[blockquote style=”3″]
عدنان عامر کی یہ تحریر اس سے قبل انگریزی روزنامے دی نیشن میں بھی شائع ہو چکی ہے۔ مصنف کی اجازت سے اس تحریر کا اردو ترجمہ لالٹین پر شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
مترجم شاہجہان بلوچ
ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کا قیام 2002 میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کی جگہ عمل میں لایا گیا۔ ایچ ای سی کا منشور ملک میں سرکاری جامعات کی معاونت اور معیاری تعلیم کی فراہمی ہے۔ ایچ ای سی حکام کے دعووں کے مطابق اپنے قیام سے لے کر اب تک اس ادارے نے 176 ارب روپے کی رقم خرچ کر کے ملک بھر کے دس ہزار سے زائد طلبا و طالبات کو وظائف سے نوازا ہے۔ جہاں تک بلوچستان کو محروم رکھنے کی بات ہے تو دیگر وفاقی اداروں کی طرح ایچ ای سی کا رویہ بھی غیر منصفانہ ہے۔
ایچ ای سی کے سالانہ رپورٹ برائے سال 2012-13 میں دیئے گئے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تعلیمی وظائف اور جامعات کو مالی امداد فراہم کرنے میں بلوچستان کی حق تلفی کی گئی ہے۔
تسلیم شدہ آئینی کوٹے کی خلاف ورزی
ایچ ای سی کے سالانہ رپورٹ برائے سال 2012-13 میں دیئے گئے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تعلیمی وظائف اور جامعات کو مالی امداد فراہم کرنے میں بلوچستان کی حق تلفی کی گئی ہے۔ رپورٹ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ بلوچستان کو ایچ ای سی کے وظائف اور مالی امداد کا صرف 3 فیصد حصہ مل رہا ہے جو بلوچستان کے تسلیم شدہ آئینی کوٹے 6 فیصد کا بھی نصف ہے۔
وظائف کی تقسیم میں ناانصافی
مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی جامعات میں اندراج یافتہ طلبا و طالبات کو مختلف تعلیمی پروگراموں کے ایچ ای سی وظائف سے نوازا گیا۔ سال 2012-13 میں ایچ ای سی نے 2,895 پی ایچ ڈی (PHD) وظائف جاری کیے جن میں سے بلوچستان کے صرف 30 طلبہ کومنتخب کیا گیا۔ یہ تعداد کُل وظائف کا محض 1 فیصد ہے۔ ایچ ای سی کی جانب سے یونیورسٹی طلبا و طالبات 8,317 طلبہ کو بیرون ملک وظائف دے کر پڑھنے بھیجا گیا۔ بلوچستان اور قبائلی علاقوں کو ملا کر صرف12 وظائف دیئے گئے، یعنی بلوچستان اور فاٹا کا مشترکہ حصہ 0.14 فیصد بنا ہے جو کہ انصاف کے نام پر ایک مذاق ہے۔ اسی طرح سال 2012-13 میں ایچ ای سی کی جانب سے اندرون ملک دیئے جانے والے 5,524 وظائف میں سے بلوچستان کا حصہ صرف 2 فیصد رہا ہے۔
ریسرچ گرانٹ کی غیر منصفانہ تقسیم
ایچ ای سی کا نیشنل ریسرچ پروگرام فار یونیورسٹیز (NRPU) یونیورسٹی اساتذہ کو سائنسی تحقیق کو مالی تعاون فراہم کرتا ہے، اس پروگرام کا بنیادی مقصد اعلی تعلیمی اداروں میں سائنسی تحقیق اور جدت کو فروغ دینا ہے۔ بدقسمتی سے سال 2012-13 میں بلوچستان کو اس گرانٹ میں سے بھی صرف 2.62 فیصد ہی نصیب ہوا۔
بلوچستان میں صرف ایک تحقیقی کانفرنس منعقد کی گئی
بلوچستان میں یونیورسٹیز کی مخدوش حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ترجیحی بنیادوں پر زیادہ حصہ دینا چاہیئے تھا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔
سیمینار اور کانفرنسز اعلیٰ تعلیم کے لازمی اجزاء گردانی جاتی ہیں۔ ایچ ای سی کے زیرانتظام ایسی تقاریب منعقد کرائی جاتی ہیں۔ ایچ ای سی یونیورسٹیز کو سیمپوزیم، تربیتی ورکشاپ، سیمینار اور کانفرنسز منعقد کروانے میں معاونت فراہم کرتا ہے تاکہ ان یونیورسٹیوں میں کی جانے والی سائنسی تحقیق کو دنیا بھر کے علمی حلقوں کے سامنے لایا جا سکے۔ ایچ ای سی نے ایسے تقاریب منعقد کروانے پر 52.117 ملین روپے خرچ کیے ہیں، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بلوچستان میں اب تک ایچ ای سی کی جانب سے صرف ایک ایسی تقریب منعقد کروائی گئی ہے. جبکہ دوسری جانب صرف اسلام آباد میں ہی ایچ ای سی نے 46 ایسی تقاریب کا اہتمام کیا۔
ترقیاتی امداد کی نامنصفانہ تقسیم
یونیورسٹیز کو دی جانے والی ترقیاتی امداد کے پروگرام میں بھی ایچ ای سی کی جانب سے بلوچستان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ اس پروگرام کے تحت ایچ ای سی ملک بھر میں جامعات کے قیام اور پہلے سے قائم شدہ جامعات کو وسعت دینے کے لیے ترقیاتی رقوم فراہم کرتا ہے۔ سال 2012-13میں ایچ ای سی نے اس مد میں 12.014 ارب کی رقوم جاری کیں جن میں بلوچستان کا حصہ صرف 4.09 فیصد رہا۔
بلوچستان سے زیادتی، آئین کی خلاف ورزی ہے
بلوچستان میں یونیورسٹیز کی مخدوش حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ترجیحی بنیادوں پر زیادہ حصہ دینا چاہیئے تھا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ آئینی طور پر ایچ ای سی کے تمام تر وسائل میں بلوچستان کا حصہ 6 فیصد بنتا ہے، مگر مذکورہ بالا اعداد و شمار یہ ثابت کرتے ہیں کہ بلوچستان کو بمشکل ایچ ای سی کے مجموعی وسائل سے 3 فیصد مل رہا ہے، حالانکہ پاکستان کے آئین کے مطابق بلوچستان کو اس کے 6 فیصد کوٹے سے زیادہ ملنا چاہیئے تھا۔
آئین کے آرٹیکل 37 کی شق (الف) میں واضح طور پر درج ہے کہ ریاست “پسماندہ طبقات یا علاقوں کے معاشی اور تعلیمی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی” اور اسی آرٹیکل کی ایک اور شق (ج) میں درج ہے “فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن الحصول اور اہلیت اور لیاقت کی بنیاد پر سب کے لیے قابل دسترس بنائے گی۔”
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے تمام پسماندہ علاقے، جن میں بلوچستان سرفہرست ہے، کو ان کے مختحض شدہ حصے سے زیادہ ملنا چاہیئے تاکہ وہ قومی معیارات سے ہم آہنگ ہوسکیں۔ بلوچستان کو اس کےتسلیم شدہ آئینی کوٹے یعنی 6 فیصد سے بھی کم حصہ دینا دراصل ایچ ای سی کی جانب سے پاکستانی دستور کی صریح اور افسوس ناک خلاف ورزی ہے۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے تمام پسماندہ علاقے، جن میں بلوچستان سرفہرست ہے، کو ان کے مختحض شدہ حصے سے زیادہ ملنا چاہیئے تاکہ وہ قومی معیارات سے ہم آہنگ ہوسکیں۔ بلوچستان کو اس کےتسلیم شدہ آئینی کوٹے یعنی 6 فیصد سے بھی کم حصہ دینا دراصل ایچ ای سی کی جانب سے پاکستانی دستور کی صریح اور افسوس ناک خلاف ورزی ہے۔
بلوچستان سے ناانصافی کیوں اور کب تک؟
بلوچستان کو اس کےتسلیم شدہ آئینی کوٹے یعنی 6 فیصد سے بھی کم حصہ دینا دراصل ایچ ای سی کی جانب سے پاکستانی دستور کی مکمل اور افسوس ناک خلاف ورزی ہے۔
بادی النظر میں ایچ ای سی ایک سوچےسمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان کے طلبا و طالبات کو وظائف حاصل کرنے سے روکتا ہے۔ ایچ ای سی کے بیرون ملک وظائف کے معیار پر صرف وہ طلبا و طالبات پورے اتر سکتے ہیں جن کے مکمل تعلیمی سفر میں ایک بھی تھرڈ ڈویژن نہ ہو۔ بلوچستان کی تعلیمی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ طلبا و طالبات کے تعلیمی کیرئیر میں کم سے کم ایک تھرڈ ڈویژن لازمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ ایچ ای سی وظائف کے اہل نہیں قرار پاتے۔ درحقیقت بیرونی یونیورسٹیز کو داخلے کے لیے صرف
GRE اور TOEFL مطلوب ہیں، یہ “No Third Division” کی شرط محض ایچ ای سی کی جانب سے نامعلوم وجوہ کی بنا پر لاگو ہے۔
GRE اور TOEFL مطلوب ہیں، یہ “No Third Division” کی شرط محض ایچ ای سی کی جانب سے نامعلوم وجوہ کی بنا پر لاگو ہے۔
ایچ ای سی کی مذکوره بالا پالیسی سے صرف مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والے ہی مستفید ہو رہے ہیں جو مہنگے اداروں سے پڑھ کر اچھے نمبروں سے پاس ہوتے ہیں۔ یہ طبقاتی رویہ اقتصادی اور سماجی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مستحق افراد کو حقوق دینے کے مکمل منافی ہے۔
ایچ ای سی بلوچستان کے طلبہ کے ساتھ نا انصافی کر رہا ہے مگر بدقسمتی سے اس نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے کیونکہ موجودہ صوبائی حکومت اور پارلیمانی اراکین اس امر سے بے خبر ہیں۔ لالچ، طاقت اور اقتدار کے نشے میں چُور ان سیاستدانوں کی بے خبری نے ایچ ای سی حکام کو بلوچستان کے طلبہ کے مستقبل کے ساتھ حسب منشاء کھیلنے کا اختیار دے دیا ہے۔ جب تک بلوچستان کی سول سوسائٹی اور سیاستدان اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند نہیں کریں گے تب تک ایچ ای سی پاکستانی آئین کی خلاف ورزی کرتا رہے گا اور بلوچستان کے طلبا کی حق تلفی ہوتی رہے گی۔