شدید گرمی کی وجہ سے کوئی بھٹو، کوئی مخدوم، شریف، چوہدری یا خان ہلاک نہیں ہوا کیوں کہ ان کے پاس کسی بھی قدرتی بحران کا مقابلہ کرنے کے وسائل موجود ہیں
کہا جاتا ہے کہ پرانے وقتوں میں قدرت انسان پر حاوی تھی . بارش، جنگلی جانور، دھوپ اور دیگر قدرتی بحرانوں سے انسان بھاگ نہیں سکتا تھا۔ وقت گزرتا گیا، انسان نے ترقی کی منازل طے کیں،پہیہ ایجاد ہوا اور رفتہ رفتہ انسان قدرت پر حاوی ہونے لگا۔ انسان نے پکے گھر بنائے ، آمدورفت کے ذرائع ایجاد ہوئے اور آج دھوپ، جنگلی جانور، بارش اور قدرتی آفات کے سامنے انسان اتنا بے بس نہیں رہا جتنا اس کے آبا واجداد تھے۔ مگر گزشتہ چبد روز میں بالعموم پورے ملک اور بالخصوص کراچی میں شید گرمی اور لو لگنے کے باعث ہلاک ہونے والے افراد اتنی بڑی تعداد دیکھ کر لگتا ہے غریب پر آج بھی قدرت حاوی ہے۔ شدید گرمی کی وجہ سے کوئی بھٹو، کوئی مخدوم، شریف، چوہدری یا خان ہلاک نہیں ہوا کیوں کہ ان کے پاس کسی بھی قدرتی بحران کا مقابلہ کرنے کے وسائل موجود ہیں۔
اطلاعات کے مطابق عباسی شہید اور جناح اسپتال کے ساتھ ساتھ ایدھی سینٹر میں بھی متعدد لوگوں کی لاشیں لائی گئیں، ڈاکٹروں کے مطابق ان کی موت شدید گرمی اور لو لگنے کے باعث ہوئی ہے اور وزیراعلی بے نظیر کی سالگرہ منانے کے لیے لاڑکانہ تشریف لے جاچکے ہیں اور ہمیشہ کی طرح ان غریبوں ، "کیڑے مکوڑوں” کی اموات سے بے خبر ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ایک طرف برسوں قبل مرنے والوں کی سالگرہ منائی جارہی ہے، کیک کاٹا جارہا ہے، خوشیاں منائی جارہی ہے اور لاکھوں روپے پانی کی طرح بہایا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب لوگ لو لگنے سے مر رہے ہیں۔ 49 ڈگری سینٹی گریڈ کی شدید گرمی ، شہرمیں گھنٹوں بجلی غائب اور پانی کی قلت ؛ کیا بلاول بھٹو، مریم نواز، عمران خان اور دیگر جمہوری رہنما عوام کی اس حالت زار سے واقف ہیں؟ اگر ہاں تو یہ مجرمانہ خاموشی کیوں ہے اور اگر نہیں تو کیوں؟ سچ کہوں تو یہ سب تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں کہ عام آدمی کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق عباسی شہید اور جناح اسپتال کے ساتھ ساتھ ایدھی سینٹر میں بھی متعدد لوگوں کی لاشیں لائی گئیں، ڈاکٹروں کے مطابق ان کی موت شدید گرمی اور لو لگنے کے باعث ہوئی ہے اور وزیراعلی بے نظیر کی سالگرہ منانے کے لیے لاڑکانہ تشریف لے جاچکے ہیں اور ہمیشہ کی طرح ان غریبوں ، "کیڑے مکوڑوں” کی اموات سے بے خبر ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ایک طرف برسوں قبل مرنے والوں کی سالگرہ منائی جارہی ہے، کیک کاٹا جارہا ہے، خوشیاں منائی جارہی ہے اور لاکھوں روپے پانی کی طرح بہایا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب لوگ لو لگنے سے مر رہے ہیں۔ 49 ڈگری سینٹی گریڈ کی شدید گرمی ، شہرمیں گھنٹوں بجلی غائب اور پانی کی قلت ؛ کیا بلاول بھٹو، مریم نواز، عمران خان اور دیگر جمہوری رہنما عوام کی اس حالت زار سے واقف ہیں؟ اگر ہاں تو یہ مجرمانہ خاموشی کیوں ہے اور اگر نہیں تو کیوں؟ سچ کہوں تو یہ سب تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں کہ عام آدمی کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔
عوام کی تذلیل کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہاں غریب کی لاش کے لیے بھی جگہ موجود نہیں
پیپلزپارٹی وفاقی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے، مسلم لیگ نواز سڑکیں بنانے میں مصروف ہے اور نئے پاکستان کے بانی کے سر پر ابھی تک دھاندلی کا بھوت سوار ہے۔میڈیا رمضان کی خصوصی نشریات اور ایان علی کے معاملے میں مصروف ہے اور سوشل میڈیا پر نوجوانوں کو برما کے مسلمانوں کے دکھ کھائے جارہے ہیں، پاک فوج ملک سے "را” کو بھگانے اور اپنی شہرت بہتر بنانے میں سرگرم عمل ہے،۔ملا اور شیخ مسواک کرنے کے اسلامی طریقے پر بحث کررہے ہیں اور جنت کے اجازت نامے بانٹنے میں مصروف ہیں، ایم کیو ایم میڈیا ٹرائل سے پریشان اور مذہبی جماعتیں ماہ صیام کو مذہبی عقیدت سے منانے میں مصروف۔حکومت کی نااہلی کااس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ ملک کے سب بڑے شہر میں کوئی سرد خانہ نہیں جہاں لاشوں کو رکھا جا سکے جس کی آبادی دو کروڑ سے زیادہ ہے، عوام کی تذلیل کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہاں غریب کی لاش کے لیے بھی جگہ موجود نہیں۔
زبانوں پر قفل لگے ہوئے ہیں ۔کوئی نہیں بولتا ہے کہ مجرم کون ہے؟ اور مرنے والوں کا جرم کیاہے؟ لگتا ہے کہ ا س ملک میں غریب ہونا ہی ہمارا سب سے بڑا جرم اور گناہ ہے۔ برق گرتی ہے تو بے چارے غریبوں پر ،آخر کیوں؟ اور کب تک؟
اس تمام صورت حال کو دیکھ کر اپنا یہ شعر شدت سے یاد آرہا ہے۔
اے ابابیلو غور سے دیکھو
زد میں کنکر کے گھر تمہارے ہیں
زبانوں پر قفل لگے ہوئے ہیں ۔کوئی نہیں بولتا ہے کہ مجرم کون ہے؟ اور مرنے والوں کا جرم کیاہے؟ لگتا ہے کہ ا س ملک میں غریب ہونا ہی ہمارا سب سے بڑا جرم اور گناہ ہے۔ برق گرتی ہے تو بے چارے غریبوں پر ،آخر کیوں؟ اور کب تک؟
اس تمام صورت حال کو دیکھ کر اپنا یہ شعر شدت سے یاد آرہا ہے۔
اے ابابیلو غور سے دیکھو
زد میں کنکر کے گھر تمہارے ہیں
Leave a Reply