سبطِ حسن

campus-talks

پنجاب یونیورسٹی کی بس پر سوار طالبہ کی حادثے میں ہلاکت پر وائس چانسلر آفس کے باہر پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات نے احتجاج کیا۔ لالٹین ذرائع کے مطابق انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن سٹڈیز پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ علیشا خالد ماڈل ٹاون لنک روڈ سے بس میں سوار ہوئی اور سید سکول سسٹم ماڈل ٹاون کے قریب حادثہ کا شکار ہو گئی۔ بس میں موجود طالبات کے مطابق بس میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے بس کنڈکٹر اور ڈرائیور نے طالبہ کو دروازے میں لٹک کر سفر کرنے سے منع کیا تھا تاہم علیشا نے ان ہدایات پر عمل نہیں کیا اور حادثے کا شکار ہو گئی۔ حادثے کے بعد بس کا ڈرائیور موقع سے فرار ہو گیا۔

campus-talk-pu-accident

واقعے کے رد عمل کے طور پر پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ نے وائس چانسلر آفس کے باہر احتجاج کیا اور مزید بسیں چلانے اور ڈرائیور کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران کی آمد اور مزید بسیں چلانے کی یقین دہانی پر منتشر ہو گئے۔ وی سی نے حادثے کا شکار بس کے ڈرائیورکی معطلی اور پولیس حوالگی کا بھی اعلان کیا۔ احتجاج میں شریک انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایدمنسٹریشن کے طالبِ علم طارق خٹک نے وائس چانسلر کے ان اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے مزید بسیں چلانے سے اس طرح کے حادثات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
یونیورسٹی بس چلانے والے ڈرائیور محمد اسلم نے لالٹین سے گفتگو کرتے ہوئے طلبہ کی غفلت کو حادثات کا ذمہ دار قرار دیا۔ محمد اسلم کے مطابق اکثر طلبہ اگلے پوائنٹ (یونیورسٹی بس)کا انتظار کرنے کی بجائے بس کے دروازوں میں کھڑے ہو کر سفر کرتے ہیں اور منع کرنے پر بھی باز نہیں آتے۔ طلبہ اپنی غفلت کی وجہ سے اکثر حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
شاہدرہ سے یونیورسٹی بس پر نیو کیمپس تک کا سفر کرنے والی طالبہ فائزہ کنول کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بسیں اوور لوڈ ہوتی ہیں خصوصاً صبح اور شام کے وقت چلنے والے پوائنٹس میں گنجائش سے زیادہ طلبہ سوار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر طلبہ کو دروازے میں لٹک کر سفر کرنا پڑتا ہے جو کسی بھی وقت حادثے کا باعث بن سکتا ہے۔ یونیورسٹی آف دی پنجاب میں اس وقت طلبہ اور اساتذہ کہ سہولت کے لئے 56 بسیں موجود ہیں جو 41 روٹس پر سفر کرتی ہیں جب کہ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے دس ہزار سے زائد طلبہ بسوں کا ستعمال کرتے ہیں۔


2 Responses

  1. aumir

    Its a big laugh, by just introducing new buses on routes is not solution. I recall my old days 8n university there were less students in university and on buses but still students recalcitrant to stand on moving bus gates ignoring drivers warnings.

    جواب دیں
    • Shoaib

      I agree and the news also highlights this thing that unless the students are aware and adopt by the precautions and safety measures the problem cant be solved.

      جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: