رہتا تھا اور اسکی بچی اور بیوی کے کپڑے سی دیا کرتا تھا۔
ٹھیک تین دن میں نیا سوٹ سل گیا ۔ اسکی زندگی میں یہ پہلا سوٹ تھا جو اس نے خود بنوایا تھا۔ صبح جب وہ نیا سوٹ پہنے دفتر پہنچا تو اسکے ساتھی ابھی نہیں آئے تھےشاید وہ جلد ہی دفتر آ گیا تھا۔وہ بہت ہی مسرور تھا اور اس نے یہ بھی نہ دیکھا کہ بڑے صاحب کے دفتر میں محکمے کے ڈپٹی سیکریٹری تشریف فرما ہیں۔آج وہ وقت سے پہلے آ گیا تھا اور یہ اس کے حق میں اچھا ہوا کہ ڈپٹی نے اسے شاباشی دی۔دفتر کے لوگ بھی پہنچ گئے۔وہ اسے دیکھ کر آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ جب ڈپٹی کا دورہ ختم ہو گیا تو وہ اس کے گرد ہو گئے۔وہ سمجھ رہا تھا کہ ان کو اسکا نیا سوٹ پسند آیا ہے لیکن اسسٹنٹ سپر ٹینڈنٹ اسے دیکھتے ہی بولا ’’اوہو آج تو نیا سوٹ پہنا ہے اسی لئے میں تو پہچان ہی نہیں پایا جناب کو،بوری بند جی۔‘‘ یہ بات اسے تیر کی طرح لگی۔اسی وقت دوسرے ساتھی بھی آ گئے اور اس کامذاق اڑانے لگے۔ایک نے تو سوٹ کے کپڑے کی بے حد تعریف کی لیکن دوسرے نے سوال کر ڈالا ’’یار بوری بند، یہ سوٹ کس موچی نے سیا ہے،
یار اس میں تو تم بالکل ہیرو لگ رہے ہو ہیرو‘‘
’’ آخر ہمیں بھی تو بتاو اس فنکار کا نام ‘‘
یار میں بھی اس سے ایک سوٹ سلوانا چاہوں گا،سستا سلوایا ہےناں ‘‘
کمرہ قہقہوں سے لرز اٹھا۔ اور تو اور اس نے دیکھا کہ دفتر کے چپڑاسی بھی اسے طنزیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ یہ صورت حال نا قابل برداشت تھی۔وہ کمرے سے باہر چلا گیا، ذلت، ندامت اور غصے نے اسے ادھ موا کر دیا۔میں اس وقت چائے کے کھوکھے پر تھا جب وہ دفتر سے نکلا، لیکن حسب معمول کھوکھے پر آنے کی بجائے اس نے سائیکل پکڑی اور کسی کو بتائے بغیر روانہ ہو گیا۔
اس ماہ جب اسے تنخواہ کے علاوہ ساڑھے چھ ہزار الگ سے ملے تو اس نے ان نوٹوں کو ہتھیلی پر پھیلا کر بار بار یوں دیکھا گویا پہلی بار کرنسی نوٹ دیکھے ہوں۔یہ کرنسی نوٹ نہیں تھے بلکہ عمدہ غیرملکی کپڑے کا تھان تھا۔دفتر کا وقت ختم ہوتے ہی اس نے سائیٗکل پکڑی اور وقت ضائع کیے بغیر وہ گرم کپڑے کی مارکیٹ جا پہنچااورجو دکان اسے سب سے پہلے نظر آئی اسی میں گھس گیا۔اس دکان میں ایک اور شخص جو آن بان سے کافی صاحب ثروت دکھائی دیتا تھا، دکاندار سے بھاو تاوکر رہا تھا۔درآمد شدہ غیر ملکی کپڑے کے تھان اسکے سامنےکھلے تھے اور دکاندار بہترین سیلز مین ہونے کا کردار نبھا رہا تھا۔اس نے سوچا کہ وہ بھی ایسا ہی کپڑا لے گا بلکہ یہی کپڑا خریدے گا کیونکہ دکاندار نے بتایا تھا اس کپڑے کو نہ دھونے سے فرق پڑے گا،نہ اسکا رنگ اترے گا، نہ ڈرائی کلین اسکا کچھ بگاڑے گا اور نہ ہی دھوپ۔اس نے سوچا یہی کپڑا اسکے لئے موزوں ترین ہے۔ کپڑا دیکھنے کے لئے جیسے ہی اس نے ہاتھ آگے بڑھایا تودوکاندار بولا:
’’ کیا ہے، کیا چاہئے آپ کو ‘‘
مجھے ایک سوٹ کا کپڑا چاہئے، کیا بھاوہے اسکا؟‘‘
دکاندار نے اسکے لباس کی طرف دیکھا،کوٹ کا رنگ بعض جگہوں سے ایسے اڑ چکا تھا جیسے کپڑے کو برص کا مرض ہو،دکاندار نے اسے نظر انداز کر دیا اور پہلے گاہک کی طرف متوجہ ہوا۔
دکاندار نے پہلے گاہک کواپنی چرب زبانی سے ایک کی بجائے دو سوٹ اٹھوا دیئے اور پیسے گلّے میں ڈالنے کے بعد دیکھا تو بوری بند وہیں بیٹھا تھا۔
’’ جی اب فرمایئے‘‘
’’ مجھے سوٹ کا کپڑا درکار ہے۔کیا دام ہیں ؟‘‘
جو جی چاہے دے دیجیے‘‘دکاندار نے یہ کہہ کر نسبتاً ہلکا کپڑا اسے دکھایا۔
’’اُس کپڑے کا کیا بھاو ہے؟مجھے وہی چاہیئے، جو وہ صاحب لے کر گئے ہیں‘‘
دکاندار نے شک کی نظر سے اسے دیکھا پھر اپنی دکان کے باہر غور سے دیکھا اور وہاں کھڑے گارڈ کو دیکھ کر مطمئن ہو کر بولا
’’یہ اٹھارہ سو روپے میٹر ہےپانچ ہزار چار سو کا ایک سوٹ‘‘
’’ مگر ابھی تو ان صاحب کو آپ نے پندرہ سو کے حساب سے دیا ہے‘‘
’’ جی ان کی کیا بات ہے، وہ تو بڑے آدمی ہیں اور ہمارے پرانے گاہک‘‘
’’ چلیے مجھے بھی گاہک بنائیں اور پندرہ سو ہی لگائیں‘‘
امپورٹڈ ٹویڈ کا کپڑا لے کر اس نے رقم ادا کی اور دکان سے باہر نکل آیا۔
دکاندار نے جب اسے سائیکل پر جاتے دیکھا تو بہت حیران ہوا۔اس نے سوچا کہ یا تو اس پھٹیچر کے پاس چوری کا مال ہے یا پھر بے چارہ کسی صاحب کو رشوت دینے کے لئے اتنا مہنگا کپڑا خرید کر گیا ہےبہر حال اسے تو دام سے مطلب تھا۔ ابھی وہ سائیکل پر سوار ہونے کو تھا کہ اسے درزی کی دکان نظر آئی اور حسب عادت وہ پہلی نظر آنے والی دکان میں گھس گیا۔ درزی نے اتنے بڑھیا کپڑے کی تعریف کی تو اسکا جی خوش ہو گیا لیکن جب اس نے سلائی کی رقم سے آگاہ کیا تو وہ درزی اسے بہت برا لگا،سوٹ کی قیمت سے زیادہ سلائی۔الٹے قدموں وہ دکان سےنکلا اور تیز تیز سائیکل چلاتے گھر کو ہو لیا۔صبح اٹھتے ہی اس نے اپنے دوست درزی کے گھر کا رخ کیا جو اس کے گھر کے نزدیک ہی رہتا تھا اور اسکی بچی اور بیوی کے کپڑے سی دیا کرتا تھا۔
ٹھیک تین دن میں نیا سوٹ سل گیا ۔ اسکی زندگی میں یہ پہلا سوٹ تھا جو اس نے خود بنوایا تھا۔ صبح جب وہ نیا سوٹ پہنے دفتر پہنچا تو اسکے ساتھی ابھی نہیں آئے تھےشاید وہ جلد ہی دفتر آ گیا تھا۔وہ بہت ہی مسرور تھا اور اس نے یہ بھی نہ دیکھا کہ بڑے صاحب کے دفتر میں محکمے کے ڈپٹی سیکریٹری تشریف فرما ہیں۔آج وہ وقت سے پہلے آ گیا تھا اور یہ اس کے حق میں اچھا ہوا کہ ڈپٹی نے اسے شاباشی دی۔دفتر کے لوگ بھی پہنچ گئے۔وہ اسے دیکھ کر آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ جب ڈپٹی کا دورہ ختم ہو گیا تو وہ اس کے گرد ہو گئے۔وہ سمجھ رہا تھا کہ ان کو اسکا نیا سوٹ پسند آیا ہے لیکن اسسٹنٹ سپر ٹینڈنٹ اسے دیکھتے ہی بولا ’’اوہو آج تو نیا سوٹ پہنا ہے اسی لئے میں تو پہچان ہی نہیں پایا جناب کو،بوری بند جی۔‘‘ یہ بات اسے تیر کی طرح لگی۔اسی وقت دوسرے ساتھی بھی آ گئے اور اس کامذاق اڑانے لگے۔ایک نے تو سوٹ کے کپڑے کی بے حد تعریف کی لیکن دوسرے نے سوال کر ڈالا ’’یار بوری بند، یہ سوٹ کس موچی نے سیا ہے،
یار اس میں تو تم بالکل ہیرو لگ رہے ہو ہیرو‘‘
’’ آخر ہمیں بھی تو بتاو اس فنکار کا نام ‘‘
یار میں بھی اس سے ایک سوٹ سلوانا چاہوں گا،سستا سلوایا ہےناں ‘‘
کمرہ قہقہوں سے لرز اٹھا۔ اور تو اور اس نے دیکھا کہ دفتر کے چپڑاسی بھی اسے طنزیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ یہ صورت حال نا قابل برداشت تھی۔وہ کمرے سے باہر چلا گیا، ذلت، ندامت اور غصے نے اسے ادھ موا کر دیا۔میں اس وقت چائے کے کھوکھے پر تھا جب وہ دفتر سے نکلا، لیکن حسب معمول کھوکھے پر آنے کی بجائے اس نے سائیکل پکڑی اور کسی کو بتائے بغیر روانہ ہو گیا۔
اسکے سر اور داڑھی کے بال گردآلودتھے،اسکے جسم کا جو حصہ دکھائی دے رہا تھا وہ دھوپ سے کالا ہو چکا تھا،اسکے پاوں میل سے اٹے ہوئے تھے اور وہ صرف ایک بوری میں ملبوس تھا
گھر پہنچ کر اس نے سوٹ اتار کر زور سے زمیں پر پھینکا،پھر اس نے سارے کپڑے اتار دئے۔ کمرے کا دروازہ بند کر کے وہ زور زور سے چلایا، پھر یہ آواز سسکیوں میں بدل گئی۔اس کی بیوی نے باہر سے خیریت پوچھنے کی جسارت کی۔
’’ ہاں ہاں خیریت ہے، خیریت ہی تو ہے،چلی جاو یہاں سے‘‘ کچھ دیر وہ غصے میں بڑبراتا رہا، کبھی روتا پھر روتا تو کبھی قہقہے لگانے لگتا۔تھوڑی دیر بعدروازہ کھلا تواس نے پٹ سن کی ایک بوری کمر کے گرد لپیٹ رکھی تھی۔ گرم سوٹ اسکے ہاتھ میں تھا، اس نے میز سے ماچس اٹھائی اور سوٹ کو آگ لگا دی۔ اسکی بیوی نے سوٹ چھیننے کی کوشش کی تو اس نے ایک زور دار ہاتھ مار کر اسے پیچھے دھکیل دیا۔سوٹ لمحوں میں خاکستر ہو گیا۔بیوی اور بچی کو روتا چھوڑ کر وہ گھر سے ایک بوری باندھے نکل پڑا ۔
کوئی ایک سال بعد مجھے سرکاری کام سے ایک اور شہر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ کام ختم کر کے جب میں لاری اڈے پر بس کا انتظار کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ ایک شخص کے پیچھے بڑی عقیدت سے چل رہے ہیں۔ اسکے سر اور داڑھی کے بال گردآلودتھے،اسکے جسم کا جو حصہ دکھائی دے رہا تھا وہ دھوپ سے کالا ہو چکا تھا،اسکے پاوں میل سے اٹے ہوئے تھے اور وہ صرف ایک بوری میں ملبوس تھا، لوگ بھاگ بھاگ کر اسکے ہاتھوں کو بوسہ دے رہے تھے اور وہ ’’ آگ لگا دو، آگ لگا دو ‘‘ چلا رہا تھا۔
’’ ہاں ہاں خیریت ہے، خیریت ہی تو ہے،چلی جاو یہاں سے‘‘ کچھ دیر وہ غصے میں بڑبراتا رہا، کبھی روتا پھر روتا تو کبھی قہقہے لگانے لگتا۔تھوڑی دیر بعدروازہ کھلا تواس نے پٹ سن کی ایک بوری کمر کے گرد لپیٹ رکھی تھی۔ گرم سوٹ اسکے ہاتھ میں تھا، اس نے میز سے ماچس اٹھائی اور سوٹ کو آگ لگا دی۔ اسکی بیوی نے سوٹ چھیننے کی کوشش کی تو اس نے ایک زور دار ہاتھ مار کر اسے پیچھے دھکیل دیا۔سوٹ لمحوں میں خاکستر ہو گیا۔بیوی اور بچی کو روتا چھوڑ کر وہ گھر سے ایک بوری باندھے نکل پڑا ۔
کوئی ایک سال بعد مجھے سرکاری کام سے ایک اور شہر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ کام ختم کر کے جب میں لاری اڈے پر بس کا انتظار کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ ایک شخص کے پیچھے بڑی عقیدت سے چل رہے ہیں۔ اسکے سر اور داڑھی کے بال گردآلودتھے،اسکے جسم کا جو حصہ دکھائی دے رہا تھا وہ دھوپ سے کالا ہو چکا تھا،اسکے پاوں میل سے اٹے ہوئے تھے اور وہ صرف ایک بوری میں ملبوس تھا، لوگ بھاگ بھاگ کر اسکے ہاتھوں کو بوسہ دے رہے تھے اور وہ ’’ آگ لگا دو، آگ لگا دو ‘‘ چلا رہا تھا۔
بہت عمدہ۔ اس بے حس معاشرے کیا خوب منظر کشی کی ہے۔ معاشرے کی موجودہ بگڑی حالت میں ہم سب نے اپنا اپنا حصہ شعوری یا غیر شعوری طور پر ڈالا ہے۔
میرے افسانہ شایع کرنے اور تصویر لگانے کا بے حد شکریہمیں تنقید و تبصرے کا انتظار کر رہا ہوں
بہت متاثر کن لکھا ہے۔ اس معاشرے میں ہم کتنی چھوٹی چھوٹی خواہشیں دبا کر بس جیے ہی چلے جاتے ہیں۔ اور یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہمارے اطراف بسنے والے لوگ ہمارے اندر اٹھتے جوار بھاٹے سے بے خبر اپنے لفظوں کے تیروں سے بس ہمارے احساس کو چھیدتے رہتے ہیں۔
so truly touching