پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاستدان کا اس قدر میڈیا ٹرائل نہیں ہوا جس قدر آصفٖ علی زرداری کا ہوا ہے۔ بینظیر بھٹو شہید سے شادی کے بعد سے آج تک کبھی نواز شریف، کبھی پرویز مشرف تو کبھی ان کی اپنی ہی جماعت کے لوگ سبھی آصف علی زرداری پر الزامات کی اس تواتر سے بوچھاڑ کرتے رہے ہیں کہ ان کے بارے میں سچ کو جھوٹ سے علیحدہ کرنا بے حد دشوار ہے۔ آصف علی زرداری صاحب کی ذات اور محترمہ کی زندگی میں ان پر لگنے والے کرپشن کے الزامات سے قطع نظر پیپلز پارٹی کے کارکنان اور رہنماوں کے لیے لیے اس وقت یہ سوال زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ چاروں صوبوں کی جماعت کہلانے والی جماعت آج ایک صوبے میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور اس صورت حال کا ذمہ دار عموماً آصف علی زرداری کو قرا دیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت سے نہ تو کوئی کارکن خوش ہے اور نہ ہی کوئی رکن۔ پنجاب جہاں کبھی پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت ایک مضبوط حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی تھی وہاں آج اس جماعت کو انتخابات کے دوران ایسے امیدوار دستیاب نہیں جو انتخابی مہم چلانے کے اہل ہوں۔ کراچی سے پیپلزپارٹی کا وجود مٹ چکا ہے اور کوئی نوجوان اس جماعت میں شمولیت یا اس کی حمایت کو تیار نہیں، آج کا نوجوان بھٹو یا بی بی کی شہادت یا ان کی غریب پرور سیاست سے واقف نہیں، آج کے ووٹر کے لیے پیپلز پارٹی کا تعارف آصف علی زرداری کی پانچ سالہ حکومت ہے اور اس دور میں روا رکھے جانے والی مالی بدعنوانیاں اور بدترین حکومتی کارکردگی ہے۔ یقیناً آصف علی زرداری اور ان کے قریبی رفقاء نے پیپلز پارٹی کو مرنے کے قریب پہنچا دیا ہے اور ان کا اور ان کے کرپٹ ساتھیوں کا احتساب ضروری ہے۔
پنجاب جہاں کبھی پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت ایک مضبوط حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی تھی وہاں آج اس جماعت کو انتخابات کے دوران ایسے امیدوار دستیاب نہیں جو انتخابی مہم چلانے کے اہل ہوں
گزشتہ دنوں فوجی قیادت کے خلاف آصف علی زرداری کی پریس کے بعد سے شروع ہونے والے سیاسی بحران کے بعد سے پاکستان کے جمہوری نظام کا مستقبل ایک بار پھر خدشات کا شکار ہو گیا ہے اور پیپلز پارٹی کے تیور یہ ظاہر کررہے ہیں کہ وہ اپنی سیاست بچانے کے لیے اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ آصف علی زرداری کا بیان پیپلز پارٹی کے ایک نئے دور کا پیش خیمہ ہے جو مسلم لیگ نواز سے مصالحت کے خاتمے اور حزب اختلاف کے طور پر مزاحمت اور احتجاج کی سیاست ثابت ہو سکتا ہے۔
اس سب کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا پیپلز پارٹی ایک بار پھر ماضی کی طرح ایک فعال، متحرک اور مقبول جماعت بن کر سامنے آ سکتی ہے اور کیا تحریک انصاف کی جانب مائل نوجوانو ں کو اپنی جانب کھینچ سکتی ہے یا نہیں۔ گلگت بلتستان کے انتخابات نے یہ ظاہر کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت بری طرح کم ہوئی ہے اور اس اک ووٹ بنک تقسیم ہو چکا ہے۔ اپنی کم ہوتی ہوئی مقبولیت کو بڑھانے اور اگلے انتخابات جیتنے کے قابل ہونے کے لیے پیپلز پارٹی کو ایک طویل جدوجہد کی ضرورت ہے۔
اس سب کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا پیپلز پارٹی ایک بار پھر ماضی کی طرح ایک فعال، متحرک اور مقبول جماعت بن کر سامنے آ سکتی ہے اور کیا تحریک انصاف کی جانب مائل نوجوانو ں کو اپنی جانب کھینچ سکتی ہے یا نہیں۔ گلگت بلتستان کے انتخابات نے یہ ظاہر کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت بری طرح کم ہوئی ہے اور اس اک ووٹ بنک تقسیم ہو چکا ہے۔ اپنی کم ہوتی ہوئی مقبولیت کو بڑھانے اور اگلے انتخابات جیتنے کے قابل ہونے کے لیے پیپلز پارٹی کو ایک طویل جدوجہد کی ضرورت ہے۔
زرداری کی جانب سے فوجی قیادت پر شدید تنقید نے جہاں پیپلز پارٹی کو تنہا کیا ہے وہیں پاکستانی سیاست میں ایک اہم پیش رفت اور پیپلز پارٹی کے مستقبل کی جانب اشارہ بھی کیا ہے
نوجوان بلاول بھٹو زرداری وہ ترپ کا پتہ ہیں جو پیپلز پارٹی کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ زرداری کی جانب سے فوجی قیادت پر شدید تنقید نے جہاں پیپلز پارٹی کو تنہا کیا ہے وہیں پاکستانی سیاست میں ایک اہم پیش رفت اور پیپلز پارٹی کے مستقبل کی جانب اشارہ بھی کیا ہے۔ بہت جلد پاکستان میں سیاست دو دھڑوں میں تقسیم ہونے کو ہے جس میں سے ایک دھڑا عسکری قیادت کی پشت پناہی اور حمایت کا خواہاں نظر آتا ہے تو دوسری جانب ایک کم زور دھڑا ان سیاسی جماعتوں پر مشتمل بنتا نظر آتا ہے جو عسکری مداخلت کے مخالف ہیں۔ ایک جانب مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف ہیں جو کسی بھی صورت میں عسکری قیادت کو ناراض کرنے کے قائل نہیں تو دوسری طرف پیپلز پارٹی، ایم کیوا یم اور اے این پی کا سابقہ اتحاد اکٹھا ہوتا نظر آرہا ہے جو عسکری قیادت کی بے جا مداخلت کے خلاف احتجاج کرے گا۔
پیپلز پارٹی یقیناً آنے والے دنوں میں مسلم لیگ نواز حکومت کو دباو میں لا کر فوج اور پیپلز پارٹی میں سے پیپلز پارٹی کا انتخاب کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن کیا یہ چال کامیاب بھی ہوگی ؟ اس کا دارومدار مکمل طور پر بلاول بھٹو کے طرز سیاست پر ہے۔ اگر چہ اس وقت عمران خان کی pro-establishment سیاست کے باعث فوج کی حمایت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، ذرائع ابلاغ فوج پر تنقید کو تیار نہیں اور نواز شریف عسکری قیادت کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں لیکن عنقریب پاکستانی عوام فوج کے کردار پر سوال اٹھائیں گے اور وہی وقت پیپلز پارٹی کی تشکیل نو کا وقت ہو گا۔
پیپلز پارٹی یقیناً آنے والے دنوں میں مسلم لیگ نواز حکومت کو دباو میں لا کر فوج اور پیپلز پارٹی میں سے پیپلز پارٹی کا انتخاب کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن کیا یہ چال کامیاب بھی ہوگی ؟ اس کا دارومدار مکمل طور پر بلاول بھٹو کے طرز سیاست پر ہے۔ اگر چہ اس وقت عمران خان کی pro-establishment سیاست کے باعث فوج کی حمایت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، ذرائع ابلاغ فوج پر تنقید کو تیار نہیں اور نواز شریف عسکری قیادت کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں لیکن عنقریب پاکستانی عوام فوج کے کردار پر سوال اٹھائیں گے اور وہی وقت پیپلز پارٹی کی تشکیل نو کا وقت ہو گا۔
اس وقت عمران خان کی (pro-establishment) سیاست کے باعث فوج کی حمایت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، ذرائع ابلاغ فوج پر تنقید کو تیار نہیں اور نواز شریف عسکری قیادت کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں لیکن عنقریب پاکستانی عوام فوج کے کردار پر سوال اٹھائیں گے
بلاول کے سامنے ایک ایسی جماعت ہے جو عملاً مفلوج ہو چکی ہے اور جس کی مقبولیت اور سندھ حکومت اس وقت داو پر ہے لیکن بلاول بھٹو کے پاس وہ میراث ہے جو اسے طالع آزما جرنیلوں، ملاوں اور دائیں بازو کے سرمایہ دار دوست سیاستدانوں کو للکارنے للکارنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ لیکن اس کے لیے بلاول کو اپنی جماعت کی تشکیل نو کرنا ہو گی، نئے سرے سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کرنا ہو گا اور خؤد کو اس بدعنوان ٹولے سے علیحدہ کرنا ہوگا جس نے پیپلز پارٹی کو گزشتہ ایک دہائی سے نرغے میں لے رکھا ہے۔ بلاول کو اپنے والد سے مختلف سیاست اور اپنے والد سے منفرد طرز حکومت کی داغ بیل ڈالنی ہو گی اور پنجاب میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے شریف برادران کے لیے حقیقی حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بالول کو ایک ایسی چومکھی لڑنی ہے جس میں پیپلز پارٹی ہی نہیں پاکستان کا جمہوری اور امن پسند مستقبل بھی داو پر لگا ہوا ہے۔ یہ اس آئین کی بقاء کی جنگ ہے جسے ضیاء الحق اور اس کی باقیات نے بگاڑاہے۔ یہ ایک ڈھکے چھپے مارشل لاء کے چہرے کا جمہوری نقاب اتارنے کی جنگ ہے جو تمام سیاسی قوتوں کی بقاء کا مسئلہ ہے۔ اس وقت صرف پیپلز پارٹی کے پاس یہ طاقت اور صلاحیت ہے کہ وہ پاکستانی عوام کو یاددلائے کے حکومت اور پالیسی سازی چند جرنیلوں کا کام نہیں بلکہ عوام کا استحقاق ہے۔ پیپلز پارٹی اگر بلاول کی سربراہی میں اپنا وجود قائم رکھ سکی تو وہ وقت دور نہیں جب جرنیلوں کے سیاہ اعمال نامے ذرائع ابلاغ پر بریکنگ نیوز بن کر چلیں گے اور لوگوں کو احساس ہو گا کہ اس ملک میں کرپشن ، دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کی سب سے زیادہ سرپرستی فوجیوں نے ہی کی ہے۔