Laaltain

بلوچستان کی جنگلی حیات خطرے میں

6 فروری، 2015
Picture of لالٹین

لالٹین

عدالتی پابندی کے باوجود سعودی عرب کے صوبے تبوک کے گورنر نایاب پرندے تلور کا شکار کھیلنے چاغی پہنچ گئےہیں اگرچہ اس سے قبل محکمہ جنگلات کے ایک سینیئراہلکار نے کیمپ کے قیام کی تصدیق کی تھی لیکن عرب شیخ کی آمد کی تردید کی تھی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق گورنر تبوک پرنس فہد بن سلطان بن عبدالعزیز السعود اپنے خصوصی طیارے میں بدھ کی سہ پہر چاغی کے صدر مقام دالبندین کے ائرپورٹ پہنچے جہاں ان کا استقبال پاکستان میں سعودی سفیر سمیت وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، صوبائی وزیر کھیل و ثقافت و امور نوجوانان میر مجیب الرحمن محمد حسنی، چاغی سے منتخب رکن بلوچستان اسمبلی سخی امان اللہ نوتیزئی، کمشنر کوئٹہ ڈویژن قمبر دشتی، ضلع چاغی کے نومنتخب بلدیاتی چیئرمین میر داؤد کان نوتیزئی، ڈپٹی کمشنر چاغی سیف اللہ کھیتران، اسسٹنٹ کمشنر دالبندین رزاق ساسولی اور پولیس حکام نے کی جہاں طیارے سے اترنے کے بعد گورنر تبوک اپنے گاڑی میں بیٹھ کر دالبندین سے 35 کلو میٹر جنوب مغرب میں واقع اپنے شکار کیمپ بارتاگزی چلے گئے۔ اس موقع پر دالبندین ائرپورٹ کے گرد پولیس، لیویز اور نیم فوجی دستے فرنٹیر کور کی جانب سے سخت سیکیورٹی حصار قائم کیا گیا تھا جہاں صحافیوں سمیت عام لوگوں کا جانا ممنوع تھا۔
ڈویژنل فاریسٹ آفیسر چاغی سیف اللہ زہری نے گورنر تبوک کے آمد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ گورنر تبوک کا یہاں شکار کے لیے آنا غیر قانونی ہے جنہیں ہماری طرف سے کوئی گرین سگنل نہیں دیا گیا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا “غیر قانونی شکار پر وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت قانونی کاروائی خارج ازامکان نہیں لیکن فی الحال ہم صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔”یاد رہے چاغی کے رہائشی ملک سلیم اور لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے مقامی سیاستدان اسلم بھوتانی کی درخواستوں پر گزشتہ سال عدالت عالیہ بلوچستان نے صوبے میں عرب شیوخ کی جانب سے تلور کی شکار کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے شکار کے لیئے الاٹ کیئے گئے تمام ارضیات کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے کا حکم دیا تھا لیکن گورنر تبوک کی آمد سے عدالتی احکامات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔
بلوچستان کے مختلف اضلاع میں 1980 کی دہائی سے خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والے عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کی جاتی رہی ہیں۔اس پرندے کے شکار کے لیے وفاقی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے اجازت نامے کے تحت کسی بھی علاقے میں عرب شیوخ دس دن کے لیے شکار کر سکتے ہیں۔ان دس دنوں میں ان کو صرف 100 تلور شکار کرنے کی اجازت ہوتی ہے، لیکن قدرتی ماحول کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی ادارے آئی یو سی این بلوچستان کے سربراہ فیض اللہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کوئی پابندی خاطر میں نہیں لائی جاتی۔انھوں نے بتایا کہ ’اگر دس تلور شکار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے تو رپورٹ یہ آتی ہے کہ وہ 200 یا 300 ایک دن میں مارتے ہیں۔‘
بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف محکمہ جنگلات نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ہائی کورٹ کے 2014 میں دیے گئے فیصلے کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ کے جاری کردہ اجازت نامے کو منسوخ کر دیا تھا۔ تلور ہر برس موسم سرما میں سائبیریا سے ہجرت کر کے بلوچستان کا رخ کرتا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *