چپ دانت نکوستی ہے
جب نظم
ابارشن کے مرحلے سے گزرتی
چیختی ہے۔
نرس اس کے ہونٹوں کو سی دیتی ہے
تاکہ چھنگاڑتی چیخ کا دم گھٹ جائے۔
ادھوری تخلیق کبھی کوکھ میں نہیں پلتی
چپ نئی نظم لکھتی ہے
جس میں دمدار جرثومے
فرعونیت کے دعوے دار بن کر
سمندر میں ڈوب مرتے ہیں۔
کوکھ میں پلنے والے
دو سو دنوں کی تنہائی چکھتے ہیں
تنہائی کا اپنا کوئی ذائقہ نہیں
کاغذ کی پیشانی پہ
نظم لڑکھڑا کر گرتی ہے۔
منفی سوچ کی لہروں کے شور میں
نظم کرلائی
ادھوری تخلیق نے پھر جنم لیا
کوکھ اور جرثوموں نے سر تھام لیا۔
انسان
دوغلے پن کا سہارا لے کربھی
ہار گیا
چپڑ چپڑ بول سکوت ہڑپ کر گئے
گونگے بہرے لوگ
جرثوموں کی دموں پہ بیٹھ کر
زبردستی کےگیت
لکھنے سے باز نہیں آتے
Image: Christian Schloe