
ڈاکٹر عبدالمالک نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان نسل کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ انہوں نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کے قوم پرست رہنماوں کے ساتھ تحریکِ آزادی کے رہنماوں سے متعلق مواد بھی نصاب میں شامل رہے گا۔ دوسری طرف وائس چانسلر کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمٰن نے نظام ِ تعلیم خصوصاً نصاب کو قومی ہم آہنگی کے لئے مرکز کے ماتحت رکھنے پر زور دیا۔
ماہرین تعلیم کے مطابق بلوچستان ، سندھ ، سرائیکی خطے اور خیبر پختونخواہ کے قوم پرستوں کا نصاب میں شامل نہ ہونا چھوٹے صوبوں اور قومیتوں کے حامل طلبہ کی محرومی کا باعث ہے۔ پاکستان کے نظام تعلیم کی دوقومی نظریے کی بنیاد پر تشکیل کی وجہ سے نصاب میں ریاستی بیانیے سے اختلاف کرنے والے نقطہ نظر کے حامل سیاسی رہنماوں سے متعلق متن شامل نہیں کیا جاتا۔ ماہرین نے اکبر بگٹی اور دیگر قوم پرست رہنماوں سے متعلق مواد کی شمولیت کو تاریخ کی درست تعبیر کی طرف پہلا قدم قرار دیا۔
طلبہ ذرائع کے مطابق اس اقدام سے بلوچ محرومیوں کا ازالہ تو نہ ہو سکے گا مگر پاکستان میں قوم پرست نظریات کو غداری کے مترادف سمجھنے کی روایت ضرور ختم ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اعلیٰ تعلیم سمیت محکمہ تعلیم کی بیشتر ذمہ داریاں صوبائی حکومتوں کو منتقل ہو چکی ہیں۔ اس سے قبل خیبر پختونخواہ کی گزشتہ حکومت نے قوم پرست رہنماوں سے متعلق نصاب کا حصہ بنایا گیا تھا جسے موجودہ کے-پی-کے حکومت خارج کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔
Leave a Reply