گزشتہ چند ماہ میں بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے بلوچ آزادی کے لئے بلوچستان میں اور بلوچستان سے باہر عام شہریوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ سبی میں ٹرین بم دھماکے میں درجنوں عام آدمی بشمول خواتین اور بچے ہلاک ہوئے پھر اسلام آباد کی سبزی منڈی میں دھماکہ ہوا جس میں بھی درجنوں مزدور پیشہ آدمی شہید ہوئے۔اس گنتی میں میں وہ لوگ نہیں جو دھماکوں کے نتیجے میں زندہ بچ گئے مگر اعضاء سے محروم ہوگئے اور اب شاید ساری زندگی دوسروں کے محتاج رہیں گے۔پہلے دھماکے کی ذمہ داری یونائیٹڈ بلوچستا ن آرمی نے قبول کی جبکہ دوسرے واقعے کے تانے بانے طالبان کے مذاکرات مخالف تنظیموں سے جوڑے جا رہے تھے کہ اسکی ذمہ داری بھی یوبی اے )یونائٹڈ بلوچستان آرمی (نے اپنے سر لے لی۔ کچھ عرصہ پہلے سائینس کالج کوئٹہ کے سامنے ایک دھماکہ ہوا تھا جس کی ذمہ داری احرار الہند اور یو بی اے نے بیک وقت قبول کی تھی۔ بلکہ یو بی اے نے تو خبردار کیاکہ انکی حریت پسند کاروائیوں کا کریڈٹ دو سری تنظیمیں نہ لیں۔خود کو آزادی اور حریت کا علم بردار کہلانے والے بھی عام آدمی کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ یہ نام نہاد آزادی پسند خود کو کامریڈ صفت کہلانے والے بھی طالبان کی فہرست میں رضاکارانہ طور پر شامل ہو گئے۔
بلوچ آزادی کی بات کرنے والے نوجوانوں سے تربت میں چی گویرا پر کتابیں برآمدہوئی تھی، مگر ان کتابوں میں تو عوام کو اپنی طاقت گردانا گیا تھا نہ کہ عوام کو آسان ہدف جانتے ہوئے، ریاست پر دباو ڈالنے کے لئے ان کے خون سے ہولی کھیلنے کا سبق۔ان کتابوں میں تو سامراجیت کے خلاف جدوجہدکی بات ہے اور ان کے فلسفے میں مظلوم کی آواز اور ڈھال بننے کے گر سکھائے گئے تھے۔ مگر اب شاید ان آذادی پسندوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں اور وہ اب سامراج کے آلہء کار بنتے نظر آرہے ہیں، ان کے ہاتھ بھی اسی خون سے رنگے ہیں جس کے دھبے ریاست اور سامراج کی آستینوں پر ہیں۔استحصال کرنے والوں کی طاقت عام آدمی کے ذہن میں بھوک، محرومی اور موت کا خوف پیدا کرنے سے ہے، بلوچ قوم پرست اسی خوف کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔
بلوچ آزادی کی بات کرنے والے نوجوانوں سے تربت میں چی گویرا پر کتابیں برآمدہوئی تھی، مگر ان کتابوں میں تو عوام کو اپنی طاقت گردانا گیا تھا نہ کہ عوام کو آسان ہدف جانتے ہوئے، ریاست پر دباو ڈالنے کے لئے ان کے خون سے ہولی کھیلنے کا سبق۔ان کتابوں میں تو سامراجیت کے خلاف جدوجہدکی بات ہے اور ان کے فلسفے میں مظلوم کی آواز اور ڈھال بننے کے گر سکھائے گئے تھے۔ مگر اب شاید ان آذادی پسندوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں اور وہ اب سامراج کے آلہء کار بنتے نظر آرہے ہیں، ان کے ہاتھ بھی اسی خون سے رنگے ہیں جس کے دھبے ریاست اور سامراج کی آستینوں پر ہیں۔استحصال کرنے والوں کی طاقت عام آدمی کے ذہن میں بھوک، محرومی اور موت کا خوف پیدا کرنے سے ہے، بلوچ قوم پرست اسی خوف کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔
عام لوگوں پر حملوں اور شہری تنصیبات کے خلاف کاروائیوں سے اگربلوچ مسلح تحریکوں کے مقصد کو تقویت مل رہی ہے تو وہ مقصد آزادی کی لڑائی اور حقوق کی جنگ ہرگز نہیں ہو سکتی بلکہ کچھ اور ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر اور براہمدغ اگر اس طریقے سے اپنے مقصد کی تکمیل کو جائز مانتے ہیں تو پھر انکا ایجنڈا بھی بلوچستان کے حقوق نہیں ہوگا، کوئی انسان دوست تحریک کسی انسان کی اس کی قومیت یا شناخت کی وجہ سے دشمن نہیں ہو سکتی۔
یو بی اے کی طرف سے ان دھماکوں کے قبول کرنے کے دعووں کے بعد اب وہ لوگ بھی منہ چھپا رہے ہیں جو اپنے سرمچاروں کی مظلومیت، آدرش پسندی، اور حریت پسندی کی مثالیں دیتے تھے۔ یہاں تک کے نواب خیر بخش مری کے سپوت اور سرمچاروں کے سرخیلوں میں سے ایک، حیربیار مری کو بھی کہنا پڑا کہ وہ ایسی ہر قسم کی کاروائی کے خلاف ہیں چاہے فورسز کی طرف سے ہو یا سرمچاروں کی طرف سے کہ جن میں عام آدمی نشانہ بنتا ہو۔
سوال یہ ہے کہ ایسی کاروائیوں میں مرنے عالے عام لوگوں کا قصور کیا ہے؟ کیا انھوں نے ان آزادی کے علمبرداروں کے مفادات کو کبھی کوئی نقصان پہنچایا ؟ یا پھر انکا گناہ یہ تھا کہ یہ ریاست کے نظام کے تحت چلنے والی ریل گاڑی میں سفر کر رہے تھے اور انکے خریدے گئے ٹکٹوں سے ریاست کا فائدہ ہوا؟ یا پھر یہ کہ وہ کسی سرکاری زمین پر قائم سبزی منڈی میں مزدوری کا حق نہیں رکھتے تھے۔ ان بیچاروں کو تو شاید وسائل اور استحصال کے معنی بھی نہیں معلوم تھے۔
عام لوگوں پر حملوں اور شہری تنصیبات کے خلاف کاروائیوں سے اگربلوچ مسلح تحریکوں کے مقصد کو تقویت مل رہی ہے تو وہ مقصد آزادی کی لڑائی اور حقوق کی جنگ ہرگز نہیں ہو سکتی بلکہ کچھ اور ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر اور براہمدغ اگر اس طریقے سے اپنے مقصد کی تکمیل کو جائز مانتے ہیں تو پھر انکا ایجنڈا بھی بلوچستان کے حقوق نہیں ہوگا، کوئی انسان دوست تحریک کسی انسان کی اس کی قومیت یا شناخت کی وجہ سے دشمن نہیں ہو سکتی۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو تمام بلوچ رہنماوں کو حربیار مری کی طرح واضح الفاظ میں ایسی کاروائیوں کی مذمت کرنی ہوگی جو بلوچ یا غیر بلوچ عوام کے مفادات کو نقصان پہنچائیں ۔
سوال یہ ہے کہ ایسی کاروائیوں میں مرنے عالے عام لوگوں کا قصور کیا ہے؟ کیا انھوں نے ان آزادی کے علمبرداروں کے مفادات کو کبھی کوئی نقصان پہنچایا ؟ یا پھر انکا گناہ یہ تھا کہ یہ ریاست کے نظام کے تحت چلنے والی ریل گاڑی میں سفر کر رہے تھے اور انکے خریدے گئے ٹکٹوں سے ریاست کا فائدہ ہوا؟ یا پھر یہ کہ وہ کسی سرکاری زمین پر قائم سبزی منڈی میں مزدوری کا حق نہیں رکھتے تھے۔ ان بیچاروں کو تو شاید وسائل اور استحصال کے معنی بھی نہیں معلوم تھے۔
عام لوگوں پر حملوں اور شہری تنصیبات کے خلاف کاروائیوں سے اگربلوچ مسلح تحریکوں کے مقصد کو تقویت مل رہی ہے تو وہ مقصد آزادی کی لڑائی اور حقوق کی جنگ ہرگز نہیں ہو سکتی بلکہ کچھ اور ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر اور براہمدغ اگر اس طریقے سے اپنے مقصد کی تکمیل کو جائز مانتے ہیں تو پھر انکا ایجنڈا بھی بلوچستان کے حقوق نہیں ہوگا، کوئی انسان دوست تحریک کسی انسان کی اس کی قومیت یا شناخت کی وجہ سے دشمن نہیں ہو سکتی۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو تمام بلوچ رہنماوں کو حربیار مری کی طرح واضح الفاظ میں ایسی کاروائیوں کی مذمت کرنی ہوگی جو بلوچ یا غیر بلوچ عوام کے مفادات کو نقصان پہنچائیں ۔
Leave a Reply