"خس کم، جہاں پاک”
"ہاں،ہاں، جو بھی ہوا،جیسے بھی ہوا اور جس نے بھی کیا، اچھا ہی کیا”
’’ انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے آخر”
"ہاں بھائی پر جب غیرت اور عزت کا معاملہ ہو توانسانیت کون دیکھے؟”
” چھی چھی چھی ، گندگی اور گندی سوچ سے تو اللہ بچائے، ہر کوئی ماں بہن رکھتا ہے۔ ”
میں جب جامعہ مسجد روڈ پر لڑکیوں کے کالج کے سامنےپہنچا تو وہاں”عوامی اسمبلی” کے اجلاس کا ساسماں تھا۔لمبوپنواڑی کی دکان کے سامنےکھڑے مجمع سے مختلف لب و لہجے کی ملی جلی آوازیں بلند ہورہی تھیں، دانش بگھاری جارہی تھی اور فلسفہ اگلا جا رہا تھا۔
"ٹھیک کہہ رہے ہو بیٹا! تم نے تو میرے منہ کی بات چھین لی” پان کی پیک کی پچکاری مارتے ہوئے بڑے میاں نے نوجوان کی تائید کی۔
"کیا ہوا بھائی، خیر تو ہے نا؟”
"صاحب! خیر کے دن گئے، اب تو شر ہی شر ہے”
” اللہ کی پناہ مانگو شر سے”
"استغفراللہ، استغفراللہ!”
"قرب قیامت ہے، فساد کا زمانہ ہے”
ہر کوئی تبصرے کرتا، درس دیتا بھیڑ سے نکل کر اپنی اپنی راہ لیتا اور نئے آنے والے ان کی جگہ لے لیتے۔ بعض شوقین مزاج حضرات ہاتھ ہلا ہلا کر سیاستدانوں کی طرح بیان بازی او رتقریر وں پر اتر آئے؛
"ہم ایسا ہر گز نہیں ہونے دیں گے”
"اس پر احتجاج ہونا چاہیئے”
” اپنی بہنوں کی عزت پر ہم آنچ نہیں آنے دیں گے”
کہیں کہیں ٹکڑیوں میں اخلاقیات کا پرچار بھی جاری تھا”بے حیائی اور فحاشی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے،جو اپنی نظر کی حفاظت نہیں کرسکتے ان کی آنکھیں نکال دینی چاہئیں”
"میڈیا نے تو شرم و حیاء کا جنازہ نکال دیا ہے، ہر چینل پر ناچ گانا دکھایا جارہا ہے”
جامعہ مسجد سے باجماعت نماز پڑھنے والے بڑی مشکل سے اس بے ہنگم ہجوم سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اسکولوں کی بھی چھٹی ہو چکی تھی، دفاتر میں نماز اور کھانے کے وقفے کے باعث سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر گاڑیاں اور لوگ عجیب بدنظمی اور بے ترتیبی سے سرک رہے تھے اور پھر لڑکیوں کے کالج اور جامعہ مسجد کے بالکل سامنے پیش آنے والے واقعہ نے "مجمع ” بنانے میں دیر نہیں لگائی۔
ویسے تو ہر کوئی وقت کی کمی کا رونا روتا ہے مگر کسی سے کوئی غلطی ہوجائے،کوئی جرم سرزد ہوجائے، مجبوری یا ناسمجھی کی وجہ سے خطا کر بیٹھے تو باتیں سنانے، انگلی اٹھانے اور کچھ نہ سہی تو ’’ تماشہ‘‘ دیکھنے سب جمع ہوجاتے ہیں۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تک، غریب سے لے کر امیر تک،ملُاّ، مفتی اور شیخ سے لے کر خطاکار، گمراہ، بدکار اور جاہل تک سب "مفت کا شو” ضرور دیکھتے ہیں۔
"ہٹو بھائیو! مولوی صاحب کو راستہ دیجئے”جامعہ مسجد کے مؤذن کی جانی پہچانی آواز سنائی دی۔
"ابے او لمبو،جلدی سے میری برانڈ کا ایک پاکٹ (پیکٹ) پکڑا دے”کسی نے گلا پھاڑ کر لمبو پان والے کو مخاطب کیا،مولانا عبدالقہار رعب دار اور شاہانہ انداز میں آگے بڑھ رہے تھے۔ چند منچلے بے فکرے لونڈے بھی اس مجمعے کا حصہ بن چکے تھے۔
"ہائے سمیع! کیا نظارہ (Scene) ہے یار؟ ماجرا کیا ہے؟؟”
’’ سنا ہے کہ کوئی شخص گرلز کالج کے سامنے لڑکیوں کو تاڑ رہا تھا”
شور میں سمیع کی آواز دب گئی۔
سمیع کے نووارد دوست کو بات کچھ دلچسپ لگی، وہ ہجوم کو چیرتا ہوا اس کے قریب پہنچ گیا۔
تاڑتے تو سب ہی ہیں یار، پر وہ تو جھپٹ ہی پڑا تھا ’’ بچی‘‘ پر”
سمیع نے چسکا لیا۔
"پھر؟”
"میں کہا ں تھا اس وقت، یار جس وقت میں آیا تب تک تو سب اسے مار مار کر جہنم بھیج چکے تھے”
"اور زنا کے قریب مت جاؤ، بے شک یہ فحش کاموں میں سے ہے‘‘
مولانا عبدالقہار اپنی جلالی آواز میں قرآنی آیت کا مفہوم سمجھا رہے تھے۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں کے قلم، مائیکرو فون اور کیمرے متحرک تھے اور قانون کے محافظ لاش کا معائنہ کررہے تھے۔
"شیطان کے بہکاوے اور نفس کی غلامی سے بچنا چاہئے،مغرب کی طاغوتی قوتیں ہمارے ذہنوں کو گندا کررہی ہیں۔ہمیں مساجد کو آباد کر لینا چاہئے اور ہر شیطانی فتنہ سے بچنا چاہیے۔زر، زن اور زمین فساد کی جڑ ہے۔عورت گھر سے نکلتی ہے تو مردوں کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیتی ہے، عورت شیطان کا آلہ اور ہتھیار ہے۔آج یہ شخص ایک عورت، ایک لڑکی کی وجہ سے مرا، بلکہ میں تو کہوں گا کہ یہاں کے غیرت مندمجاہدوں نے مار مار کراسے جہنم واصل کردیا۔جو اپنی نظر کی حفاظت نہیں کرتا، اس کا یہی انجام ہونا چاہیئے۔”
مولانا عبدالقہار بول رہے تھے اور مجمع سے آوازیں بلند ہورہی تھیں:
"آفرین، آفرین۔” پرجوش نعرے تک لگ رہے تھے”الجہاد۔الجہاد”
اخبارات کے رپورٹر اپنی ذمہ داری عجلت اور چابک دستی سے نبھا کر دفاتر کا رخ کررہے تھے۔ جن ٹیلی وژن چینلز کو وقت بے وقت بریکنگ نیوز دینے کی لت پڑ چکی تھی وہ خبر چلا چکے تھے، کچھ ابھی کیمرے کلوز کررہے تھے اور ایک رپورٹر اپنے جذباتی لہجے میں Update دے رہا تھا:
"حوا کی بیٹی کے سر سے دوپٹہ کھینچنے کی کہانی ازل سے جاری ہے۔انسان آخر کیوں شیطان کا روپ دھار لیتا ہے ؟انسان حیوان کیسے بن جاتا ہے؟اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ انسان کو ان سوالوں کا جواب ڈھونڈھنا ہے۔!! کیمرہ مین ضمیر الدین کے ساتھ نادم عالم، صبر ٹی وی”
"اوہو،یہ تو بہت برا ہوا”
"برا کیا،ظلم ہے ظلم”
"دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیئے”
"تت تت تت، بے چارا!! ”
"یہ کیا کہہ رہے ہو یار،کیا واقعی؟”
” ہاں، ہاں،ابھی جب ڈاکٹر مظہر حسین کلینک سے باہر نکلے تو انہوں نے پہچان لیا۔”
"او مائی گاڈ”
لوگوں میں پھر سے چہ میگوئیاں شروع ہوچکی تھیں۔ مولانا عبدالقہار کی تقریر ختم ہوچکی تھی اور ٹی وی نیوز چینلز بریکنگ نیوز نشر کرچکے تھے۔ اب ایک اور Breaking News نے سب کے کان کھڑے کردیئے تھے۔ جس شخص کو فحش، گمراہ، بدکار اور تاڑُو جیسے خطابات سے نوازاجاچکا تھا، جس کو ماں بہن کی تمیز نہیں تھی،اور جس کو مجاہدین مار مار کر جہنم بھیج چکے تھے اسے ڈاکٹر مظہر حسین نے پہچان لیا ۔ ایک عرصے سے ڈاکٹر صاحب بالکل مفت اس کا علاج کررہے تھے، وہ غریب اور لاچار اگر رش میں اس لڑکی سے ٹکراکر نہ گرتا تو آج لوگوں کے ہاتھوں مرنے کی بجائے اس کی آنکھوں کا آپریشن ہوچکا ہوتا۔
"ہاں،ہاں، جو بھی ہوا،جیسے بھی ہوا اور جس نے بھی کیا، اچھا ہی کیا”
’’ انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے آخر”
"ہاں بھائی پر جب غیرت اور عزت کا معاملہ ہو توانسانیت کون دیکھے؟”
” چھی چھی چھی ، گندگی اور گندی سوچ سے تو اللہ بچائے، ہر کوئی ماں بہن رکھتا ہے۔ ”
میں جب جامعہ مسجد روڈ پر لڑکیوں کے کالج کے سامنےپہنچا تو وہاں”عوامی اسمبلی” کے اجلاس کا ساسماں تھا۔لمبوپنواڑی کی دکان کے سامنےکھڑے مجمع سے مختلف لب و لہجے کی ملی جلی آوازیں بلند ہورہی تھیں، دانش بگھاری جارہی تھی اور فلسفہ اگلا جا رہا تھا۔
"ٹھیک کہہ رہے ہو بیٹا! تم نے تو میرے منہ کی بات چھین لی” پان کی پیک کی پچکاری مارتے ہوئے بڑے میاں نے نوجوان کی تائید کی۔
"کیا ہوا بھائی، خیر تو ہے نا؟”
"صاحب! خیر کے دن گئے، اب تو شر ہی شر ہے”
” اللہ کی پناہ مانگو شر سے”
"استغفراللہ، استغفراللہ!”
"قرب قیامت ہے، فساد کا زمانہ ہے”
ہر کوئی تبصرے کرتا، درس دیتا بھیڑ سے نکل کر اپنی اپنی راہ لیتا اور نئے آنے والے ان کی جگہ لے لیتے۔ بعض شوقین مزاج حضرات ہاتھ ہلا ہلا کر سیاستدانوں کی طرح بیان بازی او رتقریر وں پر اتر آئے؛
"ہم ایسا ہر گز نہیں ہونے دیں گے”
"اس پر احتجاج ہونا چاہیئے”
” اپنی بہنوں کی عزت پر ہم آنچ نہیں آنے دیں گے”
کہیں کہیں ٹکڑیوں میں اخلاقیات کا پرچار بھی جاری تھا”بے حیائی اور فحاشی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے،جو اپنی نظر کی حفاظت نہیں کرسکتے ان کی آنکھیں نکال دینی چاہئیں”
"میڈیا نے تو شرم و حیاء کا جنازہ نکال دیا ہے، ہر چینل پر ناچ گانا دکھایا جارہا ہے”
جامعہ مسجد سے باجماعت نماز پڑھنے والے بڑی مشکل سے اس بے ہنگم ہجوم سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اسکولوں کی بھی چھٹی ہو چکی تھی، دفاتر میں نماز اور کھانے کے وقفے کے باعث سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر گاڑیاں اور لوگ عجیب بدنظمی اور بے ترتیبی سے سرک رہے تھے اور پھر لڑکیوں کے کالج اور جامعہ مسجد کے بالکل سامنے پیش آنے والے واقعہ نے "مجمع ” بنانے میں دیر نہیں لگائی۔
ویسے تو ہر کوئی وقت کی کمی کا رونا روتا ہے مگر کسی سے کوئی غلطی ہوجائے،کوئی جرم سرزد ہوجائے، مجبوری یا ناسمجھی کی وجہ سے خطا کر بیٹھے تو باتیں سنانے، انگلی اٹھانے اور کچھ نہ سہی تو ’’ تماشہ‘‘ دیکھنے سب جمع ہوجاتے ہیں۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تک، غریب سے لے کر امیر تک،ملُاّ، مفتی اور شیخ سے لے کر خطاکار، گمراہ، بدکار اور جاہل تک سب "مفت کا شو” ضرور دیکھتے ہیں۔
"ہٹو بھائیو! مولوی صاحب کو راستہ دیجئے”جامعہ مسجد کے مؤذن کی جانی پہچانی آواز سنائی دی۔
"ابے او لمبو،جلدی سے میری برانڈ کا ایک پاکٹ (پیکٹ) پکڑا دے”کسی نے گلا پھاڑ کر لمبو پان والے کو مخاطب کیا،مولانا عبدالقہار رعب دار اور شاہانہ انداز میں آگے بڑھ رہے تھے۔ چند منچلے بے فکرے لونڈے بھی اس مجمعے کا حصہ بن چکے تھے۔
"ہائے سمیع! کیا نظارہ (Scene) ہے یار؟ ماجرا کیا ہے؟؟”
’’ سنا ہے کہ کوئی شخص گرلز کالج کے سامنے لڑکیوں کو تاڑ رہا تھا”
شور میں سمیع کی آواز دب گئی۔
سمیع کے نووارد دوست کو بات کچھ دلچسپ لگی، وہ ہجوم کو چیرتا ہوا اس کے قریب پہنچ گیا۔
تاڑتے تو سب ہی ہیں یار، پر وہ تو جھپٹ ہی پڑا تھا ’’ بچی‘‘ پر”
سمیع نے چسکا لیا۔
"پھر؟”
"میں کہا ں تھا اس وقت، یار جس وقت میں آیا تب تک تو سب اسے مار مار کر جہنم بھیج چکے تھے”
"اور زنا کے قریب مت جاؤ، بے شک یہ فحش کاموں میں سے ہے‘‘
مولانا عبدالقہار اپنی جلالی آواز میں قرآنی آیت کا مفہوم سمجھا رہے تھے۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں کے قلم، مائیکرو فون اور کیمرے متحرک تھے اور قانون کے محافظ لاش کا معائنہ کررہے تھے۔
"شیطان کے بہکاوے اور نفس کی غلامی سے بچنا چاہئے،مغرب کی طاغوتی قوتیں ہمارے ذہنوں کو گندا کررہی ہیں۔ہمیں مساجد کو آباد کر لینا چاہئے اور ہر شیطانی فتنہ سے بچنا چاہیے۔زر، زن اور زمین فساد کی جڑ ہے۔عورت گھر سے نکلتی ہے تو مردوں کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیتی ہے، عورت شیطان کا آلہ اور ہتھیار ہے۔آج یہ شخص ایک عورت، ایک لڑکی کی وجہ سے مرا، بلکہ میں تو کہوں گا کہ یہاں کے غیرت مندمجاہدوں نے مار مار کراسے جہنم واصل کردیا۔جو اپنی نظر کی حفاظت نہیں کرتا، اس کا یہی انجام ہونا چاہیئے۔”
مولانا عبدالقہار بول رہے تھے اور مجمع سے آوازیں بلند ہورہی تھیں:
"آفرین، آفرین۔” پرجوش نعرے تک لگ رہے تھے”الجہاد۔الجہاد”
اخبارات کے رپورٹر اپنی ذمہ داری عجلت اور چابک دستی سے نبھا کر دفاتر کا رخ کررہے تھے۔ جن ٹیلی وژن چینلز کو وقت بے وقت بریکنگ نیوز دینے کی لت پڑ چکی تھی وہ خبر چلا چکے تھے، کچھ ابھی کیمرے کلوز کررہے تھے اور ایک رپورٹر اپنے جذباتی لہجے میں Update دے رہا تھا:
"حوا کی بیٹی کے سر سے دوپٹہ کھینچنے کی کہانی ازل سے جاری ہے۔انسان آخر کیوں شیطان کا روپ دھار لیتا ہے ؟انسان حیوان کیسے بن جاتا ہے؟اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ انسان کو ان سوالوں کا جواب ڈھونڈھنا ہے۔!! کیمرہ مین ضمیر الدین کے ساتھ نادم عالم، صبر ٹی وی”
"اوہو،یہ تو بہت برا ہوا”
"برا کیا،ظلم ہے ظلم”
"دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیئے”
"تت تت تت، بے چارا!! ”
"یہ کیا کہہ رہے ہو یار،کیا واقعی؟”
” ہاں، ہاں،ابھی جب ڈاکٹر مظہر حسین کلینک سے باہر نکلے تو انہوں نے پہچان لیا۔”
"او مائی گاڈ”
لوگوں میں پھر سے چہ میگوئیاں شروع ہوچکی تھیں۔ مولانا عبدالقہار کی تقریر ختم ہوچکی تھی اور ٹی وی نیوز چینلز بریکنگ نیوز نشر کرچکے تھے۔ اب ایک اور Breaking News نے سب کے کان کھڑے کردیئے تھے۔ جس شخص کو فحش، گمراہ، بدکار اور تاڑُو جیسے خطابات سے نوازاجاچکا تھا، جس کو ماں بہن کی تمیز نہیں تھی،اور جس کو مجاہدین مار مار کر جہنم بھیج چکے تھے اسے ڈاکٹر مظہر حسین نے پہچان لیا ۔ ایک عرصے سے ڈاکٹر صاحب بالکل مفت اس کا علاج کررہے تھے، وہ غریب اور لاچار اگر رش میں اس لڑکی سے ٹکراکر نہ گرتا تو آج لوگوں کے ہاتھوں مرنے کی بجائے اس کی آنکھوں کا آپریشن ہوچکا ہوتا۔
ویسے تو ہر کوئی وقت کی کمی کا رونا روتا ہے مگر کسی سے کوئی غلطی ہوجائے،کوئی جرم سرزد ہوجائے، مجبوری یا ناسمجھی کی وجہ سے خطا کر بیٹھے تو باتیں سنانے، انگلی اٹھانے اور کچھ نہ سہی تو ’’ تماشہ‘‘ دیکھنے سب جمع ہوجاتے ہیں۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تک، غریب سے لے کر امیر تک،ملُاّ، مفتی اور شیخ سے لے کر خطاکار، گمراہ، بدکار اور جاہل تک سب “مفت کا شو” ضرور دیکھتے ہیں۔
ہماری غیرت صرف دوسروں کی بے غیرتی پر جاگنے تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
آخری پیرا میں درد بھری منظر کشی عمدگی سے کی ہے۔