Laaltain

بلائنڈ لو؛ خامیاں کم خوبیاں زیادہ

12 اگست، 2016
Picture of احمد حماد

احمد حماد

سینیئر ہدایت کار سیّد فیصل بُخاری کی تازہ فلم “بلائینڈ لوّ” سینما جا کر فلمیں دیکھنے کے رسیا فلم بینوں کے لیے ایک عُمدہ کاوش ہے۔ اسے سینما کی فلم کا رُوپ اس کے ساؤنڈ ایفیکٹس، فریمنگ، کمپوزیشن اور لائٹ نے دیا۔ ورنہ اگر اس کی کہانی، اسکرین پلے، پلاٹنگ، ایڈیٹنگ اور ساؤنڈ ڈیزائن پر بات چھوڑی جاتی تو یہ ایک اچھی ٹیلی فلم بن کر رہ جاتی، سینما کا پِیس کبھی نہ بنتی۔

 

فیصل بخاری نے اس سے پہلے “بھائی لوگ” اور “سلطنت” ڈائریکٹ کی ہیں۔ سلطنت باکس آفس پر ایک سُوپر فلاپ فلم ثابت ہوئی۔ بھائی لوگ کی ایڈورٹائزمنٹ تو خوب ہوئی مگر اس کو مطلوبہ اسکرینز میسر نہ تھیں. تاہم، فیصل کے کامیاب ٹی وی پراجیکٹس نے انہیں ایک قابلِ اعتماد ہدایت کار کے طور پر متعارف کرایا۔ پروڈیوسرز ان کی صلاحیت پر اعتماد کرتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ سینما کے لیے ان کے کیے گئے کام میں بھی نکھار آ رہا ہے۔ مگر، ہنوز دلّی دُور است۔۔۔۔

 

ایڈیٹنگ:

 

اس اہم رومانٹک رابری تھرلر فلم کی ایڈیٹنگ سیّد علی بُخاری نے کی ہے۔ ایڈیٹنگ اور ساؤنڈ ڈیزائن سراسر سٹار پلس کے ڈراموں والے ہیں۔ اور، سٹار پلس کے ڈراموں کی ایڈیٹنگ اور ساؤنڈ ڈیزائن اسّی اور نوّے کی دہائی کی بھارتی فلموں سے متاثرہ ہیں۔ اسی وجہ سے یہ جدید سینما کے لیے بنائی گئی فلم سے زیادہ ٹیلی فلم لگتی ہے۔ اچھی سینماٹوگرافی اور ساؤنڈ ایفیکٹس کو ایڈیٹنگ اور ساؤنڈ ڈیزائن نے برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی.

 

بلائنڈ لوّ البتہ ایسی بَور فلم ہرگز نہیں ہے۔ یہ فلم آپ کو اپنے ساتھ لے کر چلتی ہے۔ اور انٹرول کے بعد کی فلم کو تو گویا سانس روک کر دیکھنا پڑتا ہے۔
ہم نے “بلائنڈ لو” کو اہم اس لیے کہا کہ اس یانرا کی ایک فلم “سوال سات سو کروڑ ڈالر کا” تھکا دینے کی حد تک بور فلم تھی۔ بندہ جمشید جان محمد کی وہ فلم دیکھتا جائے اور سوچتا جائے، اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی؟
بلائنڈ لوّ البتہ ایسی بَور فلم ہرگز نہیں ہے۔ یہ فلم آپ کو اپنے ساتھ لے کر چلتی ہے۔ اور انٹرول کے بعد کی فلم کو تو گویا سانس روک کر دیکھنا پڑتا ہے۔ ایسا کسا ہوا سسپنس کہ کیا کہنے۔۔۔۔

 

سینماٹوگرافی:

 

سینماٹوگرافی متاثر کُن ہے۔ ڈی او پی نے بھی اچھا کام کیا۔ فریمنگ اور کمپوزیشن کے میدان میں تو نہایت عُمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ فیصل نے جدید کیمرے اور جدید شاٹس (جیسے کاپٹر شاٹس) کا استعمال بھی عُمدگی سے کیا ہے۔ ایک گانا “جانیا جانیا” کو پاکستان کے شُمال میں شُوٹ کیا گیا ہے۔ اس کی سینماٹوگرافی اور آرٹ ڈائریکشن حیران کُن حد تک خوبصورت ہے۔ اگر اس گانے کو اس فلم کی مجموعی جمالیات کا نقطہِ عروج کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اگرچہ ہمیں اس کی شاعری اور موسیقی دونوں پر تحفظات ہیں۔

 

میک اپ:

 

میک اپ کے میدان میں بہتری کی ضرورت ہے۔ ڈیجیٹل کیمرے بہت ظالم ہیں۔ Low Key شاٹس میں بھی کرداروں کے چہروں پر لگائی گئی Base صاف دکھائی دیتی ہے۔ High Key میں تو گویا اتیا چار ہی ہو جاتا ہے۔ جیسے کہ دن کی روشنی میں ہیروئن نمرہ خان کی گردن کالی، چہرہ بہت گورا نظر آ رہا تھا۔ یہ اپنے سہیل وڑائچ کے بقول ایک کھُلا تضاد تھا۔

 

کیریکٹرائزیشن، کاسٹنگ اور کاسٹیومز:

 

لیڈ ولن کا کردار معروف اداکار مصطفیٰ قریشی کے فرزند عامر قریشی نے ادا کیا۔ کہانی کہنہ مشق مصنف پرویز کلیم کی ہے۔
لیڈ ولن کا کردار معروف اداکار مصطفیٰ قریشی کے فرزند عامر قریشی نے ادا کیا۔ کہانی کہنہ مشق مصنف پرویز کلیم کی ہے۔ کیریکٹرائزیشن کی بُنیاد کہانی میں رکھی جاتی ہے۔ عامر کا کیریکٹر ایک لاہوری بیڈ بوائے کا تھا۔ مگر نہ مکالموں کی زبان اس کیریکٹر پر جم رہی تھی، نہ کاسٹیوم ویسا تھا اور نہ لب و لہجہ۔ ادائیگی سے موصوف لاہوری کم، بھارتی موالی زیادہ محسوس ہو رہے تھے۔ یہ خامی عامر کی نہیں۔ کہانی لکھنے والے کی، اسکرین پلے رائٹر کی ہدایت کار اور مکالمے لکھنے والی کی ہے۔

 

اسی طرح ہیرو سیّد یاسر شاہ لاہوری ڈاکو کم اور باڈی بلڈنگ کے مقابلے جیتنے والے مسٹر لاہور زیادہ دِکھ رہے تھے۔
نمرہ خان فلم کی ابتدا میں ہی نابینا ہو جاتی ہیں۔ مگر ساری فلم میں آنکھیں چمک رہی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ چمک کم منعکس کرنے والے لینز استعمال کر لیے جاتے۔

 

انسپکٹر کبیر کے رول میں فواد جلال پولیس افسر سے زیادہ ڈانس میسٹرو دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے کندھے سے لٹکتا پستول بجائے ہتھیار کے، کوئی تمغہ وغیرہ نظر آتا تھا۔ اوور ایکٹنگ اس پر مستزاد۔

 

اداکاری:

 

فلم میں زیادہ تر لاؤڈ ایکٹنگ کی گئی۔ جس سے اوور ایکٹنگ کا تاثر اُبھرا۔ اوور ایکٹنگ کرنے میں عمران بخاری، عامر قریشی، یاسر شاہ اور نمرہ خان میں ایک دوڑ سی لگی ہوئی تھی۔ اس مقابلے کو یاسر شاہ نے جیتا۔

 

کیا فلم انڈسٹری کا سفر ایک بار پھر کراچی سے لاہور کی طرف ہو رہا ہے؟

 

ابھی یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ مگر لاہور پے در پے اچھی فلمیں بھی دے رہا ہے۔ عشق پازیٹو لاہور کی فلم ہے. جوانی پھر نہیں آنی بھی زیادہ تر لاہوریوں کی فلم تھی. بلائنڈ لوّ بھی لاہور کی فلم ہے۔ اس کی شوٹنگ بادشاہی مسجد کے قریب، بحریہ ٹاؤن میں؛ اور راولپنڈی میں کی گئی ہے۔ یہ انڈسٹری بہرحال لولی وُڈ تب کہلائے گی جب فلم تیار بھی یہیں ہوا کرے گی۔

 

ساؤنڈ:

 

اس فلم کی سب سے زیادہ متاثر کُن خُوبی اس کے ساؤنڈ ایفیکٹس اور فولی ساؤنڈز ہیں۔ ساؤنڈ ڈیزائن البتّہ کمزور اور شور پر مبنی ہے۔

 

ساؤنڈ ایفیکٹس اور فولی دونوں بہت اچھے ہیں. سینما کو مدِنظر رکھ کر ساؤنڈ ایفیکٹس دیے گیے۔ مگر فائٹ سیکوینسز کے ایفیکٹس اچھے نہیں۔ پَنچ اور دھم سے گرنے کی شاک ویوز پیدا نہیں ہوتیں۔ گانوں کی ساؤنڈ مکسنگ اور لیول دونوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اے ڈی آر پر مزید محنت درکار تھی۔ اس کی کمزوری نے بہت جگہ مزہ کرکرا کیا۔

 

فلم بزنس کرے گی؟

 

بعض جگہ ہدایت کار کی گرفت ڈھیلی پڑی۔ جس کی وجہ سے چند ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں جو آسانی سے برداشت نہیں ہوتیں۔
جی ہاں۔ فلم بزنس کرے گی مگر بہت کامیاب نہیں رہے گی۔ بعض جگہ ہدایت کار کی گرفت ڈھیلی پڑی۔ جس کی وجہ سے چند ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں جو آسانی سے برداشت نہیں ہوتیں۔ جیسے کہ ہیروئن اپنے ہیرو کے قتل کے بعد، جس کا خون باورچی خانے کے فرش پر پھیلا ہوا ہے، کافی دیر تک اسے تلاش کرتی رہتی ہے۔ اور اس کو تازہ خون کی مہک نہیں آتی، دو بار خون کے نہایت قریب سے گزرنے کے بعد بھی؛ جبکہ نابینا افراد کی قوتِ شامہ اور سماعت بہت تیز ہو جاتی ہیں۔ جس کا اظہار ہیروئن نے فلم کے آخر پر کیا بھی۔

 

فلم کا انجام بھی زیادہ خوشگوار نہیں۔

 

مگر ایسی خامیاں اس فلم کو شاید مکمل طور پر فلاپ نہیں کریں گی۔ کیونکہ اس فلم ميں خامیاں کم اور خوبیاں زیادہ ہیں۔ مثلاً ایک بہت اہم خوبی یہ ہے کہ انٹرول کے بعد اگرچہ کہانی ایک ہی اپارٹمنٹ میں چلتی ہے، اور لوکیشنز تبدیل نہیں ہوتیں، نہ ہی وقت تیزی سے گزرتا ہے۔ مگر ہدایت کار اور کہانی کار فلم بینوں کی دلچسپی حیران کُن حد تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ لوگ دم سادھے دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوگا۔ علاوہ ازیں، ایک عام فلم بین کے لیے اس میں آئٹم سانگ بھی ہے اور تین طویل فائٹ سیکوئینسز بھی. سو، ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلم ایک عُمدہ تفریح ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *