محمدشعیب
برتن، جھوٹے برتن۔ جو جب کھانے والوں کے ہاتھ آتے ہیں ان کے ہاتھوں میں موجود چمچے ان برتنوں کا پیٹ کھرچ کھرچ کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ انگلیاں ان کے پیندے سے لگا سالن اکٹھا کرتی ہیں اورخالی ہو جائیں تو زبانوں کی ٹاکیاں ان کے فرش چمکاتی ہیں لیکن کھانے والوں کی بھوک پھر بھی کم نہیں ہوتی۔ کھانے والے برتن چھوڑ چھاڑ انہیں سانس لینے کو بنچ پر رکھتے ہیں اور انگلیاں چاٹتے ہوئے زبان کو دانتوں میں بچے کچھے ریزوں کو سمیٹنے میں مصروف چل دیتے ہیں تو ایک گم نام سے نام والا لڑکا ان بنچوں پر سے ان برتنوں کو سمیٹ کر انہیں ایک بالٹی میں دھکیل دیتا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے زیادہ میلی صافی سے ان پر لگی چکنائی کو پورے برتن پر یکساں پھیلا کر انہیں جھوٹے سے سچا کر کہ ٹوکری کی نذر کرتا ہے۔ جہاں استاد کا ہاتھ پھر کسی ایک پلیٹ، کسی ایک پیالے، کسی ایک چمچ کی قسمت میں پھر سے چمچے، انگلیاں ہاتھ زبان بالٹی، بالٹی کے پانی اور صافی کا نیا دور لکھ دیتاہے۔
دن بھر میں گندگی صفائی، پھرگندگی اور پھر صفائی کے کئی دور ہوتے ہیں۔ تکرار کا یہ پہاڑا روز دہرایا جاتا ہے۔ ان برتنوں کے ایک سرے پر کس کا ہاتھ اور چمچہ ہے انہیں کبھی پتہ نہیں چل سکا۔ ہر طرح کے ہاتھ ہوتے ہیں۔ میلے، کھردرے، بڑھے ہوئے ناخنوں والے، بوڑھے، جوان۔۔۔۔۔۔۔ہر طرح کا لمس، ہر طرح کی بھوک۔ ہر طرح کے ہونٹ ۔۔۔ پان والے لال ہونٹ، سگریٹ پینے والے کالے ہونٹ، شراب کی چسکیاں لینے والےاور آب زم زم کے گھونٹ بھرتے ہر طرح کے ہونٹ۔ عجب مساوات ہے یہاں۔ پہ جس پیالی پر بہاری چپڑاسی ہونٹ چپکاتا ہے اسی پیالی پر شائد اسی جگہ خان ڈرافٹسمین کے سیاہی مائل ہونٹ بھی چائے کا گھونٹ بھرتے ہیں۔ مولوی صاحب کے بابرکت ہاتھوں میں جو چمچ اس واقت اللہ کی نعمتوں کو ان کے گنبد میں اتار رہا ہے ذرا دیر بعد یہی چمچ جوئے باز اوورسئیر کے ہاتھوں میں جہنم کی آگ کا ایندھن اس کے پیٹ میں انڈیل رہا ہوگا۔ ایک ہی پلیٹ کبھی تسبیح کرنے والے ہاتھوں میں ورد کرتی ہے اور کبھی تاش کے پتوں کی طرح پھینٹی جاتی ہے۔ جیب کترے، اچکے بدمعاش، دلال اور قانون کے لمبے ہاتھ ۔۔۔ سب ایک ہی چنگیر کے کنارے چور سپاہی کھیلتے ہیں۔ مولائی اور یزیدی ایک ہی کربلا میں ایک ہی گلاس سے پیاس بجھاتے ہیں۔
لیکن یہ سب تو دھماکے سے پہلے کی بات ہے۔ علم والے گھر کے جلوس پر فائرنگ سے بھی پہلے کی بات ہے۔ یہ نئے امام صاحب کے آنے اور مسجد کے باپر فرقے کی تختی لگنے سے پہلے کی بات ہے۔ میری بیوی اور حاجی صاحب کی بیٹی کے برقعے سے بھی پہلے کی بات ہے۔ کریانے کی دکان پر ٹوپیاں اور تسبیح آنے سے پہلے کی بات۔۔۔۔۔۔تب کی بات جب ابھی حرمت رسول پر قربانی کا بینر استاد نے اپنے پیسے خرچ کر کے کینٹین میں نہیں لگوایا تھا۔
یہ کل دوپہر سے بھی پہلے کی بات ہے جب کیشئیر صاحب چائے پی کے ابھی گئے ہی تھے کہ دفتر کہ باریش کلرک نے میرے کان میں کہا تھا،” یہ کیشئر صاحب سے زیادہ ملا جلا نہ کریں، اپنی عاقبت مت خراب کریں۔۔۔یہ مرزائی۔۔۔۔۔ “اور استاد نے کیشئیر صاحب کا خالی کپ کوڑے دان میں کلمہ پڑھتے ہوئے پھیک دیا۔
برتنوں میں عجب مساوات تھی۔ کم از کم آج صبح سے پہلے تک تو تھی۔ لیکن اب کچھ بدل سا گیا ہے۔ چائے پیتے ہوئے ٹھندے سالن کے نوالے لیتے ہوئے، چاولوں بھرا چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے، پانی کا گلاس منہ سے لگاتے ہوئے۔۔۔۔ سب کچھ پرایا ہو گیا تھا۔ برتن تقسیم ہو گئے تھے۔ آج صبح کیشئر صاحب نے اپنی چائے اپنے کمرے میں منگوا لی تھی۔ آج وہ اپنا کپ گھر سے ساتھ لے آئے تھے۔۔۔۔۔۔
دن بھر میں گندگی صفائی، پھرگندگی اور پھر صفائی کے کئی دور ہوتے ہیں۔ تکرار کا یہ پہاڑا روز دہرایا جاتا ہے۔ ان برتنوں کے ایک سرے پر کس کا ہاتھ اور چمچہ ہے انہیں کبھی پتہ نہیں چل سکا۔ ہر طرح کے ہاتھ ہوتے ہیں۔ میلے، کھردرے، بڑھے ہوئے ناخنوں والے، بوڑھے، جوان۔۔۔۔۔۔۔ہر طرح کا لمس، ہر طرح کی بھوک۔ ہر طرح کے ہونٹ ۔۔۔ پان والے لال ہونٹ، سگریٹ پینے والے کالے ہونٹ، شراب کی چسکیاں لینے والےاور آب زم زم کے گھونٹ بھرتے ہر طرح کے ہونٹ۔ عجب مساوات ہے یہاں۔ پہ جس پیالی پر بہاری چپڑاسی ہونٹ چپکاتا ہے اسی پیالی پر شائد اسی جگہ خان ڈرافٹسمین کے سیاہی مائل ہونٹ بھی چائے کا گھونٹ بھرتے ہیں۔ مولوی صاحب کے بابرکت ہاتھوں میں جو چمچ اس واقت اللہ کی نعمتوں کو ان کے گنبد میں اتار رہا ہے ذرا دیر بعد یہی چمچ جوئے باز اوورسئیر کے ہاتھوں میں جہنم کی آگ کا ایندھن اس کے پیٹ میں انڈیل رہا ہوگا۔ ایک ہی پلیٹ کبھی تسبیح کرنے والے ہاتھوں میں ورد کرتی ہے اور کبھی تاش کے پتوں کی طرح پھینٹی جاتی ہے۔ جیب کترے، اچکے بدمعاش، دلال اور قانون کے لمبے ہاتھ ۔۔۔ سب ایک ہی چنگیر کے کنارے چور سپاہی کھیلتے ہیں۔ مولائی اور یزیدی ایک ہی کربلا میں ایک ہی گلاس سے پیاس بجھاتے ہیں۔
لیکن یہ سب تو دھماکے سے پہلے کی بات ہے۔ علم والے گھر کے جلوس پر فائرنگ سے بھی پہلے کی بات ہے۔ یہ نئے امام صاحب کے آنے اور مسجد کے باپر فرقے کی تختی لگنے سے پہلے کی بات ہے۔ میری بیوی اور حاجی صاحب کی بیٹی کے برقعے سے بھی پہلے کی بات ہے۔ کریانے کی دکان پر ٹوپیاں اور تسبیح آنے سے پہلے کی بات۔۔۔۔۔۔تب کی بات جب ابھی حرمت رسول پر قربانی کا بینر استاد نے اپنے پیسے خرچ کر کے کینٹین میں نہیں لگوایا تھا۔
یہ کل دوپہر سے بھی پہلے کی بات ہے جب کیشئیر صاحب چائے پی کے ابھی گئے ہی تھے کہ دفتر کہ باریش کلرک نے میرے کان میں کہا تھا،” یہ کیشئر صاحب سے زیادہ ملا جلا نہ کریں، اپنی عاقبت مت خراب کریں۔۔۔یہ مرزائی۔۔۔۔۔ “اور استاد نے کیشئیر صاحب کا خالی کپ کوڑے دان میں کلمہ پڑھتے ہوئے پھیک دیا۔
برتنوں میں عجب مساوات تھی۔ کم از کم آج صبح سے پہلے تک تو تھی۔ لیکن اب کچھ بدل سا گیا ہے۔ چائے پیتے ہوئے ٹھندے سالن کے نوالے لیتے ہوئے، چاولوں بھرا چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے، پانی کا گلاس منہ سے لگاتے ہوئے۔۔۔۔ سب کچھ پرایا ہو گیا تھا۔ برتن تقسیم ہو گئے تھے۔ آج صبح کیشئر صاحب نے اپنی چائے اپنے کمرے میں منگوا لی تھی۔ آج وہ اپنا کپ گھر سے ساتھ لے آئے تھے۔۔۔۔۔۔
One Response
ایک سچی کہانی، ہمارے کھوکھلے معاشرتی رویوں کی عکاس، جہاں ہم تقویٰ کی بنیاد پرہیزگاری سے زیادہ انسانوں سے پرہیز کو گردانتے ہیں۔ ہم جو کبھی وہ قوم تھے کہ صلح کل ہمارا شعار تھی اور ہم مساوات ، رواداری، برداشت ، حسن سلوک اور احسان ، نیکی، بھلائی، اخلاق جیسے فضائل کے حامل تھے۔ لیکن آج ہماری یہ میراث ہمارے لیے گم گشتہ وہ دولت ہے جس کے کھوجانے کا ادراک بھی ہم نہیں رکھتے۔ یہ احساس زیاں پیدا کرتی، نرم لہجے کی خوبصورت کہانی ہماری سنجیدہ نظر اور ہمارے دل میں نرم گوشے کی متقاضی ہے۔