برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے صفحات پر آج تک جتنے بھی یورپی اور انگریزنام تحریر ہوئے ہیں ، ان میں سے شایدہی کسی نام کو تاریخ نے اتنا ملعون و مطعون کیا ہو جتنا کہ جنرل ڈائر کا نام ہمارے لئے مردود ٹھہرا ہے۔ لیکن جنرل ڈائر سے نفرت کے باوجود ہم جلیانوالہ باغ میں سیکڑکوں معصوم ہندوستانیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے جنرل ڈائر کے بارے میں کم ہی کچھ جانتے ہیں۔ جہاں جنرل ڈائر کی ذات نو آبادیاتی ذہن کی خود پسندی اور ظلم کی عکاس ہے ، وہاں بطور فوجی اس کی شخصیت اُس دور کی برطانوی فوج کی آفیسر کور کے مزاج اور رجحانات کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ ایک طرف پلٹن میں اپنے ہندوستانی سپاہیوں کے ساتھ مقامی زبانوں میں گپ ہانک کر فوجی رسوم و رواج کے ساتھ یگانگت کا اظہار کرتا نظر آتا ہے، اور دوسری طرف دیگر ہندوستانیوں کے لئے روایتی نوآبادیاتی خبثِ باطن اور حقارت کے اظہار سے بھی نہیں چوکتا۔
ڈائر کا پورا نام کرنل ریجنالڈ ایڈورڈہیری ڈائر تھا جو کہ فوج میں عارضی بریگیڈئیر جنرلi کے عہدے پر ہونے کی وجہ سے جنرل ڈائر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ڈائر 9 اکتوبر 1864 کو ضلع راولپنڈی کے پر فضا مقام گھوڑا گلی، مری میں پیدا ہوا جہاں اس کا باپ شراب کشید کرنے کی ایک بھٹی کا منتظم تھا۔’ریکس’ ڈائر اپنے والدین کے 9 بچوں میں سب سے چھوٹا تھا جس کا بچپن کچھ زیادہ خوشگوار نہیں گزرا ۔بشپ کاٹن سکول شملہ میں ابتدائی تعلیم کے دوران بھی کم سن ڈائر کو اپنے ، کاروبار میں مصروف باپ پیٹر کی کوئی خاص توجہ نہ مل سکی۔پھر اعلیٰ ثانوی تعلیم کے لیے اُسے کم عمری میں خاندان سے دور آئر لینڈ جانا پڑا۔ اعلیٰ ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اُس نے رائل ملٹری کالج سینڈ ہرسٹ میں بطورکیڈٹ شمولیت اختیار کی اور 1886 ء میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پر اپنے فوجی کیرئیر کا آغاز رائل رجمنٹ آف ویسٹ سرے سے کیا۔1887 ء میں ہندوستان تبادلے کے بعد اُسے چترال کی مہم میں حصہ لینے کیلئے 29 پنجابیز رجمنٹ میں تعینات کیا گیا لیکن وہ مہم کے خاتمے کے چھے روز بعد یونٹ میں پہنچا۔جنرل ڈائر25 پنجابیز رجمنٹ اور 39 بنگال رائفلز میں بھی تعینات رہا اور کچھ عرصہ 25 پنجابیز رجمنٹ کا کمانڈنگ افسربھی رہا جس کے بعد 1886 میں کپتان اور 1903 میں میجر پروموٹ ہوا۔ اس دوران اس نے برما، ہانگ کانگ، لنڈی کوتل اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں خدمات سرانجام دیں۔ پہلی جنگ عظیم میں ا یران میں تعینات سیستان فورس میں بھیج دیا گیا۔ اُس نے سرحدی صوبے میں مہمات کے عسکری تجربات پر “The Raiders in the Sarhad” کے عنوان سے کتاب بھی لکھی۔ اسے اُردو، فارسی اور پشتو زبان پر گرفت حاصل تھی۔ اس جنگ کے دوران ہی وہ کرنل بنا اورریٹائرمنٹ تک اسی عہدے پر فائز رہا، تاہم جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے وقت وہ عارضی بریگیڈئیر جنرل تھا۔
ڈائر کا پورا نام کرنل ریجنالڈ ایڈورڈہیری ڈائر تھا جو کہ فوج میں عارضی بریگیڈئیر جنرلi کے عہدے پر ہونے کی وجہ سے جنرل ڈائر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ڈائر 9 اکتوبر 1864 کو ضلع راولپنڈی کے پر فضا مقام گھوڑا گلی، مری میں پیدا ہوا جہاں اس کا باپ شراب کشید کرنے کی ایک بھٹی کا منتظم تھا۔’ریکس’ ڈائر اپنے والدین کے 9 بچوں میں سب سے چھوٹا تھا جس کا بچپن کچھ زیادہ خوشگوار نہیں گزرا ۔بشپ کاٹن سکول شملہ میں ابتدائی تعلیم کے دوران بھی کم سن ڈائر کو اپنے ، کاروبار میں مصروف باپ پیٹر کی کوئی خاص توجہ نہ مل سکی۔پھر اعلیٰ ثانوی تعلیم کے لیے اُسے کم عمری میں خاندان سے دور آئر لینڈ جانا پڑا۔ اعلیٰ ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اُس نے رائل ملٹری کالج سینڈ ہرسٹ میں بطورکیڈٹ شمولیت اختیار کی اور 1886 ء میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پر اپنے فوجی کیرئیر کا آغاز رائل رجمنٹ آف ویسٹ سرے سے کیا۔1887 ء میں ہندوستان تبادلے کے بعد اُسے چترال کی مہم میں حصہ لینے کیلئے 29 پنجابیز رجمنٹ میں تعینات کیا گیا لیکن وہ مہم کے خاتمے کے چھے روز بعد یونٹ میں پہنچا۔جنرل ڈائر25 پنجابیز رجمنٹ اور 39 بنگال رائفلز میں بھی تعینات رہا اور کچھ عرصہ 25 پنجابیز رجمنٹ کا کمانڈنگ افسربھی رہا جس کے بعد 1886 میں کپتان اور 1903 میں میجر پروموٹ ہوا۔ اس دوران اس نے برما، ہانگ کانگ، لنڈی کوتل اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں خدمات سرانجام دیں۔ پہلی جنگ عظیم میں ا یران میں تعینات سیستان فورس میں بھیج دیا گیا۔ اُس نے سرحدی صوبے میں مہمات کے عسکری تجربات پر “The Raiders in the Sarhad” کے عنوان سے کتاب بھی لکھی۔ اسے اُردو، فارسی اور پشتو زبان پر گرفت حاصل تھی۔ اس جنگ کے دوران ہی وہ کرنل بنا اورریٹائرمنٹ تک اسی عہدے پر فائز رہا، تاہم جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے وقت وہ عارضی بریگیڈئیر جنرل تھا۔
نوبل انعام یافتہ بنگالی ادیب سر رابندر ناتھ ٹیگور نے اس ظلم پر احتجاجاً اپنا "سر” کا خطاب واپس کر دیا۔جہاں اکثر ہندستانیوں نے جنرل ڈائر کو "قصابِ امرتسر” کے نام سے مطعون کیا وہیں کئی انگریزوں اور ہندوستانیوں نے اُسے ہندوستان کے محافظ "نکلسن صاحب بہادر” کا خطاب بھی دیا۔امرتسر میں اسے اعزازی سکھ بنانے کی تقریب بھی منعقد ہوئی جسے کئی سکھ لیڈروں کی حمایت حاصل تھی۔
1919 ء کے رولٹ ایکٹ اور سیاسی گرفتاریوں کے رد عمل میں پنجاب بھر میں ہونے والے پر تشدد مظاہروں اور احتجاجی سرگرمیوں کی وجہ سے 1919 ء کا سال پنجاب کیلئے بہت پرآشوب ثابت ہوا۔کانگریسی لیڈر ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی گرفتاری کے بعد امرتسر میں ناصرف پرتشدد مظاہرے ہوئے بلکہ کچھ مشتعل افراد کی طرف سے انگریزوں پر جان لیوا حملوں کے غیر منظم واقعات بھی ہوئے ۔ گورنر پنجاب سر مائیکل اوڈوائر نے امرتسر میں ایک مشنری استاد مس مارسیلا شیرووڈ پر حملہ کے بعد فوجی راج نافذ کیا تو جالندھر کے 45 بریگیڈ سے مدد مانگی گئی جس کی کمان تب ڈائر کے پاس تھی۔
ریجنالڈ ڈائر نے 11 اپریل 1919 ء کو امرتسر کا انتظام سنبھالا اور شہر بھر میں عوامی اجتماعات پر پابندی کا اعلان کر دیا۔اسی روز 9 اور 10 اپریل کے مظاہرے میں مارے جانے والے افراد کے جنازوں کے اجتماعات کو منتشر کرنے کیلئے اس نے طاقت کا استعمال بھی کیا۔اس دوران شہر کی فضائی نگرانی کیلئے فضائیہ کے طیارے بھی استعمال کئے گئے۔فوج اور طاقت کا استعمال مائیکل اوڈوائر کی اس بوکھلاہٹ کا غماز تھا جس نے پنجاب کی سیاسی بے چینی کو پورے ہندوستان میں بغاوت سے محمول کر کےامرتسر میں حکومتی تشدد کو جائز اور ضروری قرار دے دیا۔ امرتسرکے علاوہ پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی طاقت کے استعمال سے کافی جانی نقصان ہواحتیٰ کہ گوجرانوالہ میں تو مجمعوں کو ہراساں کرنے کیلئے فضائیہ نے بم بھی گرائے۔
13 اپریل کے روز امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں پنجاب کے تمام مذاہب اور ذاتوں کے مشترکہ تہوار ‘بیساکھی’ کے سلسلے میں امرتسر اورگردو نواح کے علاقوں سے آئے ہزاروں لوگ ایک پر امن اجتماع میں شریک تھے۔اس مجمعے میں بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں کی ایک بڑی تعداد بھی تھی۔ڈائر کو اس اجتماع کی خبر ہوئی تو وہ دوپہر ایک بجے کے وقت تقریباً پچاس سپاہیوں پر مشتمل ایک پلاٹون لے کر جلیانوالہ باغ کے داخلی راستے سے اند آیا اور پلاٹون کو فوجی قاعدے کے مطابق فائرنگ پوزیشن میں کھڑے ہونے کے احکامات دیے۔یہ پلاٹون گورکھا رجمنٹ، سکھ رجمنٹ، بلوچ رجمنٹ اور سندھ رائفلز کے اعشاریہ 303 دہانے کی ان فیلڈ رائفلوں سے مسلح سپاہیوں پر مشتمل تھی۔سول انتظامیہ کی امداد میں مجمعوں کو منتشر کرنے کے فوجی قواعد کے برعکس مجمعے کا منتشر ہونے کا کوئی حکم اور گولی چلنے کی تنبیہ نہیں کی گئی اوراچانک فائرنگ کا حکم دیے دیا گیا۔کئی ایکڑ پر پھیلے میدان میں بھرے ہزاروں کے مجمعے میں قیامت کی بھگدڑ مچ گئی۔فوجی قواعد کے عین برعکس اس نے منتشر ہونے والے افراد اور باہر نکلنے کے راستے پر فائر مرتکز کروایا،کچھ لوگوں نے باغ کی دیواریں پھاند کر نکلنے کی کوشش کی تو اُس نے حُکماً دیواروں پر بھی فائر کروایا۔ڈائر نے فوجی قانون کی ہدایت، ‘طاقت کا کم ترین استعمال اور کم ترین جانی نقصان’ کو پس پشت ڈال کر جس جگہ پر زیادہ لوگ دیکھے،وہیں فائر بڑھا دینے کا حکم دیا۔ پندرہ منٹ میں اس پلاٹون نے ایک ہزار چھے سو پچاس گولیاں چلائیں جن میں سے کم ہی خطا ہوئیں کیونکہ باغ میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 5000 کے قریب لوگ اکٹھے تھے۔ڈائر کی مشین گن بردار بکتر بند گاڑی باغ میں نہ آسکی لہٰذا باہر ہی کھڑی رہی۔ جائے وقوعہ سے جنرل ڈائر کی روانگی کے بعدبھی خوف اور فوجی پہرے کے باعث لوگ زخمیوں کی مدد اور لاشیں اٹھانے نہ پہنچ سکے۔
ریجنالڈ ڈائر نے 11 اپریل 1919 ء کو امرتسر کا انتظام سنبھالا اور شہر بھر میں عوامی اجتماعات پر پابندی کا اعلان کر دیا۔اسی روز 9 اور 10 اپریل کے مظاہرے میں مارے جانے والے افراد کے جنازوں کے اجتماعات کو منتشر کرنے کیلئے اس نے طاقت کا استعمال بھی کیا۔اس دوران شہر کی فضائی نگرانی کیلئے فضائیہ کے طیارے بھی استعمال کئے گئے۔فوج اور طاقت کا استعمال مائیکل اوڈوائر کی اس بوکھلاہٹ کا غماز تھا جس نے پنجاب کی سیاسی بے چینی کو پورے ہندوستان میں بغاوت سے محمول کر کےامرتسر میں حکومتی تشدد کو جائز اور ضروری قرار دے دیا۔ امرتسرکے علاوہ پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی طاقت کے استعمال سے کافی جانی نقصان ہواحتیٰ کہ گوجرانوالہ میں تو مجمعوں کو ہراساں کرنے کیلئے فضائیہ نے بم بھی گرائے۔
13 اپریل کے روز امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں پنجاب کے تمام مذاہب اور ذاتوں کے مشترکہ تہوار ‘بیساکھی’ کے سلسلے میں امرتسر اورگردو نواح کے علاقوں سے آئے ہزاروں لوگ ایک پر امن اجتماع میں شریک تھے۔اس مجمعے میں بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں کی ایک بڑی تعداد بھی تھی۔ڈائر کو اس اجتماع کی خبر ہوئی تو وہ دوپہر ایک بجے کے وقت تقریباً پچاس سپاہیوں پر مشتمل ایک پلاٹون لے کر جلیانوالہ باغ کے داخلی راستے سے اند آیا اور پلاٹون کو فوجی قاعدے کے مطابق فائرنگ پوزیشن میں کھڑے ہونے کے احکامات دیے۔یہ پلاٹون گورکھا رجمنٹ، سکھ رجمنٹ، بلوچ رجمنٹ اور سندھ رائفلز کے اعشاریہ 303 دہانے کی ان فیلڈ رائفلوں سے مسلح سپاہیوں پر مشتمل تھی۔سول انتظامیہ کی امداد میں مجمعوں کو منتشر کرنے کے فوجی قواعد کے برعکس مجمعے کا منتشر ہونے کا کوئی حکم اور گولی چلنے کی تنبیہ نہیں کی گئی اوراچانک فائرنگ کا حکم دیے دیا گیا۔کئی ایکڑ پر پھیلے میدان میں بھرے ہزاروں کے مجمعے میں قیامت کی بھگدڑ مچ گئی۔فوجی قواعد کے عین برعکس اس نے منتشر ہونے والے افراد اور باہر نکلنے کے راستے پر فائر مرتکز کروایا،کچھ لوگوں نے باغ کی دیواریں پھاند کر نکلنے کی کوشش کی تو اُس نے حُکماً دیواروں پر بھی فائر کروایا۔ڈائر نے فوجی قانون کی ہدایت، ‘طاقت کا کم ترین استعمال اور کم ترین جانی نقصان’ کو پس پشت ڈال کر جس جگہ پر زیادہ لوگ دیکھے،وہیں فائر بڑھا دینے کا حکم دیا۔ پندرہ منٹ میں اس پلاٹون نے ایک ہزار چھے سو پچاس گولیاں چلائیں جن میں سے کم ہی خطا ہوئیں کیونکہ باغ میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 5000 کے قریب لوگ اکٹھے تھے۔ڈائر کی مشین گن بردار بکتر بند گاڑی باغ میں نہ آسکی لہٰذا باہر ہی کھڑی رہی۔ جائے وقوعہ سے جنرل ڈائر کی روانگی کے بعدبھی خوف اور فوجی پہرے کے باعث لوگ زخمیوں کی مدد اور لاشیں اٹھانے نہ پہنچ سکے۔
اس نے ہنٹر کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ وہ باغ میں داخلے سے پہلے ہی مجمعے پر مہلک فائرنگ کرنے کے ارادے سے آیا تھا اور اگر وہ ایسا نہ کرتا تو لوگ اس پر ہنستے کہ اس کے حکم کی کوئی رٹ نہ تھی۔ کمیٹی کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے اس کا لب و لہجہ اور الفاظ کا انتخاب بھی تحقیر اور خودسری پر مبنی تھا۔
ڈائر نے امرتسر میں تمام ہندوستانی شہریوں پر انگریزباشندوں اور افسران کو بلا امتیاز سلیوٹ کرنے اور مارسیلا شیرووڈ پر حملہ کی جگہ سے پیٹ کے بل رینگ کر گزرنے کی پابندی کر دی جس کی خلاف ورزی پر کوڑوں کی سزا دی جاتی تھی۔ 14 اپریل کو، قتل عام کے اگلے روز ڈائر نے عوامی اعلان میں امرتسر کے عوام کے خلاف شدید توہین آمیز اور دھمکی آمیز زبان استعمال کی اور اپنے تئیں ہندوستان کو ایک اور غدر سے بچالیا۔
جلیانوالہ باغ امرتسر کے قتل عام کی خبرپورے ہندوستان اور برطانوی کالونیوں میں برطانوی راج کی بدنامی کا سرنامہ بن کر پھیل گئی۔ہندوستان میں جلیانوالہ باغ کا قتل عام برطانوی راج کے اختتام کا آغاز ثابت ہوا ۔ اگرچہ برطانیہ کے عوام کی بڑی تعداد نے اس قتل عام کو ایک بغاوت فرو کرنے کی کوشش میں ڈائر کا دلیرانہ اقدام قرار دیا لیکن اس وقت کے سیکرٹری آف سٹیٹ برائے دفاع ونسٹن چرچل نے جب یہ کہا کہ "ایسا بھیانک واقعہ جدید تاریخ میں کہیں نہیں ملتا” اور "وہ مجمع سراسر بے ضرر تھا اور یہ صریحاً قتل عام ہے” تو کئی باضمیر انگریزوں نے بھی ان کی تائید کی۔نوبل انعام یافتہ بنگالی ادیب سر رابندر ناتھ ٹیگور نے اس ظلم پر احتجاجاً اپنا "سر” کا خطاب واپس کر دیا۔جہاں اکثر ہندستانیوں نے جنرل ڈائر کو "قصابِ امرتسر” کے نام سے مطعون کیا وہیں کئی انگریزوں اور ہندوستانیوں نے اُسے ہندوستان کے محافظ "نکلسن صاحب بہادرii” کا خطاب بھی دیا۔امرتسر میں اسے اعزازی سکھ بنانے کی تقریب بھی منعقد ہوئی جسے کئی سکھ لیڈروں کی حمایت حاصل تھی۔
کانگریس نے اس واقعے کی پارٹی سطح کی تحقیقات کروائیں تو سامنے آنے والے اعداد وشمار بہت ذیادہ تکلیف دہ تھے؛مقتولین کی تعداد ایک ہزار کےلگ بھگ تھی جبکہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مارے جانے والوں کی تعداد 379 تھی۔
فوج کے اندر ڈائر کو اکثریت کی حمایت حاصل تھی لیکن اہل ہند کے سیاسی شعور کے آگے انگریز فوج کی خود پسندی اس معاملے میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود بھی ڈائر کو ہیرو ثابت نہ کرسکی۔اکتوبر 1919 ء میں واقعے کی سرکاری تحقیقات کا آغاز ہوا جس کے لئے لارڈ ولیم ہنٹر کی سربراہی میں "ہنٹر کمیٹی ” تشکیل دیا گیا جو مارچ 1920 تک تحقیقات کرتا رہا۔ 19 نومبر 1919 کو ڈائر جو اُس وقت تھل میں پشاور ڈویژن کے ماتحت ایک بریگیڈ کی کمان کررہا تھا، کمیٹی کے سامنے پیش ہوا۔ کمیٹی کے سوالات کے جواب میں ڈائر نے واقعہ سے متعلق غلط بیانی سے کام نہیں لیا تاہم وہ اپنے دفاع میں خاطر خواہ تاویلات پیش نہ کر سکا۔
جلیانوالہ باغ امرتسر کے قتل عام کی خبرپورے ہندوستان اور برطانوی کالونیوں میں برطانوی راج کی بدنامی کا سرنامہ بن کر پھیل گئی۔ہندوستان میں جلیانوالہ باغ کا قتل عام برطانوی راج کے اختتام کا آغاز ثابت ہوا ۔ اگرچہ برطانیہ کے عوام کی بڑی تعداد نے اس قتل عام کو ایک بغاوت فرو کرنے کی کوشش میں ڈائر کا دلیرانہ اقدام قرار دیا لیکن اس وقت کے سیکرٹری آف سٹیٹ برائے دفاع ونسٹن چرچل نے جب یہ کہا کہ "ایسا بھیانک واقعہ جدید تاریخ میں کہیں نہیں ملتا” اور "وہ مجمع سراسر بے ضرر تھا اور یہ صریحاً قتل عام ہے” تو کئی باضمیر انگریزوں نے بھی ان کی تائید کی۔نوبل انعام یافتہ بنگالی ادیب سر رابندر ناتھ ٹیگور نے اس ظلم پر احتجاجاً اپنا "سر” کا خطاب واپس کر دیا۔جہاں اکثر ہندستانیوں نے جنرل ڈائر کو "قصابِ امرتسر” کے نام سے مطعون کیا وہیں کئی انگریزوں اور ہندوستانیوں نے اُسے ہندوستان کے محافظ "نکلسن صاحب بہادرii” کا خطاب بھی دیا۔امرتسر میں اسے اعزازی سکھ بنانے کی تقریب بھی منعقد ہوئی جسے کئی سکھ لیڈروں کی حمایت حاصل تھی۔
کانگریس نے اس واقعے کی پارٹی سطح کی تحقیقات کروائیں تو سامنے آنے والے اعداد وشمار بہت ذیادہ تکلیف دہ تھے؛مقتولین کی تعداد ایک ہزار کےلگ بھگ تھی جبکہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مارے جانے والوں کی تعداد 379 تھی۔
فوج کے اندر ڈائر کو اکثریت کی حمایت حاصل تھی لیکن اہل ہند کے سیاسی شعور کے آگے انگریز فوج کی خود پسندی اس معاملے میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود بھی ڈائر کو ہیرو ثابت نہ کرسکی۔اکتوبر 1919 ء میں واقعے کی سرکاری تحقیقات کا آغاز ہوا جس کے لئے لارڈ ولیم ہنٹر کی سربراہی میں "ہنٹر کمیٹی ” تشکیل دیا گیا جو مارچ 1920 تک تحقیقات کرتا رہا۔ 19 نومبر 1919 کو ڈائر جو اُس وقت تھل میں پشاور ڈویژن کے ماتحت ایک بریگیڈ کی کمان کررہا تھا، کمیٹی کے سامنے پیش ہوا۔ کمیٹی کے سوالات کے جواب میں ڈائر نے واقعہ سے متعلق غلط بیانی سے کام نہیں لیا تاہم وہ اپنے دفاع میں خاطر خواہ تاویلات پیش نہ کر سکا۔
اندر ہی اندر وہ ایک کشمکش کا شکار رہا جیسے اس کے مرنے سے پہلے کے الفاظ کرنل نائجیل کولیٹ نے نقل کیے ہیں؛ "میں اب صرف اپنے خالق کے پاس جا کر یہ جاننا چاہتا ہوں کہ میں نے غلط کیا کہ درست”۔
امرتسر میں ہونے والے پرتشدد سیاسی مظاہروں کے واقعات ، مس شیرووڈ پر حملے اور کچھ انگریز اہلکاروں کے قتل کے واقعات جیسی تاویلات کو کمیٹی نے مسترد کر دیا۔ کمیٹی کا مؤقف تھا کہ ہندستان یا پنجاب میں واقعے کے وقت کسی بغاوت کے آثار نہیں تھے۔طاقت کے استعمال کے حوالے سے ڈائر کا کہنا تھا کہ مجمعے کی جانب سے اسے اور سپاہیوں کو خطرہ تھا، لہذا طاقت کا استعمال بغاوت فرو کرنے کے لئے ضروری تھا۔ یہ ایک احمقانہ توجیہہ تھی کہ رائفلوں سے مسلح پچاس سے زیادہ فوجیوں کی پلاٹون کو ایک ایسے مجمعے سے کیا خطرہ ہو سکتا تھا جو کہ بوڑھے بچوں عورتوں اور غیر مسلح پرامن مردوں پر مشتمل تھا۔ کمیشن کے ایک رکن سر چمن لال نے جب ڈائر سے پوچھا کہ اگر مشین گن بردار بکتر بند گاڑی باغ میں جا سکتی تو کیا اس کا بھی استعمال کیا جاتا؟ ڈائر کا جواب حتمی انداز میں مثبت تھا۔ ضوابط کے مطابق زخمی ہونے والوں کی طبی امداد کی ذمہ داری بھی ڈائر پر تھی، لیکن وہ اس سوال پر کمیٹی کو مطمئن نہ کر سکا، کیونکہ وہ سیکڑوں زخمیوں کو ناصرف مرنے کے لیے چھوڑ آیا تھا، بلکہ ان کی مدد کرنے پر بھی پابندی عاید کردی۔ اس نے ہنٹر کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ وہ باغ میں داخلے سے پہلے ہی مجمعے پر مہلک فائرنگ کرنے کے ارادے سے آیا تھا اور اگر وہ ایسا نہ کرتا تو لوگ اس پر ہنستے کہ اس کے حکم کی کوئی رٹ نہ تھی۔ کمیٹی کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے اس کا لب و لہجہ اور الفاظ کا انتخاب بھی تحقیر اور خودسری پر مبنی تھا۔ 8 مارچ 1920ء کو ہنٹر کمیٹی نے اپنے فیصلہ میں ڈائر کو جلیانوالہ کے قتل عام کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے آرمی کونسل کو موزوں اقدامات کے لیے فیصلے کا مسودہ ارسال کر دیا۔ کمیٹی نے ڈائر کو مجمعے پر بلا تنبیہ کے گولی چلانے، اختیار کا ناجائز استعمال کرنے، ضرورت سے زیادہ قوت کا استعمال کرنے اور اخلاقی طور پر کم مائیگی کا مظاہرہ کرنے کا مجرم قرار دیا لیکن اس اقدام کے لئے جرم کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا۔
جنرل سر چارلس منرو اس وقت برطانوی ہند میں کمانڈر انچیف تھے اور ڈائر کے پرانے دوست بھی تھے، ان کا اور آرمی کونسل کا خیال تھا کہ برطانیہ کے سیاسی حالات کے پیش نظر کورٹ مارشل کی کارروائی عمل میں لانا بہت مشکل ہو گا۔ چنانچہ 20 جولائی 1920 کو جنرل سر ہیولاک ہڈسن نے بطورایڈجوٹنٹ جنرل اعلی کمان کا یہ فیصلہ ڈائر کو حکماً سنا دیا کہ اس کو اعزازات اور پنشن کے بغیر فوج سے نکال دیا گیا ہے نیز افغان مہم کے دوران اسے "کمانڈر آف دی آرڈر آف دی برٹش ایمپائر” کا جو اعزاز دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، وہ بھی واپس لیا جاتا ہے۔
ڈائر کے فوج سے نکالے جانے پر بھی ملا جلا ردعمل سامنے آیا لیکن قابل ذکر امر یہ ہے کہ رڈیارڈ کپلنگ جیسے نامور ادیب نے اس سے ہمدردی کے ارادے سے 26،000 پونڈ مالیت کافنڈ اکٹھا کرنا شروع کیا، جس میں سے کچھ رقم ہندوستان سے بھی بھیجی گئی۔ یہ رقم زیادہ تر ان ہندوستانی فوجیوں نے بھیجی تھی جو ڈائر کے ماتحت رہ چکے تھے۔ ڈائر فوج سے نکالے جانے کے بعد سات سال ہی زندہ رہ سکا۔ سوانح نگاروں کے مطابق اس کی سماجی زندگی اور صحت بھی اس واقعے سے متاثر ہوئی اور وہ عمر بھر اپنی جھوٹی انا اور قتل عام کے پیچھے کارفرما بے سرو پا منطق کا دفاع کرتا رہا تاہم اندر ہی اندر وہ ایک کشمکش کا شکار رہا جیسے اس کے مرنے سے پہلے کے الفاظ کرنل نائجیل کولیٹ نے نقل کیے ہیں؛ "میں اب صرف اپنے خالق کے پاس جا کر یہ جاننا چاہتا ہوں کہ میں نے غلط کیا کہ درست”۔
جنرل سر چارلس منرو اس وقت برطانوی ہند میں کمانڈر انچیف تھے اور ڈائر کے پرانے دوست بھی تھے، ان کا اور آرمی کونسل کا خیال تھا کہ برطانیہ کے سیاسی حالات کے پیش نظر کورٹ مارشل کی کارروائی عمل میں لانا بہت مشکل ہو گا۔ چنانچہ 20 جولائی 1920 کو جنرل سر ہیولاک ہڈسن نے بطورایڈجوٹنٹ جنرل اعلی کمان کا یہ فیصلہ ڈائر کو حکماً سنا دیا کہ اس کو اعزازات اور پنشن کے بغیر فوج سے نکال دیا گیا ہے نیز افغان مہم کے دوران اسے "کمانڈر آف دی آرڈر آف دی برٹش ایمپائر” کا جو اعزاز دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، وہ بھی واپس لیا جاتا ہے۔
ڈائر کے فوج سے نکالے جانے پر بھی ملا جلا ردعمل سامنے آیا لیکن قابل ذکر امر یہ ہے کہ رڈیارڈ کپلنگ جیسے نامور ادیب نے اس سے ہمدردی کے ارادے سے 26،000 پونڈ مالیت کافنڈ اکٹھا کرنا شروع کیا، جس میں سے کچھ رقم ہندوستان سے بھی بھیجی گئی۔ یہ رقم زیادہ تر ان ہندوستانی فوجیوں نے بھیجی تھی جو ڈائر کے ماتحت رہ چکے تھے۔ ڈائر فوج سے نکالے جانے کے بعد سات سال ہی زندہ رہ سکا۔ سوانح نگاروں کے مطابق اس کی سماجی زندگی اور صحت بھی اس واقعے سے متاثر ہوئی اور وہ عمر بھر اپنی جھوٹی انا اور قتل عام کے پیچھے کارفرما بے سرو پا منطق کا دفاع کرتا رہا تاہم اندر ہی اندر وہ ایک کشمکش کا شکار رہا جیسے اس کے مرنے سے پہلے کے الفاظ کرنل نائجیل کولیٹ نے نقل کیے ہیں؛ "میں اب صرف اپنے خالق کے پاس جا کر یہ جاننا چاہتا ہوں کہ میں نے غلط کیا کہ درست”۔
وہ کسی بھی بڑی جنگی مہم میں کسی اہم جگہ، یا اہم وقت پر موجود نہیں رہا تھا اور پھر تعلیم کے زمانے سے ہی اسے غیر اہم ہونے کے احساس نے اسے سوسائٹی سے الگ تھلگ اور ہٹ دھرم بنا دیا تھا جو کہ اکثر اینگلو انڈین افسروں کا المیہ تھا۔
ڈائر کا یہ جرم بادی النظر میں ایک فرد کی ہٹ دھرم اور آمرانہ سوچ کی پیداوار تھا، لیکن ہم ڈائر کی ذات کو اس وقت کی برٹش آرمی آفیسرز کور کے ماحول اور ان حقائق سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے جن کے زیر اثر ڈائر کی شخصیت ایک خاص ڈھانچے میں ڈھلی۔ ڈائر نے اپنے فوجی کیریئر کے آغاز میں آئرلینڈ میں بیلفاسٹ کے فسادات رفع کرنے اور جنگ عظیم اول کے دوران ایران میں بھی سویلین آبادی کی سرکوبی کے ایکشن کیے تھے، جن میں اس نے ہمیشہ ضابطوں کو توڑا، تاہم ان واقعات پر اسے سزا نہیں ہوئی۔ جلیانوالہ باغ کا واقعہ اس کے سیاسی شعور کی ناپختگی کا بھی غماز ہے، اس نے اہل ہند کے سیاسی شعور کا اندازہ لگانے میں شدید غلطی کی تھی۔ ہنگاموں کے اولین دنوں میں لدھیانہ پھلور روڈ پر سفر کے دوران اس کی گاڑی پر ایک ہجوم نے حملہ کیا، جس میں وہ اور اس کی بھتیجی کسی نقصان سے تو بچ گئے، لیکن اپنے اہلخانہ سے دور یہاں ڈائر کو اس وہم نے آ لیا کہ شاید انگریز ہندستان میں غیر محفوظ ہیں۔ ایک جنگ دیدہ افسر کے دل و دماغ میں غدر اور بغاوت کا خوف ایسے حالات میں سراسر بے سر و پا تھا جبکہ سوائے پنجاب کے کچھ علاقوں میں سیاسی تحریکوں کے، سب کچھ امن تھا۔
فوجی قوانین اور ضوابط توڑنا ڈائر کا معمول تھا، جس وجہ سے وہ پروموشن سے محروم رہا ۔ وہ کسی بھی بڑی جنگی مہم میں کسی اہم جگہ، یا اہم وقت پر موجود نہیں رہا تھا اور پھر تعلیم کے زمانے سے ہی اسے غیر اہم ہونے کے احساس نے اسے سوسائٹی سے الگ تھلگ اور ہٹ دھرم بنا دیا تھا جو کہ اکثر اینگلو انڈین افسروں کا المیہ تھا۔ ان حالات میں ڈائر میں قوتِ کردار قوت کی کمی تھی۔ ڈائر نے ہندوستان میں عمر گزار ی، لیکن یہاں کے لوگوں کو نہ تو سمجھ سکا اور نہ ہی ان کے لیے احترام یا مروت کا جذبہ پیدا کر سکا۔ اس کا یہ بیان اس امر کی وضاحت کرتا ہے؛ "آزادئ اظہار کے لیے بصیرت چاہیے، جو کہ اہل ہند حاصل نہیں کرنا چاہتے۔” ایسے میں حساس قسم کے سیاسی پس منظر کے شہر کا انتظام ڈائر کے حوالے کرنا مائیکل اوڈوائر کی صریح غلطی تھی۔ جنگ عظیم اول کے بعد برٹش آرمی کی آفیسرز کور، سول انتظامیہ کی مدد کی تعیناتی کو بھی آپریشنل سرگرمی کے طور پر لیتی تھی اور اس کا طریقۂ کار فوجی قوانین کے برعکس زیادہ متشدد تھا، ایسے میں ڈائر کے حوالے امرتسر کا انتظام دینا، سول انتظامیہ اور سیاستدانوں کے تدبر کی واضح ناکامی تھا۔
ڈائر 23 جولائی 1927ء کو دماغی بافتوں کی ایک بیماری سے مرا جو کہ اسے فوج سے نکالے جانے کے بعد مستقل ذہنی دباؤ کی وجہ سے لاحق ہوئی تھی، اس کی آخری رسوم میں فوجی اور سویلین انگریزوں کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔
فوجی قوانین اور ضوابط توڑنا ڈائر کا معمول تھا، جس وجہ سے وہ پروموشن سے محروم رہا ۔ وہ کسی بھی بڑی جنگی مہم میں کسی اہم جگہ، یا اہم وقت پر موجود نہیں رہا تھا اور پھر تعلیم کے زمانے سے ہی اسے غیر اہم ہونے کے احساس نے اسے سوسائٹی سے الگ تھلگ اور ہٹ دھرم بنا دیا تھا جو کہ اکثر اینگلو انڈین افسروں کا المیہ تھا۔ ان حالات میں ڈائر میں قوتِ کردار قوت کی کمی تھی۔ ڈائر نے ہندوستان میں عمر گزار ی، لیکن یہاں کے لوگوں کو نہ تو سمجھ سکا اور نہ ہی ان کے لیے احترام یا مروت کا جذبہ پیدا کر سکا۔ اس کا یہ بیان اس امر کی وضاحت کرتا ہے؛ "آزادئ اظہار کے لیے بصیرت چاہیے، جو کہ اہل ہند حاصل نہیں کرنا چاہتے۔” ایسے میں حساس قسم کے سیاسی پس منظر کے شہر کا انتظام ڈائر کے حوالے کرنا مائیکل اوڈوائر کی صریح غلطی تھی۔ جنگ عظیم اول کے بعد برٹش آرمی کی آفیسرز کور، سول انتظامیہ کی مدد کی تعیناتی کو بھی آپریشنل سرگرمی کے طور پر لیتی تھی اور اس کا طریقۂ کار فوجی قوانین کے برعکس زیادہ متشدد تھا، ایسے میں ڈائر کے حوالے امرتسر کا انتظام دینا، سول انتظامیہ اور سیاستدانوں کے تدبر کی واضح ناکامی تھا۔
ڈائر 23 جولائی 1927ء کو دماغی بافتوں کی ایک بیماری سے مرا جو کہ اسے فوج سے نکالے جانے کے بعد مستقل ذہنی دباؤ کی وجہ سے لاحق ہوئی تھی، اس کی آخری رسوم میں فوجی اور سویلین انگریزوں کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔
i۔ اس وقت عارضی بریگیڈئیر جنرل کو جنرل کہا جاتا تھا۔
ii۔ 1857کے فاتح انگریز افسر
ii۔ 1857کے فاتح انگریز افسر
Leave a Reply