وزیراعلٰی عبدالمالک کی یقین دہانی کے باجود بلوچستان میں تعلیمی اداروں کے خلاف شدت پسند اور عسکریت پسند تنظیموں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 2014 کے اوائل میں "تنظیم الاسلامی الفرقان” کی طرف سے موصول ہونےو الی دھمکیوں کے بعد جون میں پنجگور اور اس سے متصلہ علاقوں میں نجی سکول بند کر دیے گئے تھے اور اگست کے وسط میں وزیراعلیٰ کی یقین دہانی کے بعد تدریس کا سلسلہ دوبارہ شروع ہواتھا۔نجی تعلیمی اداروں کے دوبارہ کھلنے کے بعد سے اب تک پنجگور اور کیچ کے علاقوں میں بعض سکول نذر آتش کئے جا چکے ہیں جس سے بلوچستان میں سکیورٹی کی صورت حال اور امن و امان کے قیام میں صوبائی حکومت کی بے بسی ظاہر ہوتی ہے۔
بلوچ قوم پرست حلقوں کی جانب سے سکیورٹی اداروں کی موجودگی اور شدت پسند اداروں کے خلاف وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی کے باوجودبلوچستان میں مذہبی شدت پسند تنظیموں کی کارروائیوں میں اضافہ پر تشویش کا اظہار بجا ہے۔ ایک ایسا صوبہ جہاں سکیورٹی اور امن و امان کی تمام تر ذمہ داری عملی طور پر فرنٹئیر کور اور فوج کے اختیار میں ہے وہاں شدت پسند تنظیموں کی طرف سے تعلیمی اداروں پر حملہ بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ بلوچ حلقوں کی جانب سے بلوچستان میں جدید تعلیم خصوصاًخواتین کی تعلیم کی مخالفت کرنے والی فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کے فعال ہونے میں سکیورٹی اداروں کے ملوث ہونے کے الزامات کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔بلوچ عوام میں شدت پسندی کو ریاستی سرپرستی میں فروغ دیے جانے کے تاثرکو رد کرنا آسان نہیں کیوں کہ ماضی میں عسکری ادارے قوم پرست تحریکوں کا اثر کم کرنے کے لئے شدت پسند تنظیموں کی سرپرستی کرتےرہے ہیں۔
بلوچ قوم پرست حلقوں کی جانب سے سکیورٹی اداروں کی موجودگی اور شدت پسند اداروں کے خلاف وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی کے باوجودبلوچستان میں مذہبی شدت پسند تنظیموں کی کارروائیوں میں اضافہ پر تشویش کا اظہار بجا ہے۔ ایک ایسا صوبہ جہاں سکیورٹی اور امن و امان کی تمام تر ذمہ داری عملی طور پر فرنٹئیر کور اور فوج کے اختیار میں ہے وہاں شدت پسند تنظیموں کی طرف سے تعلیمی اداروں پر حملہ بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ بلوچ حلقوں کی جانب سے بلوچستان میں جدید تعلیم خصوصاًخواتین کی تعلیم کی مخالفت کرنے والی فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کے فعال ہونے میں سکیورٹی اداروں کے ملوث ہونے کے الزامات کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔بلوچ عوام میں شدت پسندی کو ریاستی سرپرستی میں فروغ دیے جانے کے تاثرکو رد کرنا آسان نہیں کیوں کہ ماضی میں عسکری ادارے قوم پرست تحریکوں کا اثر کم کرنے کے لئے شدت پسند تنظیموں کی سرپرستی کرتےرہے ہیں۔
بلوچستان میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے تعلیمی اداروں، اساتذہ اور طلبہ پر کئے جانے والے حملوں کو سیاسی بنیادوں پر درست یا غلط قرار دینا حکومت، سکیورٹی اداروں،سیاسی قیادت اور علیحدگی پسندوں کی جانب سے تعلیم کوبنیادی انسانی حق سمجھنے سے انکار کے مترادف ہے۔
بلوچستان کے تعلیمی اداروں پر حملہ کرنے والی تنظیموں کے فعال ہونے کے خلاف کارروائی نہ کئے جانے سے بھی ایسے مفروضوں کی صداقت پر یقین بڑھ رہا ہے کہ یہ بلوچ علیحدگی پسند تحریک کا مقابلہ کرنے اور بلوچ قوم کو پسماندہ رکھنے کی کوشش ہے جو شدت پسند تنظیموں سے روابط رکھنے والی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں۔ تاہم بلوچ قوم پرست تنظیموں کی جانب سے بلوچ علاقوں میں غیر بلوچ یا بلوچ علیحدگی سے اتفاق نہ کرنے والے اساتذہ اور طلبہ پر حملے بھی بلوچستان کی آنے والی نسل کے مستقبل کو ناقابل تلافی پہنچا چکے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2008 سے 2010کے دوران 22 سے زائد اساتذہ اور تعلیمی اداروں سے منسلک اہلکاروں کو بلوچ عسکریت پسند ہلاک کر چکے ہیں۔ بلوچستان میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے تعلیمی اداروں، اساتذہ اور طلبہ پر کئے جانے والے حملوں کو سیاسی بنیادوں پر درست یا غلط قرار دینا حکومت، سکیورٹی اداروں،سیاسی قیادت اور علیحدگی پسندوں کی جانب سے تعلیم کوبنیادی انسانی حق سمجھنے سے انکار کے مترادف ہے۔ ریاستی اداروں اور علیحدگی پسندوں کو تعلیمی کے حق اور تعلیم تک رسائی کو سیاسی اور نظریاتی وابستگی سے بالاتر ہو کر یقینی اورمحفوظ بنانےکی ضرورت کا احساس کرنا ہوگا۔
Leave a Reply