ویسے تو بلوچ روایات کے مطابق خواتین کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں لیکن جب گھر میں نوبت فاقوں تک آجائے تو خواتین کو گھر چلانے کے لیے گھر سے باہر کا راستہ دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ سارا دن کام کے عوض وہ دو وقت کی روٹی کا انتظام کرکے گھر آجاتی ہیں۔ بلوچ معاشرے میں حصول روزگار کے لیے خواتین وہ کو اہمیت اور ترجیح نہیں دی جاتی جو مرد کو حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے بیشتر اداروں میں ملازمت کے لیے مردوں کو عورتوں پر فوقیت دی جاتی ہے اور خواتین کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ یہی سوال جب میں نے اپنے ایک دوست (جو کافی عرصے سے این جی اوز کے ساتھ منسلک ہیں) سے پوچھاکہ خواتین کے مسائل پر ہونے والے پروگراموں میں مرد ہی شرکت کرتے ہیں اگر اکا دکا عورتیں نظر آجاتی ہیں تو بھی انہیں بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ یا تو وہ اس قدر دباو محسوس کرتی ہیں کہ انہیں بولتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے یا پھر انہیں اس لائق نہیں سمجھا جاتا۔ تو ان کا کہنا تھا کہ "خواتین اتنی باصلاحیت نہیں، جس بہتر انداز میں ایک مرد بات کر سکتا ہے اور اپنا موقف پیش کر سکتا ہے ایک عورت نہیں کر سکتی۔” یہ مغالطہ ہر جگہ عام ہے کہ خواتین مردوں جتنی باصلاحیت نہیں ہوتیں۔ خواتین کو ایسے ہی مغالطوں کی بناء پر تعلیم، روزگار اور ترقی کے مواقع سے محروم رکھا گیا ہے۔
ہم یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے کہ ہم نے، ہماری روایات نے اور ہمارے معاشرے نے عورت کو تعلیم اور ہنر سے محروم رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ آج اس حال میں ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کی تعلیم اور شعور پر قدغن لگانے والی قوتیں ہی اسے کسی ہنر کے بغیر کمانے پر بھی مجبور کرتی ہیں۔ روزگار کے حصول کے لیے درکار علم و ہنر سے محروم رکھ کر ہم خواتین کو بھیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اکثر و بیشتر ہم ہوٹلوں اور بازاروں میں خواتین کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہمارا ضمیر وقتی طور پر جاگ جاتا ہے کہ اس معاشرے میں ایک عورت آخر کس طرح بھکاری بن گئی لیکن ہم اپنے اندر جھانک کر اس کی وجوہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے کہ ہم نے، ہماری روایات نے اور ہمارے معاشرے نے عورت کو تعلیم اور ہنر سے محروم رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ آج اس حال میں ہے۔
ہمارے معاشرے میں عورت کو معاشی طور پر مرد کا محتاج رکھنے کے تو بے شمار طریقے رائج کر لیے ہیں، لیکن خواتین کو آگے آنے، اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور خودمختار ہونے کے راستے نہیں دیئے گئے۔ زمینی فرشتوں نے اپنے تئیں یہ فرض کر لیا ہے کہ اگر خواتین آگے جائیں گی تو مرد کو گھر کے کام کرنے پڑیں گے، یا خاندان بکھر جائیں گے، طلاقیں بڑھ جائیں گی یا بے حیائی بڑھ جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ انہی بے بنیاد مفروضوں کی وجہ سے عورت کو گھر کی زیب و زینت بنا کر اسے معاشرے کا حصہ بننے سے روک دیا گیا۔ لیکن جہاں پیسے اور مفادات کی بات آگئی تو خواتین پر عائد قدغنیں فوراً ہٹا دی گئیں۔ مجھے یاد ہے پہلے پہل تو بیت المال سے ملنے والے وظائف کے نام پر خواتین کو چند سو روپوں کی خاطر ڈاک خانوں کے چکر کاٹنے پر مجبور کیا گیا۔ اور اب یہ سلسلہ بیت المال سے نکل کر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی صورت میں سامنے آ گیا ہے۔ اس پروگرام کے ذریعے یہاں کی خواتین کو ‘بھکاری بنانے’ کی حتی الامکان کوشش کی جا رہی ہے۔ ہر ماہ 1500 روپے کس طرح کسی غریب خاتون کی ماہانہ امداد اور کفالت کے لیے کافی ہوں گے لیکن اس کے عوض جو تکلیف اور پریشانی ان لاچار اور غریب خواتین کو برداشت کرنا پڑتی ہے وہ تکلیف دہ اور قابل اعتراض ہے۔ حکومت اور معاشرہ کس طرح ایک عورت کو تعلیم، ہنر اور روزگار سے محروم کر کے محض پندرہ سو روپے ماہانہ دے کر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو سکتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں عورت کو معاشی طور پر مرد کا محتاج رکھنے کے تو بے شمار طریقے رائج کر لیے ہیں، لیکن خواتین کو آگے آنے، اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور خودمختار ہونے کے راستے نہیں دیئے گئے۔
گزشتہ دنوں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ محترمہ ماروی میمن صاحبہ ایک ‘مصنوعی عوامی تقریب’ میں شرکت کے لیے کوئٹہ تشریف لائیں، بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے خواتین اس آس پر کوئٹہ پہنچ کر پنڈال میں صبح 9بجے سے شام 4بجے تک انتظار کرتی رہیں کہ شاید ماروی میمن ان کے لیے کسی پیکج کا اعلان کریں گی اور ان میں رقوم تقسیم کریں گی۔ ان عورتوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں 7 گھنٹے انتظار کرایا گیا۔ نہ جانے اس روز کتنے گھروں میں چولہے اس امید پر نہیں جلے ہوں گے کہ ہو سکتا ہے کہ ماروی میمن ان کی فلاح کے لیے کچھ اعلان کریں گی۔ لیکن وہی ہوا جو بلوچستان کی عورتوں کے ساتھ ہمیشہ ہوتا آیا ہے، محترمہ ماروی میمن کوئٹہ تشریف لے آئیں، انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں سب عورتیں دل تھام کر ان کی زبان سے انعامات و اکرامات کے اعلانات سننے بیٹھ گئیں لیکن سب بے سود۔۔۔۔۔ نہ ماروی میمن انہیں کچھ دے سکیں اور نہ ہی ان کی امیدیں بر آئیں۔ اور چارو ناچار پیاسے ہونٹوں اور خالی معدوں کے ساتھ وہ واپس اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو گئیں۔
بلوچستان کی خواتین کو تعلیم، روزگار اور کاروباری مواقع کی ضرورت ہے، ان کے لیے تعلیمی اداروں کا بندوبست کرنا ہو گااور انہیں ہنر مند بنانے کا انتظام کرنا ہوگا تاکہ وہ اپنے معاشی حالات کو بہتر بنانے کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہو سکیں۔ ماروی میمن اور ان کے ہمراہ تقریب میں شریک نو منتخب سپیکر بلوچستان اسمبلی محترمہ راحیلہ درانی کو بخوبی اس بات احساس ہونا چاہیئے کہ 1500روپے کسی بھی گھر کو خوشحال بنانے کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ اگر یہی رقم عورتوں کو قطاروں میں کھڑا کرنے کی بجائے ان کی تعلیم، صحت، فلاح و بہبود پر صحیح معنوں میں خرچ کی جائے تو یقیناً اس سے دیرپا فوائد حاصل ہوں گے۔ یہی وسائل اگر انہیں محتاج بنانے کی بجائے ہنرمند بنانے کے لیے استعمال ہوں تو یقیناً خواتین اور خاندان کے حالات زندگی میں ایک بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ چند باتیں سنانے کے لیے انہیں سات سات گھنٹے اپنے انتظار میں بٹھا کر ان کے احساسات سے کھیلنے کا ڈرامہ اب بند کیا جانا چاہیئے۔
آج ماروی میمن اور راحیلہ درانی اگر سیاست میں ہیں اور مختلف عہدوں تک پہنچی ہیں تو وہ تعلیم اور عملی زندگی میں حصہ لینے کے مواقع کی بنیاد پر پہنچی ہیں نا کہ انکم سپورٹ کے نام پر چند سو روپے وصول کر کے۔ اگر بلوچ عورت کی فلاح چاہیئے تو اسے تعلیم دیجیے انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر پندرہ سو روہے نہیں۔
Leave a Reply