میں ہر اتوار کی شام عجائب گھر کے باغیچے میں گزارتا ہوں۔ پہلے پہل جب میں اس شہر آیا تھا تو میں عجائب گھر کے اندر جا یا کرتا تھا اور نوادرات دیکھا کرتا تھا پر اب میں باغیچے میں ہی ایک بنچ پر کہ جس کے ساتھ بلب کا کھمبا لگا ہے شام گزار دیتا ہوں۔سورج جب عجائب گھر کے برج کے پیچھے ڈھل رہا ہوتا ہے تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے کوئی کائناتی ہرکارہ سورج کو عجائب گھر کے گودام میں رکھنے کے لئے کھینچ کر لیے جا رہا ہو۔ میں ہر ہفتے کے بعد سورج کو یونہی گرفتار دیکھتا ہوں۔ برج پر لگا گھڑیال سورج کے پکڑے جانے پر یوں شور مچاتا ہے جیسے اسے بھی رات کا خوف ہو۔
ایک شام جب میں اسی بنچ پر بیٹھا تھا اور سورج ڈھل چکا تھا تو گھڑیال اپنے مقررہ وقت سے ہٹ کر بجنے لگا۔ اندھیرا پڑ رہا تھا اور اس وقت باغیچے میں میرے علاوہ صرف ایک بلی ہی تھی جو مسلسل گھاس میں پنجے مار رہی تھی۔ شاید میں اسے وہم جانتا پر گھڑیال دوبارہ بجا اور اس نے کہا "نزدیک آؤ ،کیا تم مجھے سن سکتے ہو ؟” میں اٹھا اور برج کے قریب ہوا۔ گھڑیال کی بناوٹ بتا رہی تھی کہ وہ کافی پرانا ہے۔
"بزرگ گھڑیال ‘ تمہیں زبان کس طرح حاصل ہوئی ؟” میں نے متحیر انداز میں سوال کیا۔
"کیا تم نہیں جانتے کہ جو پتھر چوٹیوں کے نہیں رہتے وہ کیسے گونج دار آواز کے ساتھ گھاٹیوں میں گرتے ہیں نوجوان دوست !” گھڑیال نے جواب دیا۔
اتنا کہہ کر گھڑیال کا گھنٹہ بجا اور میری پیشانی پہ ایک قطرہ آن گرا۔ میں نے اسے انگلی سے صاف کیا اور اوپر دیکھا ۔ گھڑیال رو رہا تھا۔
"کیا اپنے دوست کو تم اپنا المیہ نہیں بتاؤ گے بزرگ گھڑیال ؟” میں نے اداسی بھرا سوال کیا۔
"مجھ پہ زمانہ بیت رہا ہے اور میں اپنی تکمیل کے اس سفر میں ہوں جس کی کوئی انتہا مجھے معلوم نہیں۔ کیا ہر گزرتے گھنٹے تم میرا نوحہ نہیں سنتے ؟ کیا تم میرے سینے کی خراشیں نہیں دیکھ رہے ؟یہ سب ان سوئیوں کا کیا دھرا ہے جو مجھے یہ جتا کر غم زدہ کرتی ہیں کہ میں ابھی ادھورا ہوں۔ ان کی یہ مسلسل حرکت کتنی اداس کر دینے والی ہے۔”
"پر تمہاری تکمیل کیا ہے بزرگ گھڑیال ؟ کیا تم گھڑیال نہیں رہنا چاہتے ؟” مجھ سے ضبط نہ ہو سکا اور میں نے اس کی بات کاٹتے ہوۓ کہا۔
"میں جانتا ہوں کہ تم اندر عجائب گھر کے سب کمروں میں پڑے نوادر سے واقف ہو۔ تم دیکھتے نہیں ہو کہ ان پہ وقت رک گیا ہے۔ کیسے ان کا تعارف ان کے وجود کے سرورق پہ آگیا ہے جیسے پانی پہ جھاگ آ ٹکتا ہے۔ وہ جو ہیں اسی سے پہچانی جاتی ہیں۔ اور میں ۔۔۔ میں خود پہ وقت بن کے گزر رہا ہوں۔ میں یہاں برج پر اسی سال سے مسلسل موسموں کی زد میں ہوں۔ مجھے یہاں سے شہر کا وہ کونہ بھی نظر آ رہا ہے کہ جہاں تک تمہیں پہنچنے میں گھنٹے لگ جائیں۔ میں شہر بھر کے واقعے کا شریک کار بن چکا ہوں۔ اف !! دیکھتے رہنے کا یہ ذمہ آخر میں نے اپنی مرضی سے تو نہیں اٹھایا تھا ۔”
گھڑیال کی باتیں مجھے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر رہی تھیں۔ تکمیل کا سودا ہر سر میں بھلا کیسے سما سکتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ جو یہ شوق پالتے ہیں وہ اسی کے ہو رہتے ہیں یہاں تک کہ گھڑیال کی طرح خود اپنی تصویر بن جانے کی خواہش کرتے ہیں۔
"ایسی پرحالی کی بجاۓ تم کسی الماری میں کیوں سج جانا چاہتے ہو ؟” میں نے اپنی سوچ کو سوال کی صورت ادا کیا۔
"ہاں تم اسے سج جانا ہی سمجھو گے حالانکہ یہ بچ جانا ہے۔ کیا یہ دقت تمہیں سمجھ آتی ہے کہ میں کبھی بھی رات سو نہیں سکتا کہ جنہیں سب سے اول صبح کا پتہ دینا ہو انہیں کسی رات بھی سونا نہیں چاہیے۔ میری صدا پر ایک نسل نے اپنے معمولات ترتیب دئیے ہیں اور میں شایداس کارندے جتنا مجہول ہوں جو ہر ملاقاتی کو اس کے وقت پر صاحبِ خانہ سے ملواتا ہے۔ یہ درمیانی ہونا آخر کب تک برداشت کیا جاۓ؟ میں ایسےکاموں سے فرار چاہتا ہوں جو محض مجھے درمیانی ہونے کی آزمائش میں ڈالے رکھتے ہیں۔ تم میری باتیں سمجھ رہے ہو نا ؟”
میں اس کی باتوں میں گم تھا۔ "ہاں بزرگ دوست اگرچہ یہ مشکل ہے۔ تم اپنی بات مکمل کرو” سر جھٹکتے ہوۓ مجھ سے یہی جواب بن پایا۔
"میں کچھ ایسا کرنا چاہتا ہوں کہ جس میں میں مکمل طور پہ کام میں آؤں۔ یہ درمیانی ہونا اب درمیان سے اٹھنا چائیے۔ مکمل گھڑیال کیسے ہی خوش صورت ہوتے ہوں گے۔ لیکن ایسا ہونا کم از کم میرے لئے تو ممکن نہیں۔ میرا گمان تو بس وقت کے اس برج پر ہی پھانسی چڑھ جاتا ہےجس کی انتہا پر شاید کوئی مکمل گھڑیال اپنی تمام رعنائی سمیت موجود ہو۔ میرا ہونا بھی کیا المیہ ہے۔ میں سب کو منزلوں کی خبر دیتا ہوں مگر خود اس حالت میں ہوں کہ اپنی راہ ہی مکمل نہیں ہو سکتی۔ میں الماری میں پناہ چاہتا ہوں۔جہاں میں اپنی خبر بن کے رہ جاؤں اور لوگوں کو تا ابد اپنے ان دنوں کی داستاں سناتا رہوں کہ جب میں حالتِ وجود میں تھا۔ ”
اتنی بات کرنے کے بعد گھڑیال زور سے بجا اور میرے خیالات کا تانتا عجائب گھر کے محافظ کی سیٹی سے ٹوٹا۔ وہ تیز قدموں سے میری جانب ہی چلتا آ ر ہا تھا۔ گھڑیال سے باتیں کرتے ہوۓ مجھے وقت کا مطلق احساس نہ ہوا تھا اور اب جب خیال کیا تو رات پڑنا شروع ہو چکی تھی۔
محافظ مجھ تک آ پہنچا اور مجھے فوراً وہاں سے جانے کو کہا۔ میں جلدی جلدی وہاں سے نکلا کیونکہ مجھے کافی دور جانا تھا۔ مڑ کے دیکھا تو بلب کی تیز روشنی میں گھڑیال چمک رہا تھا۔ یہ گھڑیال کتنا پراسرار تھا ۔ میں یہی سوچتا ہوا گیٹ سے باہر نکلا اور بھاگتے ہوۓ ایک بس میں سوار ہو گیا۔ میں نے اپنی کلائی سےقمیص اوپر کی اور عادتاً گھڑی دیکھی۔ گھڑی ٹک ٹک چلتی جا رہی تھی۔ سات بج کر پندرہ منٹ ہوۓ تھے۔
Leave a Reply