انیس سوبتیلیس میں بنگال پریذیڈنسی میں کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے اور ٹھکانے لگانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، یہ وہ ابتدائی ذمہ داریاں تھیں جو مقامی حکومتوں کے اولین انتظامی ڈھانچے کو سونپی گئیں
پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کب ہوگا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب نہ تو حکومتوں کے پاس ہے اور نہ ہی اعلیٰ عدلیہ کے پاس۔ عدالت حکومتوں کی طرف اور عوام عدالت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اورحکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں مخلص نہیں آخر ایسا کیوں ہے۔ لوگوں کو ان کا آئینی حق نہیں مل رہا اور کوئی ایک دو برس سے نہیں بلکہ پورے چھ سال سے عوام اپنے آئینی حق سے محروم ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں روکاوٹ ملکی حالات نہیں بلکہ حکومتوں کی بددیانتی ہے۔ بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے اور عوامی مسائل کے حل میں اس سے بڑھ کر کوئی مضبوط نظام تاحال موجود نہیں لیکن اس کے باوجود گزشتہ چھ برس کے دوران اس جانب توجہ نہیں دی گئی۔ سندھ اور پنجاب میں یہ انتخابات کب ہوں گے اس کااندازہ لگانا مشکل ہے تاہم برصغیرپاک و ہند میں بلدیاتی حکومتوں کی تاریخ کے تناظر میں مقامی حکومتوں کی اہمیت اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کےفوائد کا جائزہ ضرور لیا جاسکتا ہے۔
برصغیر و پاک و ہند میں بلدیاتی نظام کی تاریخ
برصغیر پاک و ہند میں بلدیاتی اداروں کا باقاعدہ آغاز انگریز راج کی عملداری میں ہوا۔اس حوالے سے ابتدائی قوانین اور ایکٹ بھی اسی دور میں منظور ہوئے۔ انگریزوں کی آمد کے بعد سے بلدیاتی نظام کسی نہ کسی صورت میں صدیوں سے موجود رہا ہے۔ 1688ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے مدراس میں میونسپل کارپوریشن قائم کی جو برصغیر میں اپنی نوعیت کا پہلا انتظامی تجربہ تھا۔ 1842ءمیں بنگال پریذیڈنسی میں کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے اور ٹھکانے لگانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، یہ وہ ابتدائی ذمہ داریاں تھیں جو مقامی حکومتوں کے اولین انتظامی ڈھانچے کو سونپی گئیں۔ اسی طرح کا انتظامی ڈھانچہ چار برس بعد 1846ء میں کراچی میں بھی قائم کیا گیا۔ سرکاری انتظامیہ نے 1850ء میں ابتدائی طور پر لاہور اور امرتسر میں بلدیاتی نظام متعارف کروایا۔ 1862ءمیں برصغیر میں پہلا میونسپل ایکٹ منظورہوا۔ 1882ء میں پہلی بار شہری اور دیہی مقامی حکومتوں کے حوالے سے لارڈ رِپن کی حکومت نے قرار داد منظور کی۔ 1925ءمیں ہندوستان آنے والے "سائمن کمیشن” کی ایک ذمہ داری یہ بھی تھی کہ خودمختار مقامی حکومت کی گزشتہ برسوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے اور بہتری کے لیے تجاویز پیش کی جائیں۔ اس کمیشن کی تجاویز کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1935ء میں ہندوستان میں برطانوی حکومت نے صوبائی سطح پر مقامی حکومت کے خودمختار ڈھانچہ کی منظوری دے دی۔
پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں 1972ء سے 1977ء تک بلدیاتی انتخابات کروانے یا بلدیاتی اداروں کو آگے بڑھانے سے گریز کیا اوراس دوران ان اداروں کو مقامی انتظامی ایڈمنسٹریٹرز کے ذریعے چلایا
پاکستان میں بلدیاتی نظام
پاکستان کی تاریخ میں تین مختلف ادوار میں مقامی یا بلدیاتی اداروں کا وجود نظر آتا ہے۔ پاکستان میں 1958 سے 1969ءکے مختصر عرصہ میں نومولود مملکت جمہوری اور فوجی حکومتوں کے تجربے سے گزر چکی تھی۔ فوجی حکومت نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو معطل کر دیا تو اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی کہ عوامی سطح پر ایک ایسا انتخابی حلقہ تشکیل دیا جائے جو جمہوریت کی عدم موجودگی سے پیدا ہو جانے والا خلا پر کر سکے اور اسمبلیوں اور صدر کے انتخاب کے ساتھ فوجی حکومت کو جمہوری بنیاد بھی فراہم کرے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملکی تاریخ میں پہلی بار بلدیاتی نظام "بنیادی جمہوریت” کے نام سے متعارف کروایا جس کے تحت ملک میں پہلی مرتبہ 1962ء میں بلدیاتی ادارے قائم ہوئے۔ بعدازاں پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں 1972ءسے 1977ء تک بلدیاتی انتخابات کروانے یا بلدیاتی اداروں کو آگے بڑھانے سے گریز کیا اوراس دوران ان اداروں کو مقامی انتظامی ایڈمنسٹریٹرز کے ذریعے چلایا۔
مقامی حکومتیں ضلع ، تحصیل اور یونین کی سطح پر عوامی نمائندوں کے ذریعے سرکاری محکموں کی نگرانی کے علاوہ مقامی نوعیت کے مسائل حل کرنے کی بھی ذمہ دار ہوتی ہیں
پیپلزپارٹی کی حکومت کے بعد جنرل ضیاءالحق نے فوجی مارشل لاءلگایا تو انہوں نے بھی 1979ء میں دوسری بار بلدیاتی آرڈیننس کی مدد سے مقامی بلدیاتی اداروں کا نظام متعارف کروا کر بلدیاتی انتخابات کروائے جو عملی طور پر 1989ء تک کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے۔ ضیاءالحق کا دور حکومت ختم ہونے کے بعد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی دو دو بار حکومتیں بنیں لیکن اس دوران بلدیاتی ادارے کبھی فعال اور کبھی پابندیوں کے زیر عتاب رہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999ء کو فوجی مداخلت کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوئے تو انہوں نے پہلے سے رائج بلدیاتی اداروں کو توڑ کر مقامی حکومتوں کا نیا نظام متعارف کروایا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا جس میں لفظ "مقامی حکومت” استعمال کیا گیا۔ اس سے مراد یہ تھی کہ تیسرے درجے کی حکومت کے اصول کو قبول کرکے آگے بڑھا جائے۔ اگرچہ یہ نظام فوجی حکومت کی جانب سے متعارف کرایا گیا جس کے پیچھے کچھ ذاتی مفادات بھی تھے لیکن اس کے باوجود اس نظام میں بہت سی ایسی چیزیں تھیں جو خصوصی اہمیت کی حامل تھیں۔ ابھی حال ہی میں پہلے بلوچستان نے اور پھر خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومتوں نے بھی بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے ۔
مقامی حکومتوں کی اہمیت
مقامی حکومتیں لوگوں کو روز مرہ کی بنیادی شہری سہولیات فراہم کرتی ہیں۔یہ حکومتیں مختلف علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے مستقبل کی منصوبہ بندی بھی کرتی ہیں۔ مقامی حکومتوں کا نظام دیہات، قصبوں اورشہروں میں رہنے والوں کی زندگیوں پرمثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔مقامی حکومتوں میں بنیادی تعلیم اور صحت کے حکام بھی شامل ہوتے ہیں تاکہ علاقائی سطح پر شہریوں کی زندگی میں بہتری لائی جا سکے۔مقام حکومت کے ادارے اور نمائندے اپنے علاقے کے لوگوں کے سامنے جوابدہ ہو تے ہیں۔ مقامی حکومتی نظام کا مقصد بجٹ کی شفافیت، سماجی احتساب، شہری مسائل پر آواز اٹھانااورمقامی سطح کے سرکاری اداروں کی کارکردگی کی نگرانی کے ذریعے سیاسی طور پر مستحکم معاشرے کی تخلیق ہے۔ مقامی حکومتیں ضلع، تحصیل اور یونین کی سطح پر عوامی نمائندوں کے ذریعے سرکاری محکموں کی نگرانی کے علاوہ مقامی نوعیت کے مسائل حل کرنے کی بھی ذمہ دار ہوتی ہیں۔مقامی حکومتیں سرکاری محکموں کی کارکردگی سے لوگوں کو آگاہ کرنے ، ناقص کاردگی کا مظاہرہ کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کرنے اوربنیادی خدمات( میونسپل سروسز)کی براہ راست فراہمی کے فرائض بھی سرانجام دیتی ہیں۔
لوگوں کے لیے بلدیاتی نظام کا وجود جمہوریت کے تسلسل کا نام ہے جو انہیں ملک کے انتظام و انصرام میں براہ راست شرکت کا احساس دلاتا ہے
بلدیاتی نظام کوجمہوریت کی بنیاد کہا جاتا ہے۔ دنیا کے ہر بڑے ملک میں بلدیاتی نظام قائم ہےجہاں میئر اور کونسلرکے پاس شہر کی انتظامیہ پر مکمل اختیارات ہوتے ہیں۔ بعض شہروں میں پولیس بھی میئر کے ماتحت ہوتی ہے۔ بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے لیکن یہ بدقسمتی کی انتہا ہے کہ ملک میں جب بھی سیاسی جماعتیں برسراقتدار آئی ہیں انہیں بلدیاتی انتخابات کرانے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی۔ اس ضمن میں پاکستان تحریک انصاف کی خیبرپختونخواہ حکومت کی کارکردگی مثالی ہے جس نے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا۔ حیرت کی بات ہے کہ 21 ویں صدی میں جمہوریت کی علمبردار جماعتیں پنجاب میں 200سال پرانا کمشنری نظام تھوپنا چاہتی ہیں اور کمشنراور ڈپٹی کمشنر کے ذریعے مقامی اداروں پو اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ علاقائی تعمیر اور ترقیاتی کام بلدیاتی نظام سے ہی ممکن ہیں اور یہ کام بلدیاتی نمائندوں کا ہی ہے، ایم این اے اور ایم پی اے کا نہیں۔
بلدیاتی نظام عام آدمی کی دسترس میں ہوتا ہے اور وہ اپنے علاقے کے مسائل اس نظام کی بدولت ہی حل کرسکتا ہے،عوام کے دیرینہ مسائل کاحل بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات میں ہیں۔ حکومتیں بلدیاتی انتخابات سے اس وجہ سے خائف ہیں کہ اس سے فنڈز اور اختیارات نچلی سطح پر عوام کو منتقل ہوں گے جس سے ان کے اراکین اسمبلی کے اختیارات اور اثرورسوخ میں کمی واقع ہو گی۔ سیاسی جماعتوں کو یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ بلدیاتی ادارے ہی جمہوریت کے سب سے بڑے محافظ بن سکتے ہیں کیوں کہ ان سے عوام کا براہ راست رابطہ رہتا ہے۔ لوگوں کے لیےبلدیاتی نظام کا وجود جمہوریت کے تسلسل کا نام ہے جو انہیں ملک کے انتظام و انصرام میں براہ راست شرکت کا احساس دلاتا ہے کیونکہ بلدیاتی اداروں کے ذمہ داران سے عوام اپنے اپنے علاقوں میں براہ راست رابطے میں رہتے ہیں جو کسی قومی یا صوبائی اسمبلی کے ممبر سے ممکن نہیں۔ لیکن برا ہو ہمارے سیاسی خانوادوں کی بد عنوانی اور وسائل پر قابض رہنے کی خواہش کا جو سیاسی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات سے گریز پر مجبور کرتی ہیں۔گزشتہ کئی برسوں سے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے پنجاب کے شہری علاقوں میں صحت وصفائی کی صورتحال انتہائی سنگین ہوچکی ہے۔ بلدیاتی نظام ہو تا تو شہر کایہ حال نہ ہو تا، وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ ملک میں فوری طورپر بلدیاتی انتخابات کرواکر شہری سہولتوں کا نظام مقامی حکومت اوران کے منتخب نمائندوں کے حوالے کرے۔
بلدیاتی نظام عام آدمی کی دسترس میں ہوتا ہے اور وہ اپنے علاقے کے مسائل اس نظام کی بدولت ہی حل کرسکتا ہے،عوام کے دیرینہ مسائل کاحل بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات میں ہیں۔ حکومتیں بلدیاتی انتخابات سے اس وجہ سے خائف ہیں کہ اس سے فنڈز اور اختیارات نچلی سطح پر عوام کو منتقل ہوں گے جس سے ان کے اراکین اسمبلی کے اختیارات اور اثرورسوخ میں کمی واقع ہو گی۔ سیاسی جماعتوں کو یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ بلدیاتی ادارے ہی جمہوریت کے سب سے بڑے محافظ بن سکتے ہیں کیوں کہ ان سے عوام کا براہ راست رابطہ رہتا ہے۔ لوگوں کے لیےبلدیاتی نظام کا وجود جمہوریت کے تسلسل کا نام ہے جو انہیں ملک کے انتظام و انصرام میں براہ راست شرکت کا احساس دلاتا ہے کیونکہ بلدیاتی اداروں کے ذمہ داران سے عوام اپنے اپنے علاقوں میں براہ راست رابطے میں رہتے ہیں جو کسی قومی یا صوبائی اسمبلی کے ممبر سے ممکن نہیں۔ لیکن برا ہو ہمارے سیاسی خانوادوں کی بد عنوانی اور وسائل پر قابض رہنے کی خواہش کا جو سیاسی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات سے گریز پر مجبور کرتی ہیں۔گزشتہ کئی برسوں سے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے پنجاب کے شہری علاقوں میں صحت وصفائی کی صورتحال انتہائی سنگین ہوچکی ہے۔ بلدیاتی نظام ہو تا تو شہر کایہ حال نہ ہو تا، وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ ملک میں فوری طورپر بلدیاتی انتخابات کرواکر شہری سہولتوں کا نظام مقامی حکومت اوران کے منتخب نمائندوں کے حوالے کرے۔
صوبوں میں برسراقتدار جماعتیں وفاق سے اپنے لیے تو مزید اختیارات اور وسائل کی فراہمی پر اصرار کرتی ہیں لیکن انہیں یہ گوارا نہیں کہ مقامی سطح پر عوام اپنی تقدیر کے مالک خود بن سکیں
اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ایک آئینی تقاضا
حکمرانوں کا طرز سیاست ایسا ہے کہ یہاں اختیارات صرف چندہاتھوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ عوامی نمائندے اختیارات کی عوام تک منتقلی سے گھبراتے ہیں اور یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ جب تک عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوں گے اس وقت تک حکومت مضبوط نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کا ایک متفقہ آئین بھی ہے، قانون بھی ہے اور محکمہ جات بھی قائم ہیں۔ مسائل کے حل کے لیے مجاز افسران بھی ہیں، جرائم کی روک تھام، عوامی شکایات کے ازالے اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے ادارے اور منتخب نمائندے بھی موجود ہیں لیکن اس کے باوجود عوامی مسائل حل نہیں ہو رہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی سے گریز ہے۔ مرکز، صوبوں اور صوبے اضلاع کو اختیارات منتقل نہیں کر رہے۔ یہ عجیب تضاد ہے اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعہ وفاق سے صوبوں کو اختیارات تومنتقل کر دئیے گئےمگرپنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کو اختیارات منتقل کرنے سے پہلو تہی کررہی ہیں۔ حالانکہ یہ ایک ایسا قانونی تقاضا ہے جو آئین میں صریحاً مذکور ہے۔ صوبے پابند ہیں کہ وہ مقامی حکومتوں کے قیام کے لیے ضروری قانون سازی کریں اور منتخب اداروں کو درکار ضروری وسائل اور انتظامی اختیارات تفویض کریں تا کہ عوام کو ان کی دہلیز پر سہولیات میسر آ سکیں۔
اس حقیقت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا کہ مقامی حکومتوں کا نظام اپنی فعالیت، اثر پذیری اور مثبت نتائج کے اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اختیارات کی عدم مرکزیت کا اصول اٹھارویں آئینی ترمیم کی روح ہے جس کے تحت وفاقی اکائیوں کو 1973 کے آئین میں دی گئی ضمانت کے تحت بالآخر خودمختاری تو دے گئی، لیکن اراکین قومی اسمبلی اپنی اصل ذمہ داری یعنی قانون سازی سے زیادہ افتتاحی تختیاں لگوانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ پاکستان میں اراکین پارلیمان کو ترقیاتی فنڈز دے کر ٹھیکیداری کا چسکا لگادیا گیا۔ کمیشن کے نام پر کمائی کا سلسلہ جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے قیام کی راہ میں رقم بٹورنے کے سواکوئی دوسری رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ صوبوں میں برسراقتدار جماعتیں وفاق سے اپنے لیے تو مزید اختیارات اور وسائل کی فراہمی پر اصرار کرتی ہیں لیکن انہیں یہ گوارا نہیں کہ مقامی سطح پر عوام اپنی تقدیر کے مالک خود بن سکیں۔ مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی میں پاکستانی جمہوریت کی مثال کسی ایسے درخت کی سی ہے جس کی جڑیں دھرتی میں پیوست ہی نہیں۔ یہ طے ہے کہ حکومتوں کی کامیابی عوامی مسائل کے ادراک اور حل میں ہے۔ جب تک عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوں گے اس وقت تک حکومت مضبوط نہیں ہو سکتی۔
حکومت اگر حقیقی معنوں میں عام لوگوں کے مسائل حل کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہیئے کہ اختیارات کی حقیقی منتقلی یقینی بنائے اور بلدیاتی انتخابات کراکے اس کے ثمرات کو عام آدمی تک پہنچائے۔ اگر ایسا ہو تو مجھے یقین ہے کہ حکومت ہر طرح کے سیاسی بحران سے نکل آئے گی اور اس سے نظام بھی مضبوط ہو گا۔
اس حقیقت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا کہ مقامی حکومتوں کا نظام اپنی فعالیت، اثر پذیری اور مثبت نتائج کے اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اختیارات کی عدم مرکزیت کا اصول اٹھارویں آئینی ترمیم کی روح ہے جس کے تحت وفاقی اکائیوں کو 1973 کے آئین میں دی گئی ضمانت کے تحت بالآخر خودمختاری تو دے گئی، لیکن اراکین قومی اسمبلی اپنی اصل ذمہ داری یعنی قانون سازی سے زیادہ افتتاحی تختیاں لگوانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ پاکستان میں اراکین پارلیمان کو ترقیاتی فنڈز دے کر ٹھیکیداری کا چسکا لگادیا گیا۔ کمیشن کے نام پر کمائی کا سلسلہ جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے قیام کی راہ میں رقم بٹورنے کے سواکوئی دوسری رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ صوبوں میں برسراقتدار جماعتیں وفاق سے اپنے لیے تو مزید اختیارات اور وسائل کی فراہمی پر اصرار کرتی ہیں لیکن انہیں یہ گوارا نہیں کہ مقامی سطح پر عوام اپنی تقدیر کے مالک خود بن سکیں۔ مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی میں پاکستانی جمہوریت کی مثال کسی ایسے درخت کی سی ہے جس کی جڑیں دھرتی میں پیوست ہی نہیں۔ یہ طے ہے کہ حکومتوں کی کامیابی عوامی مسائل کے ادراک اور حل میں ہے۔ جب تک عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوں گے اس وقت تک حکومت مضبوط نہیں ہو سکتی۔
حکومت اگر حقیقی معنوں میں عام لوگوں کے مسائل حل کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہیئے کہ اختیارات کی حقیقی منتقلی یقینی بنائے اور بلدیاتی انتخابات کراکے اس کے ثمرات کو عام آدمی تک پہنچائے۔ اگر ایسا ہو تو مجھے یقین ہے کہ حکومت ہر طرح کے سیاسی بحران سے نکل آئے گی اور اس سے نظام بھی مضبوط ہو گا۔
Leave a Reply