بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، پاکستان کا 44 فیصد بلوچستان جبکہ 56 فیصد سندھ، پنجاب،خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان اور فاٹا پر مشتمل ہے مگرمعاشی عدم مساوات، ریاستی جبر اورسیاسی عدم استحکام کے باعث بلوچستان پاکستان کی دیگر اکائیوں کی نسبت بے حد پسماندہ ہے۔بلوچستان کے حالات ہوں یا پسماندگی، سیاسی آزادی کا معاملہ ہو یا پھر بیروزگاری کا مسئلہ؛ بلوچستان کاہر مسئلہ دوسرے مسئلے سے بڑھ کر ہے۔۔ بلوچستان کے عوام اس وقت حالات کی وجہ سے بہت ڈرے ہوئے ہیں، بے یقینی اور خوف کا یہ عالم ہے کہ بلوچ اپنے مستقبل سے زیادہ اپنے آج کیلئے پریشان ہیں
آج کا بلوچ نوجوان نہیں جانتا کہ اسے کیا پڑھنا چاہیے، ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے باعث کس شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے اور اپنی آواز اٹھانے کے لیے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے، وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے کیونکہ اسے اپنا مستقبل بلوچستان میں دھندلا نظر آتا ہے۔
بلوچستان کی موجودہ صورتحال پر نظرڈالی جائے تو حالات اور ریاست سے سب سے زیادہ مایوس طبقہ نوجوانوں کا ہے ۔ محدود امکانات اور مواقع کے باعث نوجوان اپنی پڑھائی سے زیادہ اپنی مستقبل کے لیے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستانی حکومت، سردار نظام اور برسر اقتدار حکمران طبقےکی ناکام پالیسیوں اورریاستی جبر نے بلوچستان کے نوجوانوں کو آج ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کردیا ہے جہاں بلوچ بالعموم اور بلوچ نوجوان بالخصوص اپنے مستقبل کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔آج کا بلوچ نوجوان نہیں جانتا کہ اسے کیا پڑھنا چاہیے، ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے باعث کس شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے اور اپنی آواز اٹھانے کے لیے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے، وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے کیونکہ اسے اپنا مستقبل بلوچستان میں دھندلا نظر آتا ہے۔
60 اور 70ء کی دہائی میں بلوچوں کے پاس معاش کا ایک بہتر ذریعہ خلیجی ممالک میں ملازمت کا حصول تھا، خصوصاً مسقط کی فوج اور بحرین پولیس میں مکران اور سیستان سے تعلق رکھنے والے ہزاروں بلوچ نوجوان بھرتی ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ دبئی، کویت اور قطر میں ہزاروں بلوچ مزدوری کیلئے باآسانی جاسکتے تھے۔ اس زمانے میں بلوچستان میں بسنے والے ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد خلیجی ممالک میں مزدوری کے لیے ضرور جاتا تھا جواپنی اجرت سے پاکستان میں بسنے والے اپنے گھرانے کی کفالت کیا کرتا تھا۔ خلیجی ممالک کے سیکیورٹی اداروں میں بیس پچیس سال گزارنے کے بعدریٹائر ہوکر واپس بلوچستان آنے والے پنشن یافتہ افراد نے بعدازاں کھیتی باڑی اور کاروبار کے آغاز سے بلوچستان کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کیا لیکن حالات کی خرابی کے باعث وطن واپس لوٹنے والے بلوچوں کے لیے کاروباری مواقع کم ہوئے ہیں۔
ماضی کی نسبت آج کا بلوچ نوجوان اپنے مستقبل کے حوالے سے کہیں زیادہ مایوس دکھائی دیتا ہےایک جانب بلوچستان کی صوبائی اور پاکستان کی وفاقی حکومت بلوچ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے منصوبے شروع کرنے میں متامل ہے تو دوسری جانب غیر ہنر مند بلوچ نوجوانوں کے لیے بیرون ملک ملازمت کے مواقع بھی کم ہوچکے ہیں۔ بیشتر نوجوان اپنا مستقبل محفوظ کرنے کے چکر میں دوبارہ خلیج اور یورپی ممالک کارخ کررہے ہیں یہاں تک کہ لوگ افغانستان جانے سے بھی دریغ نہیں کررہے۔ بلوچ طالب علم پاکستان اور بلوچستان کے حالات سے مایوس ہوچکے ہیں اور عمانی فوج اور بحرین پولیس میں اپنا مستقبل تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔
گزشتہ چند برس میں بلوچستان میں بے روزرگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ سلطنت عمان کی فوج میں دستیاب 250 اسامیوں کے لیے صرف تین اضلاع سے 22 سے 25 برس کے 28ہزار نوجوان کاغزات جمع کراتے ہیں۔ جانچ پڑتال کے بعد 8 ہزار نوجوانوں کو فہرست میں شامل کیا جاتا ہے اور ان میں سے صرف 250 کو عمان بھیجنے کےلیے منتخب کیا جاتا ہے۔یہاں یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ بلوچستان کے نوجوان اپنے آنے والے کل کےلیے کس قدر پریشان ہیں۔ بلوچستان کے نوجوانوں کی مایوسی وفاقی حکومت اور بلوچستان کی موجودہ قوم پرست حکومت کے لیے شرمناک ہے اور یہی نوجوانوں میں علیحدگی پسند رحجانات کے فروغ کا باعث ہے۔
60 اور 70ء کی دہائی میں بلوچوں کے پاس معاش کا ایک بہتر ذریعہ خلیجی ممالک میں ملازمت کا حصول تھا، خصوصاً مسقط کی فوج اور بحرین پولیس میں مکران اور سیستان سے تعلق رکھنے والے ہزاروں بلوچ نوجوان بھرتی ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ دبئی، کویت اور قطر میں ہزاروں بلوچ مزدوری کیلئے باآسانی جاسکتے تھے۔ اس زمانے میں بلوچستان میں بسنے والے ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد خلیجی ممالک میں مزدوری کے لیے ضرور جاتا تھا جواپنی اجرت سے پاکستان میں بسنے والے اپنے گھرانے کی کفالت کیا کرتا تھا۔ خلیجی ممالک کے سیکیورٹی اداروں میں بیس پچیس سال گزارنے کے بعدریٹائر ہوکر واپس بلوچستان آنے والے پنشن یافتہ افراد نے بعدازاں کھیتی باڑی اور کاروبار کے آغاز سے بلوچستان کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کیا لیکن حالات کی خرابی کے باعث وطن واپس لوٹنے والے بلوچوں کے لیے کاروباری مواقع کم ہوئے ہیں۔
ماضی کی نسبت آج کا بلوچ نوجوان اپنے مستقبل کے حوالے سے کہیں زیادہ مایوس دکھائی دیتا ہےایک جانب بلوچستان کی صوبائی اور پاکستان کی وفاقی حکومت بلوچ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے منصوبے شروع کرنے میں متامل ہے تو دوسری جانب غیر ہنر مند بلوچ نوجوانوں کے لیے بیرون ملک ملازمت کے مواقع بھی کم ہوچکے ہیں۔ بیشتر نوجوان اپنا مستقبل محفوظ کرنے کے چکر میں دوبارہ خلیج اور یورپی ممالک کارخ کررہے ہیں یہاں تک کہ لوگ افغانستان جانے سے بھی دریغ نہیں کررہے۔ بلوچ طالب علم پاکستان اور بلوچستان کے حالات سے مایوس ہوچکے ہیں اور عمانی فوج اور بحرین پولیس میں اپنا مستقبل تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔
گزشتہ چند برس میں بلوچستان میں بے روزرگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ سلطنت عمان کی فوج میں دستیاب 250 اسامیوں کے لیے صرف تین اضلاع سے 22 سے 25 برس کے 28ہزار نوجوان کاغزات جمع کراتے ہیں۔ جانچ پڑتال کے بعد 8 ہزار نوجوانوں کو فہرست میں شامل کیا جاتا ہے اور ان میں سے صرف 250 کو عمان بھیجنے کےلیے منتخب کیا جاتا ہے۔یہاں یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ بلوچستان کے نوجوان اپنے آنے والے کل کےلیے کس قدر پریشان ہیں۔ بلوچستان کے نوجوانوں کی مایوسی وفاقی حکومت اور بلوچستان کی موجودہ قوم پرست حکومت کے لیے شرمناک ہے اور یہی نوجوانوں میں علیحدگی پسند رحجانات کے فروغ کا باعث ہے۔