یہ نظم ایک مرتے ہوئے بارہ سالہ بچے کی دنیا ہے جس کی رگوں میں کیموتھراپی کے محلول دوڑ رہے تھے پر اس کے خوابوں کے کردار مردنگ کی تھاپ پر ناچتے، وہ سپہ سالار بھی تھا اور ایک خلاباز بھی۔ دور افق پر اس کی موت کے رنگ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔
یہ ان زمانوں کی داستاں ہے
کہ جب خرد کے کثیف پنجوں نے میرے سنبل پروں میں ناخن نہیں کھبوئے تھے
اُن زمانوں میں سپنے سانپوں کے بِل نہیں تھے
اننت ناگا کی جھڑتی چمڑی سپولیوں کا خدا نہیں تھی
گگن کا کیسر گدوں کا لقمہ نہیں بنا تھا
ہمارے صورت گروں نے( الٹی عمیق غاروں کو سیدھ دیتے) پلید چمگادڑوں کا چہرہ نہیں تکا تھا
اگرچہ کینسر کے زرد کیڑے، رجز کی لے پر تھرک رہے تھے
میں اپنی روح کی لگام تھامے ، کُلاہِ خود میں سے جھانکتا تھا
سو میرے گھوڑے کے ہِنہِنانے سے زرد کیڑوں میں خوف قائم تھا ، پر اچانک ۔۔۔۔
سفید کوٹوں میں بند سرنجوں نے میری دھڑکن پہ کان رکھے
یوں مَگر دانتوں سے میرے کولہے کی ہڈیوں میں نقب لگایا
کہ شاہ پورس کے مست ہاتھی نے اس کی فوجوں کو روند ڈالا
سفید خلیوں کے شہسواروں نے المجالی کی پیروی میں
سپر اٹھائی،
نیام سے تیغ کو نکالا،
تو زرد کیڑوں نے اپنے نیزوں پہ خونی صفحے اٹھا لیے تھے
میں مر رہا ہوں ، سسک رہا ہوں
یہ میرا بستر ،
(جہاں میں بےسدھ پڑا ہوا ہوں)
مری چتا ہے
سو میرے ہاتھوں میں میرے بالوں کے جلتے گچھے ہیں
میرے ڈھانچے کے رقصِ آخر کو دیکھنے
یہ سیاہ پوش بڑھیائیں کون ہیں
کیا بڑبڑا رہی ہیں
انھیں اٹھاؤ!!
کھجور کی گٹھلیاں ہٹاؤ!!
یہ خونی تھیلے میں کس کا خوں ہے؟
لہو کے قطروں کا ورد روکو !!
یہ ورد آنتوں کو کاٹ کھاتے ہیں
اور مسانوں کو چاب جاتے ہیں
یہ رقصِ آخر ، آخری نہیں ہے
میں اک جوالا مُکھی کا قصہ ہوں
میں انفجارِ عظیم کی طاقتوں میں ذرَہ ہوں
میں مِلکی وے کی سفید راہوں میں زرد سورج کے آشیانے میں رہنے والا
گو جل رہا ہوں جلا نہیں ہوں
میں مر رہا ہوں مرا نہیں ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
المجادلی ۔۔ حیدرِ کرّار کےگھوڑے کا نام
نیزوں پر خونی صفحے ۔۔ جنگِ صفین کا واقعہ
مگر دانت ۔۔ مکر یا مگر ہندو مت کا ایک افسانوی حیوان ہے
المجالی ۔۔ حیدرِ کرّار کےگھوڑے کا نام