اسلام آبا د میں بلوچستان ہاؤس کی عمارت پر لکھا بلوچستان ہاوس بڑی مشکل سے دکھائی دیتا ہے۔بلوچستان ہاوس پر سے بلوچستان کا نام بلوچوں کے نام و نشان کی طرح مٹ رہا ہےجن کا احساس محرومی دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اسلام آباد میں رہتے ہوئے کبھی کبھار اپنے منتخب نمائندوں ہی کی طرح مجھے بھی بلوچستان کی پسماندگی یاد نہیں رہتی ، یہاں کی عالی شان عمارتیں دیکھ کر بعض اوقات لگتا ہے کہ بلوچ بھی خوشحال ہو چکے ہوں گے وہاں کے لوگ بھی اتنی ہی ترقی کر چکے ہوں گے جتنی یہاں کے باشندوں نے کی ہے۔ وہاں بھی تعلیمی ادارے کھلے ہوں گے، ہر بچے کے ہاتھ میں قلم ہوگا، ہر نوجوان برسرروزگار ہوگا۔ وہاں کی زمینوں پر بھی فصلیں لہلہا رہی ہوں گی ۔ وہاں کی سڑکیں بھی کشادہ اور پکی ہوں گی لیکن پھرمیرا یہ فریب محض ایک خام خیالی ثابت ہوتا ہے۔
اسلام آباد میں رہتے ہوئے کبھی کبھار اپنے منتخب نمائندوں ہی کی طرح مجھے بھی بلوچستان کی پسماندگی یاد نہیں رہتی ، یہاں کی عالی شان عمارتیں دیکھ کر بعض اوقات لگتا ہے کہ بلوچ بھی خوشحال ہو چکے ہوں گے
2013ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی قوم پرست جماعتوں پر مشتمل حکومت کودوسال کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے لیکن حکومت کی کارکردگی دیکھتے ہوئے قطعاً یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ قوم کو مصیبتوں کے بھنور سے نکالنے کے لیے ان کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل موجود ہے۔ زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ بلوچستان میں تعلیم ، صحت اور امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے اور نوجوانوں میں بے روزگاری عام ہے۔بلوچ عوام کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے لیکن ان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے تاحال زرعی اصلاحات کا اعلان نہیں کیا گیا اورنہ ہی انہیں کسی قسم کی سبسڈی دی گئی ہے۔
صحت اور تعلیم کے شعبے میں اصلاحات لانے کے لیے موجودہ صوبائی حکومت کی جانب سے کیے گئے اعلانات اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔عوام کی بڑی تعداد یہ توقع کر رہی تھی کہ موجودہ حکومت سابقہ ادوار کی حکمران جماعتوں سے مختلف ثابت ہوگی لیکن عوامی توقعات اور خوش گمانیاں دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ گزشتہ انتخابات کے دوران بلوچ عوام نے تبدیلی کی آس پر بڑے عرصے بعد قوم پرست جماعتوں کو ووٹ ڈالے تھے لیکن یہ حکومت ابھی تک عوامی توقعات کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی۔
صحت اور تعلیم کے شعبے میں اصلاحات لانے کے لیے موجودہ صوبائی حکومت کی جانب سے کیے گئے اعلانات اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔عوام کی بڑی تعداد یہ توقع کر رہی تھی کہ موجودہ حکومت سابقہ ادوار کی حکمران جماعتوں سے مختلف ثابت ہوگی لیکن عوامی توقعات اور خوش گمانیاں دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ گزشتہ انتخابات کے دوران بلوچ عوام نے تبدیلی کی آس پر بڑے عرصے بعد قوم پرست جماعتوں کو ووٹ ڈالے تھے لیکن یہ حکومت ابھی تک عوامی توقعات کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی۔
موجودہ بلوچستان حکومت کی جانب سے رفتہ رفتہ ایسے اعلانات کیے جاتے رہے ہیں جن سے عوام نے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی تھیں لیکن اب تک کا دو سالہ دور اقتدار حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور نیشنل پارٹی کی محاذ آرائی میں ضائع ہو چکا ہے ۔
موجودہ بلوچستان حکومت کی جانب سے رفتہ رفتہ ایسے اعلانات کیے جاتے رہے ہیں جن سے عوام نے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی تھیں لیکن اب تک کا دو سالہ دور اقتدار حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور نیشنل پارٹی کی محاذ آرائی میں ضائع ہو چکا ہے ۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اپنی کرسی بچانے کے لیے تگ و دو میں دکھائی دیے جبکہ ان کی حلیف جماعت کے سربراہ اور حریف رہنماء ثناء اللہ زہری ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی قیادت سے نالاں رہے۔ ثناءاللہ زہری کی جماعت نےحکومت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اسمبلی کی کارروائی کا مقاطعہ کیے رکھا ہے۔اگرچہ میاں نوازشریف کی کوشش سے اسمبلی فلور دوبارہ آباد ہو گیا ہے لیکن دلوں کی دوری تاحال برقرار ہے۔
موجودہ حکومت کے فیصلوں سے یہ تاثر عام ہوا ہے کہ اختیارات منتخب نمائمدوں کے پاس نہیں۔ بلوچستان کے معدنی منصوبوں، بندرگاہوں، فوجی کارروائیوں اور عرب شیوخ کو شکار پر پابندی کے باوجود بلوچستان میں شکار کے اجازت ناموں کے اجراء سے متعلق فیصلوں نے موجودہ سیاسی حکومت کی کم زوری ظاہر کر دی ہے، ان فیصلوں سے بلوچستان کے احساس محرومی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
موجودہ حکومت کے فیصلوں سے یہ تاثر عام ہوا ہے کہ اختیارات منتخب نمائمدوں کے پاس نہیں۔ بلوچستان کے معدنی منصوبوں، بندرگاہوں، فوجی کارروائیوں اور عرب شیوخ کو شکار پر پابندی کے باوجود بلوچستان میں شکار کے اجازت ناموں کے اجراء سے متعلق فیصلوں نے موجودہ سیاسی حکومت کی کم زوری ظاہر کر دی ہے، ان فیصلوں سے بلوچستان کے احساس محرومی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
Leave a Reply