[blockquote style=”3″]
ڈاکٹر شاہ محمد مری کی یہ تحریر ماہنامہ سنگت کے مارچ 2015 کے شمارے میں بھی شائع کی جاچکی ہے۔
[/blockquote]
ایک روایتی معاشرہ بھی عجیب ہوتا ہے ؛اپنے رواجوں روایتوں میں سب اچھائیاں تلاش کرتا رہتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ انسانی معاشرے میں پیداواری رشتے اور اُن سے وابستہ رسوم و روایات، دوائیوں کی طرح ایک خاص مدت کے بعدزائد المعیاد ہوجاتے ہیں اور اُن کی جگہ بلند تر، پیچیدہ تر اور اعلیٰ تر اقدار مروج ہوجاتی ہیں مگربہت سارے روشن فکر احباب بھی اُن تبدیلیوں کا ادراک نہیں کرپاتے اور بجائے تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے کے وہ ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ایسے افراد یہ جانے بنا کہ اچھائیاں بھی وقت کے ساتھ فرسودہ ہوجاتی ہیں ان تبدیلیوں کےالتوامیں حصہ ڈالتے جاتے ہیں۔
سماج جو مرضی سوچے دنیا بھرکی طرح بلوچ معاشرے میں بھی عورتوں کی تحریک کی بنیادبھی اِس بات پر ہے کہ عورت اپنی موجودہ حیثیت اور مقام سے غیر مطمئن ہے اور اُس کا دوبارہ تعین چاہتی ہے
روایتی معاشرے کا دوسرا بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اکیسویں صدی کے معاملات کے حل کے لیے بھی اس پندرہویں صدی کی حانی و مہناز اور گوہر و سمو کی داستانیں کو کھنگالتا رہتا ہے جب ایٹم، جینیات، خلائی علوم اور کمپوٹر سائنس جیسے علوم موجود نہ تھا۔عورتوں کے بارے میں بھی ہمارا روایتی معاشرہ انہی دو خطوط پر سوچتا ہے۔ مگرتماشایہ ہے کہ سماج جو مرضی سوچے دنیا بھرکی طرح بلوچ معاشرے میں بھی عورتوں کی تحریک کی بنیادبھی اِس بات پر ہے کہ عورت اپنی موجودہ حیثیت اور مقام سے غیر مطمئن ہے اور اُس کا دوبارہ تعین چاہتی ہے اس مقصد کے لیے وہ مروج سماج کو چیلنج کرتی ہے۔تحریک نسواں کا ارتقا اور صورت پذیری ہر سماج میں مختلف ہوسکتی ہے مگر روایت اور موجودات سے عدم اطمینان ہر جگہ اور ہر زمانے میں اس تحریک کا جوہر رہا ہے۔
بلو چ سماج ایک نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ سماج ہے۔ بلوچ معاشرہ آج جن بڑے مسائل کا مجموعی طور پر شکار ہے اس کے اسباب دو ہیں: ایک غاصب ریاست اور دوسرا یہاں کااپنا سردار؛بے روزگاری، ناخواندگی، پسماندگی اور قتل و غارت انہی دو مظاہر کی وجہ سے ہے۔یہ واضح کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ یہ دونوں مسائل ہیں، مسائل کا حل نہیں۔ یہ درست ہے کہ یہ دونوں ایک دوسر ے پر انحصار کرتے ہیں اور ایک لحاظ سے باہم ایک ہی ہیں مگر تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے جب بھی اِن میں سے کسی ایک کو نظر انداز کیا، ہم خسارے میں رہے۔
بقیہ پاکستان کے برخلاف بلوچستان میں ایک زبردست سیاسی جمہوری تحریک موجود رہی ہے اور اس تحریک کو ہمیشہ اپنے سماج میں موجود تضادات سے متعلق ایک واضح موقف اختیار کرنا پڑا ہے گو کہ عورتوں سے متعلق اس کا موقف بہت مبہم اور مدہم ہوتا ہے مگرپھر بھی اتنا صاف کہ دوسری پڑوسی (پاکستانی )قوموں میں اس کاثانی نہیں ۔عالمی گاوں بن جانے والی اس دنیا میں بھی ہمارا قبائلی سماج ایک بند اور خفیہ سماج کی شکل میں موجود ہے اور زندگانی کے فطری سخت حالات سے دوچار ہے، بدقسمتی سے ہم ان فطری حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس کے اوپر کنکریٹ کی سخت تہیں جماتے رہتے ہیں۔ ان تہہ در تہہ سخت پرتوں میں سوراخ کرکے انسانی آزادی کا راستہ بنا لینا بہت محنت کا کام ہے۔
ہر زندہ سماج کی طرح بلوچ سماج بھی بہت بڑی نعمتوں کے ساتھ ساتھ بہت بڑے مسائل بھی رکھتا ہے اور یہ مسائل اجتماعی بھی ہیں، انفرادی بھی اور گروہی بھی۔معاشرے کے مجموعی مسائل و معاملات کے ساتھ ساتھ کچھ مسائل ایسے ہیں جو صرف عورت کو درپیش ہیں اسی لیےدنیا بھر میں عورتوں کی اپنی ایک الگ آزاد جمہوری تنظیم ہے جو عمومی معاشرتی مسائل کو ساتھ لیے اپنے مخصوص حقوق کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔
بلو چ سماج ایک نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ سماج ہے۔ بلوچ معاشرہ آج جن بڑے مسائل کا مجموعی طور پر شکار ہے اس کے اسباب دو ہیں: ایک غاصب ریاست اور دوسرا یہاں کااپنا سردار؛بے روزگاری، ناخواندگی، پسماندگی اور قتل و غارت انہی دو مظاہر کی وجہ سے ہے۔یہ واضح کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ یہ دونوں مسائل ہیں، مسائل کا حل نہیں۔ یہ درست ہے کہ یہ دونوں ایک دوسر ے پر انحصار کرتے ہیں اور ایک لحاظ سے باہم ایک ہی ہیں مگر تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے جب بھی اِن میں سے کسی ایک کو نظر انداز کیا، ہم خسارے میں رہے۔
بقیہ پاکستان کے برخلاف بلوچستان میں ایک زبردست سیاسی جمہوری تحریک موجود رہی ہے اور اس تحریک کو ہمیشہ اپنے سماج میں موجود تضادات سے متعلق ایک واضح موقف اختیار کرنا پڑا ہے گو کہ عورتوں سے متعلق اس کا موقف بہت مبہم اور مدہم ہوتا ہے مگرپھر بھی اتنا صاف کہ دوسری پڑوسی (پاکستانی )قوموں میں اس کاثانی نہیں ۔عالمی گاوں بن جانے والی اس دنیا میں بھی ہمارا قبائلی سماج ایک بند اور خفیہ سماج کی شکل میں موجود ہے اور زندگانی کے فطری سخت حالات سے دوچار ہے، بدقسمتی سے ہم ان فطری حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس کے اوپر کنکریٹ کی سخت تہیں جماتے رہتے ہیں۔ ان تہہ در تہہ سخت پرتوں میں سوراخ کرکے انسانی آزادی کا راستہ بنا لینا بہت محنت کا کام ہے۔
ہر زندہ سماج کی طرح بلوچ سماج بھی بہت بڑی نعمتوں کے ساتھ ساتھ بہت بڑے مسائل بھی رکھتا ہے اور یہ مسائل اجتماعی بھی ہیں، انفرادی بھی اور گروہی بھی۔معاشرے کے مجموعی مسائل و معاملات کے ساتھ ساتھ کچھ مسائل ایسے ہیں جو صرف عورت کو درپیش ہیں اسی لیےدنیا بھر میں عورتوں کی اپنی ایک الگ آزاد جمہوری تنظیم ہے جو عمومی معاشرتی مسائل کو ساتھ لیے اپنے مخصوص حقوق کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔
بلوچ عورت کی حالت ہمارے پورے معاشرے کی طرح کسی بہت بڑی صورت میں بہت عرصے سے تبدیل نہیں ہوئی اورہمارے ہاں فرد کی مانند عورت بھی تمام انسانی حقوق سے محروم ہے۔
بلوچ عورت کی حالت ہمارے پورے معاشرے کی طرح کسی بہت بڑی صورت میں بہت عرصے سے تبدیل نہیں ہوئی اورہمارے ہاں فرد کی مانند عورت بھی تمام انسانی حقوق سے محروم ہے۔ یہ سماج عورت کی آزادی اوربرابری کی شاہراہ کی سب سے بڑی رکاو ٹ (اطاعت گزاری، جمود اور پرانے سماج کے مردہ بوجھ کو اُٹھائے رکھنا) کو خودمستحکم کرتا چلا آیا ہے۔عورتوں کی سماجی حالت میں تبدیلی کے لئے سیاسی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے ، صنعت اور صنعتکاری کی ضرورت ہوتی ہے، بڑے پیمانے پر تعلیم اور بحث و مباحث کی ضرورت ہوتی ہےمگر یہ سب عوامل بھر پور انداز میں کبھی میسر نہیں رہے چنانچہ سماجی ڈھانچہ نہیں بدلا اوروہی قبائلی و جاگیردارانہ رشتے برقرار ہیں۔
بلوچستان میں عورتوں کی بڑی تعداد شہر کی بجائے یا تو دیہات میں رہتی ہے ،یا خانہ بدوش ہے ۔یعنی ہماری کارگاہ چراگاہیں اور کھیت ہیں جہاںشہری نعرے بازی کسی کام کی نہیں یہاں سب سے بڑا مسئلہ نیم خانہ بدوشی کو ختم کرنے کا ہے۔ مستقل آبادکاری، چار دیواری اور بستی یا قصبہ کی زندگی سب سے فوری اور ضروری فریضہ ہے۔ اور کیا ایسا موجودہ استبدادی ریاست میں ممکن ہے؟ ا س کے لیے پیداواری رشتے بدلنے ہوں گے۔ اندازہ کیجیے کہ یہ کتنی مشکل، مستقل اور کل وقتی جدوجہد ہے؛اتنے بڑے بلوچستان میں خانہ بدوشوں کو مستقل آبادی میں بسانا بذاتِ خود ایک انقلاب ہے۔
اگر عورت شہری علاقے کی ہے تو اُس کے لیے محض تھکا دینے والی مشقت کو آسان بنانا ہی ضروری نہیں بلکہ اس مشقت سے بچائے ہوئے وقت کا اچھا استعمال بھی ضروری ہے۔ تفریحی مقامات کا بندوبست کرنا ‘کھیلوں کی سہولتیں دینا‘اورتہذیب و تمدن کی نعمتوں کے دروازے کھولنا بھی ضروری ہے۔ عورت کے لیے تعلیم کے بعد تربیتی مراکز قائم کرنا اور انہیں ملازمتیں فراہم کرنا ضروری ہے۔ کارخانے بنا کر ان کے اندر عورتوں کو بھرتی کرنا ضروری ہے ۔ یقین جانیے زمین کی پیداوار کا سرمایہ بننا، صنعتکاری کا وسیع ہونا اور نئے طبقوں اور ان کے اندر نئے تضادات کی پیدائش سماج میں عورتو ں کی حیثیت اور حصہ داری پر بڑے اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس نئے سماجی ڈھانچے کی تشکیل سے کثیر زوجگی بھی کم ہوجاتی ہے۔
عورتوں کا مسئلہ سماجی ہے، ایسے تمام لوگ جو عورت کی برابری اور حقوق کا مسئلہ مکمل طور پر حل کرنا چاہتے ہیں انہیں تمام انسانوں کے مفاد کے لیے پورے سماجی مسئلے کو اپنا مقصد قرار دینا ہوگا۔ انسانی بہبود اور مساوی مواقع کی تحریک کسی ایک طبقے کی تحریک قطعاً نہیں ہے۔ چونکہ سماجی آزادی اور صنفی برابری کے بغیر انسانی آزادی نا ممکن ہے اس لئے انسانی آزادی کی جدوجہد کے قافلے میں عورتوں کی تحریک عام انسانوں یعنی مزدوروں ، ماہی گیروں اور کسانوں کی تحریک کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ان سب کی یکجائی پوری تحریک کی فتح مندی کی ضامن ہے اور یہ تحریک سماجی انصاف کی تحریک ہے۔
بلوچستان میں عورتوں کی بڑی تعداد شہر کی بجائے یا تو دیہات میں رہتی ہے ،یا خانہ بدوش ہے ۔یعنی ہماری کارگاہ چراگاہیں اور کھیت ہیں جہاںشہری نعرے بازی کسی کام کی نہیں یہاں سب سے بڑا مسئلہ نیم خانہ بدوشی کو ختم کرنے کا ہے۔ مستقل آبادکاری، چار دیواری اور بستی یا قصبہ کی زندگی سب سے فوری اور ضروری فریضہ ہے۔ اور کیا ایسا موجودہ استبدادی ریاست میں ممکن ہے؟ ا س کے لیے پیداواری رشتے بدلنے ہوں گے۔ اندازہ کیجیے کہ یہ کتنی مشکل، مستقل اور کل وقتی جدوجہد ہے؛اتنے بڑے بلوچستان میں خانہ بدوشوں کو مستقل آبادی میں بسانا بذاتِ خود ایک انقلاب ہے۔
اگر عورت شہری علاقے کی ہے تو اُس کے لیے محض تھکا دینے والی مشقت کو آسان بنانا ہی ضروری نہیں بلکہ اس مشقت سے بچائے ہوئے وقت کا اچھا استعمال بھی ضروری ہے۔ تفریحی مقامات کا بندوبست کرنا ‘کھیلوں کی سہولتیں دینا‘اورتہذیب و تمدن کی نعمتوں کے دروازے کھولنا بھی ضروری ہے۔ عورت کے لیے تعلیم کے بعد تربیتی مراکز قائم کرنا اور انہیں ملازمتیں فراہم کرنا ضروری ہے۔ کارخانے بنا کر ان کے اندر عورتوں کو بھرتی کرنا ضروری ہے ۔ یقین جانیے زمین کی پیداوار کا سرمایہ بننا، صنعتکاری کا وسیع ہونا اور نئے طبقوں اور ان کے اندر نئے تضادات کی پیدائش سماج میں عورتو ں کی حیثیت اور حصہ داری پر بڑے اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس نئے سماجی ڈھانچے کی تشکیل سے کثیر زوجگی بھی کم ہوجاتی ہے۔
عورتوں کا مسئلہ سماجی ہے، ایسے تمام لوگ جو عورت کی برابری اور حقوق کا مسئلہ مکمل طور پر حل کرنا چاہتے ہیں انہیں تمام انسانوں کے مفاد کے لیے پورے سماجی مسئلے کو اپنا مقصد قرار دینا ہوگا۔ انسانی بہبود اور مساوی مواقع کی تحریک کسی ایک طبقے کی تحریک قطعاً نہیں ہے۔ چونکہ سماجی آزادی اور صنفی برابری کے بغیر انسانی آزادی نا ممکن ہے اس لئے انسانی آزادی کی جدوجہد کے قافلے میں عورتوں کی تحریک عام انسانوں یعنی مزدوروں ، ماہی گیروں اور کسانوں کی تحریک کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ان سب کی یکجائی پوری تحریک کی فتح مندی کی ضامن ہے اور یہ تحریک سماجی انصاف کی تحریک ہے۔
سماجی آزادی اور صنفی برابری کے بغیر انسانی آزادی نا ممکن ہے اس لئے انسانی آزادی کی جدوجہد کے قافلے میں عورتوں کی تحریک عام انسانوں یعنی مزدوروں ، ماہی گیروں اور کسانوں کی تحریک کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
عورتوں کی جدوجہد کے حوالے سے موجود نظریاتی تذبذب کے باعث مردوں کے ساتھ موجودسماجی حیثیت کے تضاد کو ایک ایسے طریقے سے پیش کیا جاتا ہے تا کہ استحصال شدہ مرد اوراستحصال شدہ عورت باہم بٹ جائیں اور وہ استحصال کرنے والے طبقے کا مقابلہ نہ کرسکیں۔ بعض لوگ یا تو عورتوں کی جدوجہد کو اس کے فطری اتحادی یعنی مزدوروں اور کسانوں کی جدوجہد کی تحریک سے کاٹ ڈالتے ہیں یا پھر اس طرح کے دوسرے لیت پیت کرتے ہیں جن کے نتیجے میں ایسا ماحول بن جاتا ہے جہاں لوگ مرد وزن کے درمیان برابری کو میکانکی برابری سمجھنے لگتے ہیں۔عورتوں کی تحریک ان باتوں سے بہت بلند،بہت پاک و صاف تحریک ہے ۔ اصل منزل موجود ہ ڈھانچہ میں مردوں اور عورتوں میں صرف مساوات حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے بہت زیادہ آگے بڑھنا ہے اور ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ہے جس کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان کے تابع ہوجاتا ہے اور ایک جنس دوسری جنس کی محتاج ہوجاتی ہے۔
Leave a Reply