ایک خبر کے مطابق وفاقی وزیر برائے پانی وبجلی خواجہ آصف نے طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ سے قوم سے معافی مانگ لی ہے، چلیں انہوں نے پاکستانیوں کی ایک شکایت تو دور کر دی کہ اس ملک میں کوئی اپنی "غفلت” کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا مگر ساتھ ہی وزیرِ موصوف نے عوام سے اپیل کی ہے کہ بارش کے لیئے بھی دعا کریں۔اس پانی سے شاید ان کو وہ "چلّو بھر پانی” دستیاب کرنا مقصود ہے جس میں ساری قوم ڈوب مرے جنہوں نے ان کو "بھاری مینڈیٹ” دے کر اقتدار کی کرسی سے سرفراز کیا۔ خواجہ صاحب نے وزارت سنبھالنے کے فوراً بعد عوام کو خوب امید دلائی کہ وہ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ "انگلی ہلا کر” حل کر دیں گے، مگر جوں جوں اس بحران کی سنگینی کا اندازہ ہوا تو کہنے لگے تھوڑا وقت لگے گا۔ بھاری عوامی مینڈیٹ کی ہوا اس دن نکلی جب خواجہ صاحب کہہ اٹھے کہ لوڈشیڈنگ تو 2018 تک چلے گی گویااگلے انتخابات کا معرکہ بھی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے وعدوں پر ہی سر کرنے کا ارادہ ہے۔ وزیرِ پانی و بجلی جس طرح آئے روز بیانات بدلتے ہیں یہ گرگٹی وصف یقیناً گزشتہ حکومت کی وراثت ہے۔
انتخابات ۲۰۱۳ کا میلہ سجا تو پاکستان میں واقعی کسی روایتی میلے یا سستے بازار کاسا سما ںتھا۔ میلے میں تمام پاکستانی سیاستدان کسی ماہر چوہے مار دوا فرش کی طرح اپنی دوا کی خوبیوں کا راگ الاپ رہے تھے۔ کوئی "نوے دن "میں مسائل کا حل دے رہا تھا تو کوئی "تجربہ کار ” چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا” ان اناڑیوں اور کھلاڑیوں کے پاس ہرگز نہ جائیو میں بجلی کا مسئلہ تین سال میں حل کر دوں گا۔”
انتخابات ۲۰۱۳ کا میلہ سجا تو پاکستان میں واقعی کسی روایتی میلے یا سستے بازار کاسا سما ںتھا۔ میلے میں تمام پاکستانی سیاستدان کسی ماہر چوہے مار دوا فرش کی طرح اپنی دوا کی خوبیوں کا راگ الاپ رہے تھے۔ کوئی "نوے دن "میں مسائل کا حل دے رہا تھا تو کوئی "تجربہ کار ” چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا” ان اناڑیوں اور کھلاڑیوں کے پاس ہرگز نہ جائیو میں بجلی کا مسئلہ تین سال میں حل کر دوں گا۔” پھر اس دو ادھوری باریاں لے چکنے والے نے "جادو کی انگلی” گما ئی اور کہا میں تو یہ مسئلہ چھ ماہ ہی حل کر دوں گا۔ ایک دن "جوشِ خطابت” میں بجلی کو ہی ختم کرنےڈالنے کی خوش خبری دے ڈالی۔دیا میر بھاشا ڈیم، قائد اعظم سولر پارک، کوئلہ سے سستی بجلی اور کبھی تنہا نندی پور پراجیکٹ سے بجلی کے ایسے "چشمے” پھوٹنے کی پیشن گوئی کی کہ لگتا اب "روشن پاکستان” ہی ہماری منزل ہے۔
پھر یوں ہوا کہ کالی شیروانی میں مسند پر جلوہ افروز "بڑے میاں” کو یاد پڑا کہ ان کے برادر کو تو "جوشِ خطابت” کا عارضہ ہے، اسی بیماری کے زیرِ اثر وہ عوام کو سبز باغ دکھاتے رہے، درحقیقت خزانے پر توخزاں کا موسم چھایا ہے اور "سمجھ نہیں آتی کہ بجلی کے مسئلے کو حل کریں یا بیرونی قرضے اتاریں”اور اسی مشکل کو حل کرنے کی خاطر انہوں نے پھر سے کشکول بھر بھر قرضے لیئے۔ اب اندھیروں میں بیٹھی عوام کیا کرتی "جب چڑیاں چگ گئیں کھیت”ویسے بھی میاں صاحب کا کہنا ہے کہ "مجھےکام کرنے دیا جائے ان کی ٹانگیں مت کھینچی جائیں” ۔
بجلی بحران کے خاتمے کےلیے بجلی چوروں کے خلاف صف آراء وزیرِ مملکت برائے پانی و بجلی جناب عابد شیر علی صاحب بھی سال بھر اسی کام میں مصروف ِ عمل نظر آئے جس کے لیئے "فیصل آبادی "حضرات ماہر جانے جاتے ہیں، انہوں نے ٹویٹر پیغامات اور پریس کانفرنسوں میں "بجلی چوروں” کے خلاف خوب "جہاد "کیا۔ ایک آدھ مقامات پر چھوٹے بجلی چوروں کے خلاف کاروائی بھی گئی مگر بات جونہی "اصل بجلی چوروں "کی طرف بڑھیسارا معاملہ ہی ٹھنڈا پڑ گیا۔ ایک روز تو "وزیرِ دوراندیش "نے وزیرِاعظم ہاوس سمیت آدھے وفاقی دارلحکومت میں سرکاری دفاتر کی بجلی کاٹ دی ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس روز "صاحبان اقتدار” کےلیے جو جنریٹر چلائے گئے وہ عوام کے دیے ٹیکس کے روپوں سے خریدے گئے تیل سےہی چل رہے تھے۔ مگر
بجلی بحران کے خاتمے کےلیے بجلی چوروں کے خلاف صف آراء وزیرِ مملکت برائے پانی و بجلی جناب عابد شیر علی صاحب بھی سال بھر اسی کام میں مصروف ِ عمل نظر آئے جس کے لیئے "فیصل آبادی "حضرات ماہر جانے جاتے ہیں، انہوں نے ٹویٹر پیغامات اور پریس کانفرنسوں میں "بجلی چوروں” کے خلاف خوب "جہاد "کیا۔
عابد شیر علی کاٹیکسوں سے کیا لینا دینا، یہ کام تو میاں صاحبان کے کارِ خاص اسحاق ڈار صاحب کے ذمے ہے،جنہوں نے پہلے بجٹ میں عوام پر لگائے گئے اضافی ٹیکسوں کی واحد وجہ زیرِ گردش قرضہ جات کو قرار دیا۔ صاحب کا کہنا تھا کہ ایک بار یہ قرضہ اتر گیا تو "روشن پاکستان” کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی گی۔ بس پھر انہوں نے عوام سے "پائی پاِئی”بطور ٹیکس وصول کرکے "منشاء و نشاط” کو ۵۰۰ ارب اداکیے۔ اس کے بعد ڈار صاحب بجلی بحران کو چھوڑ کر ڈالر کے پیچھے کچھ یوں پڑے کہ یہ قرضہ پھر سے گردن تک چڑھ آیا اور ڈار صاحب عوام کو بتانا بھی بھول گئے کہ گردشی قرضہ واپس کرنے کے بعد کیا ہوا۔ دوسرے بجٹ میں اس زیرِ گردش قرضے کا ذکر تک کرنا بھول گئے شاید اس بار کسی "منشاء "کی رقم واجب الادا نہ تھی۔ کاش کہ خزانے کے نگران یہ وزیر صاحب خزانے کی نگرانی میں بھی وہی "ماہرانہ خوبیاں "بروئے کار لاتے جن کے بل بوتے پر انہوں نے اپنے بیٹے کو ہزاروں پاونڈز بغیر کوئی ٹیکس ادا کیے بیرون ملک منتقل کیئے۔
خیر میاںمحمد نوازشریف کے تیسرے اقتدار کے دوسرے برس میں بھی میاں صاحب کا وہ وعدہ وفا نہ ہو سکا جس کے بارے میں خود انہی کا کہنا تھا ” گیارہ مئی کادن ۔ اجالوں یا اندھیروں میں فیصلے کا دن” اور ” شیر کے علاوہ کسی کو بھی ڈالا جانے والا ووٹ اسی سیاہ دور کا گناہ تصور ہو گا”۔ اور عوام کی حالت اس نو بیاہتا عورت کی سی ہے جس کو شادی سے محض دو سال بعد ہی اس بات کا پتہ چل گیا ہے کہ "اس کے ساتھ انگلی گماینے والے میاں صاحب پورا ہاتھ کر گئے ہیں” ۔ کیونکہ بات اب وعدے پر وعدے سے ہوتی ہوئی اقبالِ جرم اور اب معافی مانگنے تک پہنچ چکی ہے۔ فیصلہ اس نوبیاہتا کو ہی کرنا ہے کہ اسے اپنے "حق مہر” کیلئے کچھ کرنا ہے یا پاکستان کی ہر مجبور عورت کی طرح عقدِ نکاح کوہر صورت قائم رکھنا ہے۔

Leave a Reply