کرکٹ کا کھیل تبدیل ہو رہا ہے ، نئے قوانین اور ٹی ٹونٹی کرکٹ کے آجانے سے کرکٹ مکمل طور پر ایک مختلف کھیل بنتا جارہاہے۔ اس کھیل نے اپنی ایک نئی پہچان بنائی ہے اور ایک سست رفتار کھیل کی شناخت ختم کرتے ہوئے خود کو ایک تیزرفتار ،دلچسپ اور سنسنی خیز کھیل میں تبدیل کر لیا ہےیہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ کو تاریخ کا سب سے دلچسپ مقابلہ قرار دیا جارہا ہے۔
ٹیسٹ کرکٹ سے ون ڈے کرکٹ اور اب ٹی ٹونٹی کرکٹ کے آغاز سے کھیل پر بلے بازوں کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے اور پاکستان جیسی ٹیمیں جو ہمیشہ اپنے گیند بازوں اور مڈل آرڈر بلے بازوں کی کارکردگی کی بدولت جیتتی آئی ہیں ان کی کارکردگی روبہ زوال ہے۔
کرکٹ کے کھیل میں آنے والے انقلابات میں سب سے تکلیف دہ امر پاکستانی ٹیم کی حالیہ کارکردگی ہے۔ پاکستانی ٹیم کی حالیہ کارکردگی دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان ابھی تک خود کو نیوزی لینڈ، ساوتھ افریقہ اور آسٹریلیا کی طرح کرکٹ کے نئے قوانین کے مطابق ڈھالنے اور ان قوانین سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ کرکٹ کے قوانین جہاں گزشتہ کچھ عرصہ میں بلے بازوں کے حق میں تبدیل ہوئے ہیں وہیں ان قوانین نے کرکٹ کھیلنے کے روایتی انداز کو تبدیل کر دیا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ سے ون ڈے کرکٹ اور اب ٹی ٹونٹی کرکٹ کے آغاز سے کھیل پر بلے بازوں کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے اور پاکستان جیسی ٹیمیں جو ہمیشہ اپنے گیند بازوں اور مڈل آرڈر بلے بازوں کی کارکردگی کی بدولت جیتتی آئی ہیں ان کی کارکردگی روبہ زوال ہے۔
ٹی ٹونٹی کرکٹ ، خصوصا ہر ملک میں ہونے والی لیگ کرکٹ نے بلے بازوں کے لیے ہر ہدف آسان کر دیا ہے۔ ون ڈے کرکٹ اور ٹیسٹ کرکٹ میں بھی اب ٹی ٹونٹی کھیلنے والے بلے باز بیس اوور کے کھیل جیسی بے خوفی سے ہر گیند باز کا سامنا کرنے کو تیار ہیں ۔ کرکٹ کی روایتی شکل کے مداح اگرچہ ان تبدیلیوں پر محتاط تنقید کر رہے ہیں اور گیند بازوں کی بے بسی پر مشفقانہ نظر ڈالتے ہوئے کرکٹ کی اسل شکل بحال رکھنے کی بات کر رہےہیں لیکن کرکٹ کی نئی شکل اپنی پوری آب و تاب سے شائقین کو متوجہ کررہی ہے۔ ان قوانین کی تبدیلی سے کھیل کی رفتار تیز ہوئی لیکن پاکستانی ٹیم اور کوچ تاحال اپنے کھیل میں جدت لانے کو تیار نہیں۔ ہماری جیت کا انحصار ہمارے فاسٹ باولرز اور مڈل آرڈر بلے بازوں پر رہا ہے ۔ پاکستانی ٹیم مل کر کھیلنے کی بجائے انفرادی کھیل پیش کرنے کی قائل ہے یہی وجہ ہے کہ ہم ہدف کا تعاقب کرنے میں زیادہ دباو محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے جیتنے کا واحد منصوبہ یہ ہے کہ پہلے باری لے کر رنز کیے جائیں اور پھر مخالف ٹیم کو آوٹ کیا جائے، ہماری بلے بازی کا واحد خاکہ یہ ہے کہ ابتدائی اوورز میں محتاط بلے بازی کی جائے اور پھر آخری اوورز میں تیز کھیلا جائے کیوں کہ ہم دباو میں کھیلنے کے عادی نہیں۔ لیکن کرکٹ کی حالیہ شکل میں چوں کہ تین سو کا ہدف بھی محفوظ نہیں اور ہماری باولنگ ایسے گیندبازوں سے محروم ہے جو مخالف ٹیم کو آوٹ کر سکے اس لیے ایک بڑے ٹورنامنٹ کا دباو برداشت کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں رہا۔
ٹی ٹونٹی کرکٹ ، خصوصا ہر ملک میں ہونے والی لیگ کرکٹ نے بلے بازوں کے لیے ہر ہدف آسان کر دیا ہے۔ ون ڈے کرکٹ اور ٹیسٹ کرکٹ میں بھی اب ٹی ٹونٹی کھیلنے والے بلے باز بیس اوور کے کھیل جیسی بے خوفی سے ہر گیند باز کا سامنا کرنے کو تیار ہیں ۔ کرکٹ کی روایتی شکل کے مداح اگرچہ ان تبدیلیوں پر محتاط تنقید کر رہے ہیں اور گیند بازوں کی بے بسی پر مشفقانہ نظر ڈالتے ہوئے کرکٹ کی اسل شکل بحال رکھنے کی بات کر رہےہیں لیکن کرکٹ کی نئی شکل اپنی پوری آب و تاب سے شائقین کو متوجہ کررہی ہے۔ ان قوانین کی تبدیلی سے کھیل کی رفتار تیز ہوئی لیکن پاکستانی ٹیم اور کوچ تاحال اپنے کھیل میں جدت لانے کو تیار نہیں۔ ہماری جیت کا انحصار ہمارے فاسٹ باولرز اور مڈل آرڈر بلے بازوں پر رہا ہے ۔ پاکستانی ٹیم مل کر کھیلنے کی بجائے انفرادی کھیل پیش کرنے کی قائل ہے یہی وجہ ہے کہ ہم ہدف کا تعاقب کرنے میں زیادہ دباو محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے جیتنے کا واحد منصوبہ یہ ہے کہ پہلے باری لے کر رنز کیے جائیں اور پھر مخالف ٹیم کو آوٹ کیا جائے، ہماری بلے بازی کا واحد خاکہ یہ ہے کہ ابتدائی اوورز میں محتاط بلے بازی کی جائے اور پھر آخری اوورز میں تیز کھیلا جائے کیوں کہ ہم دباو میں کھیلنے کے عادی نہیں۔ لیکن کرکٹ کی حالیہ شکل میں چوں کہ تین سو کا ہدف بھی محفوظ نہیں اور ہماری باولنگ ایسے گیندبازوں سے محروم ہے جو مخالف ٹیم کو آوٹ کر سکے اس لیے ایک بڑے ٹورنامنٹ کا دباو برداشت کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں رہا۔
ہم پاکستانی کرکٹ کے زوال کو محض نئے کھلاڑیوں کے انتخاب، سابق کھلاڑیوں کے ٹی وی ٹاک شوزاور مصباح پر تنقید سے نہیں روک سکتے،ہمیں کرکٹ کھیلنے کے نئے انداز کو اپنا ہوگا
کرکٹ کی اس بدلتی ہوئی شکل میں پاکستان کے لیے کوئی بھی بڑا ٹورنامنت جیتنا ممکن نہیں؛یہ تلخ ہے ۔ پاکستان جو ون ڈے کے آغاز سے ہی اپنے گیندبازوں کی مدد سے کھیل پر حاوی ہوتا رہا ہے کے لیے اب کرکٹ کے عالمی مقابلوں اور رینکنگ میں پہلی جگہ پانا روز بروز مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ایک اننگ میں دو گیندوں کے استعمال، پاکستان میں عالمی ٹیموں کی آمد میں تعطل اور غیر مستحکم کرکٹ بورڈ کی وجہ سے کرکٹ کا کھیل بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ہماری کرکٹ انتظامیہ ابھی تک تینوں فارمیٹس کے لیے مناسب کھلاڑیوں کا چناو کرنے اور قومی ٹیم کے لیے متبادل کھلاڑیوں کی تلاش میں ناکام ہے۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ کے زوال اور ناقص کارکردگی کے باوجود اس کے ذمہ دار اسباب کی نشاندہی اور تدارک کی کوشش نہیں کی جارہی۔ ہر مرتبہ کرکٹ ورلڈ کپ میں ناکامی کے بعد کپتان کی تبدیلی، کوچ کی تبدیلی یا بورڈ انتظامیہ کی تبدیلی سے کرکٹ کی بہتری ممکن نہیں درحقیقت کرکٹ کی بہتری کے لیے ہمارے پاس کوئی حل نہیں اور نہ ہی ہم کرکٹ کو بہتر بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہر سابق کرکٹر، ہر بورڈ عہدیدار اور ہر تبصرہ نگار کے پاس سوائے اپنے ماضی کی عظمت اور اپنی اکیڈمی کے کھلاڑیوں کی حمایت کے کوئی تجویز یا لائحہ عمل نہیں۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ڈومیسٹک کرکٹ کا سٹرکچر اس قدر بوسیدہ ہے کہ پورے پاکستان میں کوئی ایک تیز باولر، کوئی ایک ذمہ دار اوپننگ بلے باز، قابل اعتما وکٹ کیپر اور کارآمد آل راونڈر سامنے نہیں لاسکا۔ پاکستانی کرکٹ خود کو نئے زمانے کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت سے محروم ہے اور موجودہ حالات میں ہمیں اپنی کرکٹ ٹیم سے محیر العقول توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہیں۔ ہم پاکستانی کرکٹ کے زوال کو محض نئے کھلاڑیوں کے انتخاب، سابق کھلاڑیوں کے ٹی وی ٹاک شوزاور مصباح پر تنقید سے نہیں روک سکتے،ہمیں کرکٹ کھیلنے کے نئے انداز کو اپنا ہوگا اور محض مضبوط باولنگ کے بل پر میچ جیتنے کی روش ترک کرنا ہوگی۔ ہمیں ایک ناقابل بھروسہ ہونے کی چھاپ اتار کر خود کو مستقل مزاج بنانا ہوگا۔ اب وقت ا گیا ہے کہ ہم ایسے مفروضوں کہ "پاکستان میں بہت سے باصلاحیت نوجوان ہیں،” "نئے کھلاڑیوں کو موقع نہیں دیا جاتا” اور”میچ فکس ہے” وغیرہ سے بھی نجات حاصل کر نا ہوگی ۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ڈومیسٹک کرکٹ کا سٹرکچر اس قدر بوسیدہ ہے کہ پورے پاکستان میں کوئی ایک تیز باولر، کوئی ایک ذمہ دار اوپننگ بلے باز، قابل اعتما وکٹ کیپر اور کارآمد آل راونڈر سامنے نہیں لاسکا۔ پاکستانی کرکٹ خود کو نئے زمانے کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت سے محروم ہے اور موجودہ حالات میں ہمیں اپنی کرکٹ ٹیم سے محیر العقول توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہیں۔ ہم پاکستانی کرکٹ کے زوال کو محض نئے کھلاڑیوں کے انتخاب، سابق کھلاڑیوں کے ٹی وی ٹاک شوزاور مصباح پر تنقید سے نہیں روک سکتے،ہمیں کرکٹ کھیلنے کے نئے انداز کو اپنا ہوگا اور محض مضبوط باولنگ کے بل پر میچ جیتنے کی روش ترک کرنا ہوگی۔ ہمیں ایک ناقابل بھروسہ ہونے کی چھاپ اتار کر خود کو مستقل مزاج بنانا ہوگا۔ اب وقت ا گیا ہے کہ ہم ایسے مفروضوں کہ "پاکستان میں بہت سے باصلاحیت نوجوان ہیں،” "نئے کھلاڑیوں کو موقع نہیں دیا جاتا” اور”میچ فکس ہے” وغیرہ سے بھی نجات حاصل کر نا ہوگی ۔
Leave a Reply